سید مصطفیٰ احمد
منشیات تباہی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہورہا ہے۔ نابالغ لڑکوں اور لڑکیوں کے علاوہ نوجوان طبقہ بھی اس گندی لت میں گردن تک ڈوب گئے ہیں۔ کوئی بھی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں پر منشیات میں مبتلا لوگوں کے نشانات نہ ہوں۔ گھروں سے لے کر بازار تک کوئی بھی جگہ منشیات میں مبتلا اور منشیات فروشوں سے خالی نہیں ہے۔ اب صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تعلیمی ادارے بھی اس وباء میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ میڈیا میں ایسی ایسی خبریں منشیات کے متعلق شائع اور نشر ہوتی ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ کہیں پر کسی منشیات فروش کی پراپرٹی قرق کی جاتی ہے تو کہیں پر ناجائز طریقوں سے منشیات سمگلنگ کرنے والوں کو رنگے ہاتھ پکڑا جاتا ہے۔ہمارے یہاں دن کی شروعات منشیات فروشوں کے کالی کرتوتوں سے شروع ہوتی ہیں تو شام اِنہی سماج دشمن عناصر کی گرفتاری یا ان کی جائداد کے قرق ہونے پر ختم ضرور ہوتی ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور سماج مجموعی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ لوگوں کی یاداشت بھی بہت کمزور ہے، وہ سماج دشمن عناصر کو جلد بھول جاتے ہیں بلکہ سماج دوست افراد کو کڑی سزائیں مختص کرتے ہیں۔ اس طرح سماج بدترین ڈگر پر چلنا شروع کرتا ہے اور دھیرے دھیرے دیمک کی طرح منشیات سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔
اصل میں جب سماج میں بےروزگاری اور دیکھا دیکھی کا جنون پیدا ہوتا ہے تب لوگ ناجائز طریقوں سے،خاص کر منشیات کا کاروبار کرکے پیٹ اور اَنا کی آگ کو بجھانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ نابالغ گندے ماحول میں پھنس کر منشیات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نابالغ بےروزگاری کے عالم میں اپنے آپ کو پاکر منشیات کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ گھر کی ضروریات کے علاوہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وہ نشے آور چیزوں کو بیچ کراپنا گزارہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماں باپ کے محنت سے کمائےہوئے پیسوں کو ضائع ہوتا دیکھ کر وہ خود بھی منشیات کا مزہ اٹھانے لگتے ہیں۔ جسم میں برقی سگنلز کو دماغ تک پہنچنے سے قبل ہی اُن پر منشیات میں موجود کمیکلزاُنہیں بدمست کردیتے ہیں، جس سے کچھ وقت کے لئے مصنوعی سکون میسر ہوتا ہے۔ لیکن اپنی میعاد پوری ہونے پر پھر سے بےقراری اور بےسکونے کا سماں چھا جاتا ہے،جس سے اُن کی طلب بڑھتی جارہی ہے۔ جوان منشیات کا شکار تب ہوجاتے ہیں جب گھریلو جھگڑوں کے علاوہ معاشی سختیاں دامن گیر ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ناجائز رشتوں میں بندھنے سے بھی ایک جوان ذہنی بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے ، جس کامنتہج منشیات کی طلب ہوتا ہے۔
منشیات کے نقصانات چار سو ہیں۔ پیسوں کے علاوہ جانوں کا بھی ضیاع ہورہا ہے، خوبصورت جوانیاں منشیات کی گندی لت میں تباہ ہورہی ہیں۔ گھروں کے گھر تباہ ہورہے ہیں۔ منشیات میں مبتلا نوجوان اپنے ماں باپ کو مارنے پیٹنےسے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ کچھ منشیات میں مبتلا نوجوان اپنے بھائی بہن کے پیسوں اور زیورات پر بھی ڈاکہ مارنے سے پیچھے نہیں ہٹتے ہیں۔ جمع پونجی کو داؤ پر لگانا منشیات فروشوں کا بنیادی مشغلہ ہیں۔ اپنی جوانیاں drug rehabilitation centres میں کاٹنا بھی کوئی زندگی ہے! اپنے آپ سے دور اور سماج میں بےعزتی کی نگاہوں سے دیکھے جانے والے منشیات میں مبتلا لوگوں کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے؟ اس لئے مزید دیر کرنےسے بہتر ہے کہ منشیات کی وباء پر قابو پانے کی حتی الامکان کوششیں کی جائیں۔روزگار کے مواقع زیادہ سے زیادہ پیدا کئے جائیں۔منشیات میں مبتلا لوگوں کے ساتھ انسانی سلوک کیا جائے۔ مذہبی ذمہ داروں کو بھی اپنا بھرپور رول ادا کرنا چاہیے۔ سماج کی ذہن سازی کرنے کے لیے ان مذہبی پیشواؤں کو خوب محنت کرنی ہوگی کیونکہ مذہبی سرپرستوں کا اثر ہمارے سماج پر نمایاں ہے، اُن کی باتیں غور سے سنی جاتی ہیں، اُن کے ذریعے بہت سارے گھرانوں کو تباہی سے بچایا جاسکتا ہے۔حکومت کو بھی اپنا خاطرخواہ رول انجام دینا چاہیے تاکہ سماج کی جڑوں میں پیدا شدہ خرابیوں کو اُکھاڑ پھینکا جائے۔ حکومت کی ہی نگرانی سماج میں تیزی سے پھیل رہی منشیات کی لت کو قابو میں لاسکتی ہے۔ ہم سب کو منشیات کے خلاف لڑنے کا عزم کرنا چاہیے۔پہلے خود سے شروعات کرکے ہم سب کو چاہئے کہ ایک باکردار زندگی گزارنے کو ترجیح دیں۔ زندگی ایک انمول تحفہ ہے،اس کو یونہی ضائع کرنا خیانت کے مترادف ہے۔ زیادہ دیر ہونے سے پہلے بہتر ہے کہ ہوش کے ناخن لئے جائیں۔
(رابطہ۔ : 7006031540)
[email protected]