بائیک خریدنے کا خواب

ایس معشوق احمد
ایک عرصہ بعد مجھے احساس ہوا کہ اب مجھ میں پیدل چلنے کی ہمت نہیں ہے۔ یہ ہرگز نہیں سمجھنا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں ۔اس کے سوا  اس احساس کے پیچھے دو محرکات ہیں۔ ایک  یہ کہ میری بغل سے کل کے لونڈے فرفر سے اپنی بائیک نکال لیتے ہیں۔ اس کا مجھے  گلہ نہیں لیکن جب سے صنف نازک نے اپنے نازک ہاتھوں میں بائیک کی  پرخطر ہینڈل لی اور انہوں نے بھی  کبھی میرے  دائیں تو کبھی بائیں ہارن بجا بجا کر  قیامت کا شور برپا کیا تو شدت سے  یہ احساس زور پکڑنے لگا کہ میرے پاس بھی کم سے کم ایک عدد بائیک ہونی چاہیے کہ میں اکیسویں صدی کا وہ واحد فرد ہوں جو اتنی پررونق سڑک پر پیدل چل رہا ہے۔دوسرا بڑا محرک دوستوں کے طعنے بنے جو اپنے اسکوٹروں پر جب بھی  میرے قریب سے گزرتے ہیں تو زور سے ہارن بجاتے  ہیں اور مجھ پر آوازے کستے ہیں۔صاحبو مرزا کہتے ہیں کہ دشمن کی گالی اتنا اثر نہیں کرتی جتنا دوست کا چڑانا طبیعت میں چڑچڑاہٹ پیدا کرتا ہے۔ان دونوں محرکات نے مجھے مجبور ہی نہیں بلکہ لاچار کیا کہ میں ایک عدد اسکوٹر یا اسکوٹی خرید ہی لوں۔ خریدنے کے لیے رقم کی ضرورت تھی جو میری جیب سے اسی طرح غائب تھی جیسے  آج کے دور  میں نیک لوگ نایاب ہیں۔اب میں بینک سے قرضہ لے کر اپنی تمنا پوری کرلیتا  لیکن مرزا کہتے ہیں کہ میاں بینک کا لون  اور کینسر کی بیماری ایک جیسی ہے کہ آدمی کو کھنگال کرکے چھوڑتی ہے۔ اس لیے مناسب جانا کہ کوئی سکینڈ ہینڈ بائیک ہی خرید لوں تاکہ آنے جانے میں سہولت اور طعنوں سے فراغت ملے۔

اس تیز رفتار دنیا میں جب  بھی میں  گھر سے  نکلتا ہوں تو شام سے پہلے  واپس  نہیں لوٹ پاتا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ بہت دور جاتا ہوں اور ایسا ہوتا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے  ہماری آدھی زندگی ڈرائیور حضرات نے سواریاں اٹھانے اور اُتارنے میں ضائع کردی ہے۔کہیں جانے کی جلدی ہو تو  پیدل چلنا بھی مناسب نہیں اور نہ ہی ڈرائیور حضرات کو رب نے سلیقہ دیا ہے کہ وہ  دوسروں کی مجبوری اور جلدی کو سمجھ پاتے۔اپنا قیمتی وقت  بچانے اور  سفر کو آسانی سے طے کرنے کے  لیے یاروں دوستوں سے ایک ماہ تک مفید مشورے لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں  کہ مجھے اسی  طرح بائیک خریدنے  کی ضرورت ہے جیسے کسی شدید زخمی  مریض کو خون کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکے۔ہر روز میں مصمم ارادہ کرتا تھا کہ آج میں ضرور بائیک خرید لوں گا لیکن مزدور شہزادی کا خواب دیکھ لے تو آنکھ کُھلتے ہی وہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مسئلہ صرف خریدنے کا نہیں تھا بلکہ اس سے بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا  کہ مجھے  سائیکل کے سوا کچھ بھی چلانا نہیں آتا تھا۔بائیک چلانے کے لیے دل نہیں بلکہ فولادی گردے چاہیے جو میرے پاس نہیں تھے۔ایک دو بار بائیک  چلانے کی کوشش کی تھی لیکن مکھی بھی سڑک پر چلتی تو میرا دل ایسے دھڑکنا شروع کرتا جیسے ہزاروں کے مجموعے میں پہلی بار تقریر کرنے والے شخص کا دل قابو میں نہیں رہتا۔ایسا ہرگز نہیں کہ مجھے سکھانے والے دوست میسر نہ تھے جو ہمہ وقت کان میں چلا کر بولتے رہتے تھے کہ  تو دنیا کا واحد شخص ہے جو کبھی بائیک نہیں چلا سکتا۔ ’’تو‘‘ کا استعمال وہ اس کرخت لہجے اور بدتمیزی سے کرتے تھے کہ مجھے نہ صرف سیکھنے سے نفرت ہوئی بلکہ دوستی کا لفظ بھی داغدار لگنے لگا۔مرزا کہتے ہیں کہ آج کل دوستی  مطلب کی اینٹوں سے بنی ہے۔ایک ایک  مطلب سے ایک ایک اینٹ گر جاتی ہے اور آخر کار دیوار کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں نے مرے صحن سے راستہ بنا لیا۔

