’کووِڈ ۔۱۹ ‘یا ’کرونا وائرس ‘نامی مہلک و خطرناک بیماری کی دوا اور اس کے ٹیکے کی ایجاد میں گذشتہ ایک سال سے دنیا بھر کے سائنسدان ،ڈاکٹر اور طبی ماہرین سرگرداںہیں۔ٹیکہ کے تعلق سے اگرچہ آئے دن اُمید افزا خبریں بھی آرہی ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ اب تک اس میں اطمینان بخش کامیابی نہیں مل پائی ہے۔ان حالات میں عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جو ہدایات جاری کی گئی ہیں ،اُن کے مطابق دیگر ممالک اور وطن عزیز کے صحت کے اداروں اور طبی ماہرین کی جانب سے یہی کہا جارہا ہے فی الحال اس وباء سے بچنے کا واحد طریقہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہے۔ادارہ ٔ صحت کی طرف سے بار بار دہرایا جارہا ہے کہ جب تک اس وائرس کے خاتمہ کی مکمل طور پر کوئی اطمینان بخش دوا یا ٹیکہ ایجاد نہیں ہوجاتا تب تک احتیاطی تدابیر کے ذریعہ اپنے آپ کو کافی حد تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔لیکن اپنے یہاں یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ ان احتیاطی تدابیر کوقابل ِ اعتنا نہیں سمجھتے اور اس بیماری کو پھیلنے کے اسباب و ذرائع کو روکنے کے عمل کا کوئی خیال نہیں کرتے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بیماری اور پریشانی سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور محفوظ رہنے کے لئے مختلف اسباب و ذرائع استعمال کرنا کیا توکل علی اللہ کے منافی ہے؟ تو جواب ہوگا کہ نہیں،قطعاً نہیں۔بلکہ یہ تو شریعت اسلامیہ کے مزاج کے عین مطابق ہے،کیونکہ اسلام ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا جائے۔
اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے ہمیں ایمان اسلام کی دولت نصیب ہوئی ہے ۔ہمارا عقیدہ ٔ جازم ہے کہ اللہ رب العالمین ہر چیز پر قادر ہے ،اس کی مرضی اور مشیت کے بغیر ایک پتہ بھی حرکت نہیں کرسکتا ۔کسی کو بیمار کرنا اور شفا عطا فرمانا اُسی کی مرضی پر منحصر ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیماری و شفا کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اس قدرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا:’’اور جب میں بیمار پڑجائوں تو وہی(اللہ)مجھے شفا عطا فرماتا ہے۔‘‘(الشعراء۔۸۰)
معلوم ہوا کہ کسی بیماری کا نزول بھی اللہ تعالیٰ ہی فرماتا ہے اور اس بیماری کو ٹھیک بھی وہی کرتا ہے۔نیز ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ تمام امور میں اور ہر طرح کے شرو فساد اور پریشانی سے حفاظت و بچائو میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کرے۔لیکن توکل علی اللہ کا یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ آدمی بیماری اور تکلیف دہ چیز سے محفوظ رہنے اور بچنے کے لئے علاج و معالجہ نہ کرے،تدابیر نہ کرے اور اسباب و ذرائع اوروسائل کو ترک کردے،بلکہ توکل کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ بیمار ہونے پر دعا اور دوا استعمال کرے،اس سے محفوظ رہنے کے لئے دیگر تدابیر اختیار کرے لیکن یہ عقیدہ رکھے کہ دعا اور دوا از خود کارگر اور مؤثر نہیں کہ وہ کسی بیماری کو ختم کردیں اور نہ خود احتیاطی تدابیر میں اتنی طاقت ہے کہ وہ بیماری سے بچا سکتی ہیںجب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی مرضی نہ ہو۔ایک مریض دوا کے استعمال سے تبھی شفا یاب ہوسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس مریض کو اس دوا سے شفا یابی کا ارادہ فرمائے،ورنہ کتنے مریض ہیں جو بہترین علاج و معالجہ کے باوجود جاں بر نہیں ہوپاتے اور موت کی نیند سوجاتے ہیں۔