صاحبو! ایک روز دل پر پتھر رکھ کر میں حوصلوں کے پہاڑ پر چڑھا اور اسکوٹی پر سوار ہوکر خریدنے کے واسطے ایک بائیک دیکھنے گیا۔اطلاعاً عرض ہے کہ اسکوٹی میں ہی چلا رہا تھا اور بچا بچا کر اتنی رفتار سے چلا رہا تھا جتنی تیز رفتار کچھوے کی ہوتی ہے۔ایک دوست بھی ساتھ تھا۔جب ہم منزل مقصود پر پہنچے جہاں وہ معتبر بائیک دیکھنی مقصود تھی تو جانے کیوں ایک صدی پیچھے جانے کا من کیا۔اگر ایک صدی قبل اس بائیک کو دیکھنے آتے جب یہ جوان اور نئی تھی تو یقینا دل کو مول لیتی لیکن آج یہ ماضی کی شاندار عمارت کھنڈر بن چکی تھی۔اس کا ہینڈل ایک طرف اس طرح جاتا تھا جیسے کبڑے انسان کے کندھے کا وزن ایک ہی طرف جاتا ہو۔میٹر بکس خراب ہی نہیں بلکہ موجود ہی نہیں تھا۔عین ممکن ہے کہ اگر غور سے وہاں دیکھا جائے تو ضرور کسی پرندے کا گھونسلہ نظر آئے،اسٹینڈ ٹوٹا ہوا، انجن لیک کررہاتھا اور تیل ایسے دھیرے دھیرے گر رہا تھا جیسے مریض کو گلکوز لگی ہو ، جگہ جگہ زخم زدہ تھی ،گرتے گرتے اب تھک چکا تھی اور فریاد کررہی تھی کہ خدارا مجھے اب اور تکلیف نہ دو۔اس کے ٹائر البتہ قدرے بہتر تھے اور ابھی چلنے کے قابل۔جس شخص نے یہ بائیک دکھائی وہ اس کی ایسے تعریف کررہا تھا جیسے نئی محبوبہ کی تعریف دوستوں کے سامنے کی جاتی ہے۔کبھی اس کو گھوڑا کہتا تھا تو کبھی جہاز۔صاحبو یہ تو ہم نے بھی دیکھا کہ یہ بائیک چلتی تھی اور واقعی گھوڑا کہنے کی مستحق کہ یہ وہ گھوڑا تھی جو اب ضعیف ہوچکا اور  چلنا تو دور اب گھاس کھانے اور کھڑا رہنے  کے لیے  بھی اسے سہارے کی ضرورت پڑے۔بائیک کی قیمت دس ہزار تھی اور امید ہے کہ آج سے پچاس سال بعد بھی اس کی یہی قیمت ہوگی کہ اس کا مالک اتنا ایماندار اور زبان کا پکا ہے کہ اسے یہ گوارا نہیں کہ وہ اس کی یہ قیمت تبدیل کرے اور زبان پر قائم نہ رہے۔ اپنی ناتوانی اور بائیک کی جوانی پر ہم بنا اسے خریدے واپس آئے۔دوست نے بے شک مفید مشورے دئے کہ اسے ہی خرید لو کہ پیسہ بھی بچ جائے گا اور سیکھ بھی جاؤ گے  لیکن خدا گواہ ہے کہ ہم نے مشورے پر عمل نہ کیا۔اگر خرید لی ہوتی تو مجھے محمکہ آثار قدیمہ سے رابطہ میں رہنا چاہیے تھا جو اس نمونے کی اچھی قیمت ادا کرتے۔اس نقصان کی تلافی نہیں ہوگی جو میرا ہوا۔اس بائیک کی بدولت  محکمہ آثار قدیمہ سے رشتہ بھی قائم ہوتا اور میرا نام بھی  سنہرے حروف میں لکھا جاتا کہ اس قدیم بائیک  کی کھوج فلاں شخص نے کی ہے۔