ہمارے لئے ہدایت و رہنمائی کے مصادر قرآن و حدیث اور پیار ے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ سے واضح طور پر یہ ثبوت ملتا ہے کہ کسی بھی پریشانی سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر کا استعمال جائز اور درست ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن دشمن سے مقابلہ کی تیاری کرنا اور اس کے شَر سے محفوظ رہنے کے لئے وسائل کا اختیار کرنا اور اپنی قوت مضبوط رکھنا بھی عین شریعت کے موافق ہے۔بھلا رسول اکرم ؐ سے بھی زیادہ کوئی اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کرنے والا ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ پر مکمل توکل کے ساتھ آپ احتیاطی تدابیر بھی اختیار فرمایا کرتے تھے ۔رات میں سونے سے قبل سورۂ اخلاص و معوذ تین کی تلاوت کرکے اپنے دونوں ہاتھوں پر دم کرکے پورے جسم پر پھیرنا،یہ تعلیم دینا کہ اگر کوئی کسی جگہ پر جائے اور ’’اعوذ بکلمات اللہ التامات من شرما خلق‘‘پڑھ لے تو جب تک وہاں رہے گا کوئی چیز اس کو نقصان نہیں پہنچا پائے گی،نیز فرمانا کہ جو شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات پڑھ لیتا ہے تو یہ اس کو کافی ہوجاتی ہیں یعنی اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس بندہ کی حفاظت فرماتا ہے۔ہجرت مدینہ کے موقع پر آپؐنے جو اعمال انجام دیئے وہ بھی احتیاطی تدابیر ہی تھیں کہ آپؐ نے ہجرت کے بارے میں صرف ابوبکر صدیق ؓ کو باخبر کیا،رات میں آپ ؐمکہ سے نکلے ،تین دن تک غار ِ ثور میں رہے ،کیا بھلا ۔العیاذ باللہ ،کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ آپؐ کو اللہ رب العالمین پر بھروسہ نہیں تھا کہ وہ جو چاہے گا وہی ہوگا ؟اگر آپؐ چاہتے تو دن کے اُجالے میں غار میں رہنے کو ترک کرتے ہوئے نکل جاتے کہ جو مقدر ہوگا وہ ہوکر رہے گا لیکن نہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ہی اپنے رب پر مکمل توکل کیا۔
ایک شخص نے رسول اللہ ؐ سے سوال کیا کہ میں اپنی اونٹنی کو باندھ کر اللہ پر بھروسہ کروں یا چھوڑ دو ںاور اللہ پر بھروسہ کروں؟تو آپؐ نے فرمایا ’’پہلے باندھ دو پھر توکل کرو۔‘‘اگر کوئی شخص یوں ہی بیٹھا رہے اور تمنا کرے کہ مجھے بیٹھے بٹھائے روزی مل جائے گی تو کیا کوئی ایسے شخص کو صاحبِ عقل کہے گا؟ظاہر ہے اس کو بے وقوفوں میں شمار کیا جائے گا اور یہی کہا جائے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے روزی نہیں ملتی ۔چنانچہ آدمی روزی کمانے کے لئے تگ و دَو اور محنت کرتا ہے ،بیمار ہونے پر دوا کا استعمال کرتا ہے،سردی کا موسم آنے پر ایسے کپڑوں کو زیبِ تن کرتا ہے جو اس کو موسم کی سختی سے محفوظ رکھ سکیں۔بلاشبہ ان تدابیر اور ذرائع و وسائل کے استعمال کی اسلام اجازت دیتا ہے اور قطعاً یہ نہیں کہتا کہ یہ توکل علی اللہ کے منافی ہے۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تدابیر اختیار کرنے اور ذرائع و اسباب برائے کار لانے کے باوجود کامیابی نہیں ملتی ۔یہی تقدیر ہے کہ اللہ نے جو مقدر کردیا ہے وہ اس کی مرضی سے ہوکر رہے گا لیکن اسی کو بنیاد بناکر ذرائع و اسباب کو ترک کردینا بالکل شریعت کے مزاج کے موافق نہیں۔
خلاصۂ کلام یہ کہ موجودہ عالمی وبائی مرض کرونا وائرس (کووِڈ۔۱۹)سے بچائو کے لئے جن احتیاطی تدابیر کی رہنمائی کی گئی ہے ان کو اختیار کیا جائے ،ان کو اختیار کرنا توکل علی اللہ کے منافی نہیں بلکہ توکل کے عین موافق ہے نیز کسی بھی تدبیر کو اختیار کرنے اور دوا کے استعمال کے موقع پر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ تدبیر اور دوا اُسی وقت مفید اور کارگر ہوسکتی ہے جب اللہ چاہے ،کیونکہ اس کی مشیت کے بغیر نہ کوئی فائدہ ہوسکتا ہے اور نہ کوئی نقصان ٹل سکتا ہے ،لیکن آنے والے وقت میں کیا ہوگا ؟ اس کا علم کسی کو نہیں۔اس لئے نفع کے حصول اور نقصان و تکلیف کے ازالہ کے لئے جائز اور مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں تمام معاملات میں کتاب و سنت پر عمل کرنے،اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنانے اور بے جا شدت پسندی سے محفوظ رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
رابطہ۔ سولنہ، سرینگرکشمیر
فون نمبر۔9419714763