یہ ہرگز نہیں  ہوا کہ ایسی نایاب  بائیک  دیکھنے کے بعد مزید کچھ دیکھنے کی چاہ نہ ہوئی۔ اس عجوبے کو دیکھنے  کے بعد ایسے ایسے تُرّم خان جھوٹوں سے واسطہ پڑا جو خرید فروخت کا کاربار کرتے ہیں اور آٹھ کی چیز ساٹھ میں فروخت کرنے میں ماہر ہیں۔خدا نے ان سے بچایا ورنہ ان سے  خود کو بچانا اتنا ہی محال ہے جتنا بھوکے شیر سے ۔بعض دفعہ جیب کی تنگی بھی باعث رحمت ہے کہ انسان فضولیات سے ہی نہیں بچتا بلکہ قناعت پسند ،صابر اور شاکر بھی بن جاتا ہے۔شوق قابو میں رہتا ہے ورنہ بعض شوق ایسے بھی ہیں جو بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ہمیں ایسے شوق تو نہیں جو شوق مزاجوں کو ہوتے ہیں۔مرزا کہتے ہیں کہ تخلیق کار کو صاحب کتاب ،کنوارے کو دلہا بننے کا اور پیدل چلنے والے کو گاڑی خریدنے کا شوق ہوتا ہے۔ہماری جیب یہ اجازت نہیں دیتی کہ گاڑی خرید سکیں اور دوستوں کی نیند حرام کرنے کے لیے انہیں رات کو فون پر  یہ اطلاع دیں کہ کمینو مجھے صبح فلاں جگہ سیر سپاٹے کے واسطے اپنی گاڑی میں جانا ہے۔”اپنی گاڑی ” پر اتنا زور دینا ہے کہ واقعی ایک رات نہیں دو تین راتوں تک وہ نیند کی دیوی کے دیدار سے محروم رہے۔گاڑی خریدنے کا خواب تو ادھورا رہا اب جو شوق بائیک خریدنے کا پال رہا ہوں وہ پودا تناور درخت کب ہوگا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ابھی پچھلے دنوں ایک دوست نے فون پر یہ خوشخبری سنائی کہ پیٹرول کے دام بڑھ گئے ہیں۔ اب تم جیسے پتلی جیب والے  لوگ  بائیک اور گاڑیاں  بیچ دیں گے کہ وہ سونے کے دام پیٹرول  نہیں خرید سکتے۔ اس لیے جو خالی جیب ہیں  وہ اپنی گاڑیاں اور بائیکے سستے داموں بیچ دیں گے۔اسی خوشی میں چند ایسے  بائیک بیچنے والوں سے ملاقات ہوئی جو بچینا بھی چاہتے تھے اور رکھنا بھی چاہتے تھے۔ مرزا سے مشورہ کیا تو انہوں نے جواباً کہا کہ استعمال شدہ بائیک خریدنا  ایسا ہی ہے جیسے برف کی لکڑیاں بنا کر آگ جلانے کی کوشش کرنا،  دھوپ میں چھتری خریدنا  اور سردی میں تربوزہ کھانا۔میری مانو تو نئی خرید لو۔لفظ خریدنا سن کر  میری حالت ویسے ہی  ہوجاتی ہے جو  شدید سردی میں شلوار قمیص پہننے والے بندہ کی ہوتی ہے۔خواب دیکھنے چاہیں تاکہ بعد میں انہیں پورے کرنے کی انسان کوشش کر سکے۔میں نے بھی حوصلہ کرکے بائیک خریدنے کا خواب دیکھ لیا ہے۔دعا کیجیے کہ جلد پوار ہوجائے۔۔مرزا کہتے ہیں کہ بعض خواب جنبش لب کے منتظر ہوتے ہیں کہ ہونٹ ہل جائے ،ہاتھ کھڑے ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ خواب پورے ہوجائیں گے۔میرا بائیک خریدنے کا خواب جوں ہی پورا ہوگا میں آپ کی دعاؤں کے لیے آپ کا شکریہ ادا کروں گا تب تک دعا کرتے رہے ۔

 

���

موبائل نمبر؛8493981240