اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں

ہمارا کام تو نعرۂ مستانہ لگانے کا رہا ہے، اسی لئے ہم یہ ملک ہمارا ہے اس کا فیصلہ ہم کریں گے نہ جانے کتنی دہائیوں سے لگاتے آرہے ہیں ۔اس لئے شہر خاص کی تنگ گلیوں میں، نالہ مار کی چوڑی پہنائیوں میں، گائوں گائوں کے یمین و یسار میں ہماری آواز سے ایوان لرزتے رہے ہیںمگر جب سے دوات کے اندر کنول کھلنے لگے ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ نعرۂ بزدلانہ لگائو۔سو ہم لگا رہے ہیں ۔کوئی کان دھرے نہ دھرے۔اپنے دروازوں کے کواڑ بند کردو۔کھڑکیوں پر پردے گرائو ۔دیکھنا ہے تو دریچوں سے جھانک کر دیکھو کیونکہ کس کے سر پر پتھر لگے اس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں۔مدھیہ پردیش کے قبائل کی بڑی’’ جن سینا‘‘ ایران صغیر کے سودیش میں پدھار رہی ہے ۔اُنہیں ملال ہے کہ خاکی وردی والے پیلٹ، پاوا اور گولی سے اہل کشمیر کو قابو نہیں کر پائے، اس لئے وہ اپنی بہادرانہ خدمات انجام دے کر سات لاکھ فوج کو سونتر تا دے کر رہے گی۔اتنا ہی نہیں کانپوری پجاری کی تیرہ ہزار فوج بھی تیار کھڑی ہے کہ کب کوچ کرنے کا حکم صادر ہو اور وہ اہل کشمیر کو دن میں تارے دکھانے پہنچ جائیں۔انہیں بھی رنج ہے کہ سات لاکھ فوجی ایسے ہی گھوم گھام رہے ہیں جب کہ کانپوری فوج کا بس ایک دستہ کافی ہے لیکن انہیں کیا معلوم ملک کشمیر میں مٹی کیا خاصیت رکھتی ہے  ؎ 
تمہیں جینے میں آسانی بہت ہے
تمہارے خون میں پانی بہت ہے
زہر سولی نے گالی گولیوں نے
ہماری ذات پہچانی بہت ہے
کہاں یوگی بابا کے ایک حکم سے سارے گوشت فروش نان شبینہ کے محتاج ہوگئے اور کہاں ہٹے کٹے فوجی دبلے پتلے کشمیریوں کا مقابلہ کر نہیں پاتے!!!ہوشیار خبر دار کوئی شور نہ مچائے ۔کوئی مسجد میں اذان نہ دے کہ سنگیت بابا سونو منڈا کی نیند ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کا تو کبھی کبھار ہی سر ٹوٹ جاتا ہے لیکن اذان کے سبب اس کا نیند میں سر تال نہیں مل پاتا۔وہ تو بانہال پار کی بات ہے لیکن اپنے ملک کشمیر بہت سارے لوگ  مزے کی نیند سو رہے ہیں اور انہیں نیند سے جگانا یا ڈسٹرب کرنا غیر معقول بات ہے۔خبردار کسی گاڑی کا ہارن نہ بجے کہ نیند ٹوٹنے کا ڈر ہے۔اور اگر صاحبان اقتدار و اختیار کی نیند ٹوٹی تو کسی کی خیر نہیںکہ صاحبانِ اختیار کی مرضی ہے کہ وہ کسی کی بھی ہڈی توڑ دیں یا کاکر خان کی طرح کسی کا کان اورناک چبائیں،فقط انہیں چھیڑنے کی حماقت درکار ہے جیسے کسی سانڈ کو سرخ کپڑا دکھا کر کہیں بھی دوڑایا جاسکتا ہے ۔اسی لئے جب پلوامہ کالج میں وہ خزانہ ٔ طاقت کے مالک ومختارگھس بیٹھے تو سفید وردی والے ننھے پھولوں کو ایسا لتاڑا کہ ان کی چیخیں نکل گئیں لیکن کسی محبوبہ، کسی نعیم، کسی درابو کے کان پر جوں نہ رینگی بلکہ وہ جو کالج کا سربراہ بیچ بچائو کے لئے نکلا تو اُسے لائن حاضر کردیا کہ  یہ منہ اور مسور کی دال ۔بھلا اسے اتنا بھی نہیں پتہ کہ صاحبان اقتدار و اختیار نیند میں ہیں انہیں جگانا کوئی آسان کام نہیںلیکن بھلا ہم بھی کہاں چپ رہنے والے ہیں۔سرینگر کی بیٹیاں تو میدان عمل میںکود پڑیں۔وہ نڈر دلیر بچیاں ،وہ بڑھ رہی ہیں ہر طرف،جہان ِخفتہ کا مردہ ضمیر کو جھنجوڑنے،کھڑی ہیں لالچوک میں،ستم گروں کا دست ظلم توڑنے ۔ بس پھر کیا تھا صاحبان اقتدار کی نیند ٹوٹ گئی اور بقول شاعر سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ۔اور وہ جو حسیب اور رام جی نے سرکار کا مادھو تراشا تھا اس پر جو نقاب اُتری تو یک لخت اتری ۔اندر تو پتلا مٹی کا مادھو نکلا ۔ہم تو سوچے تھے کہ اس میں ایجنڈا آف الائینس کا لوہا بھرا ہوگا۔آپسی میل جول کا سیمنٹ ڈلا ہوگا ۔بات چیت کا مضبوط مکسچر بھر اہوگا جس سے یہ مادھو مضبوط بنا ہولیکن نقاب سرکا تو حال کچھ دگرگوں نظر آیا۔شاید اسی لئے مادھو کی میٹنگ میں حسیب بن بلائے مہمان کی طرح پہنچا یعنی بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ وار ناچا ۔بند کمرے میں لے جا کر یہ جتانے کی کوشش کی کہ قطبین کو ملا کر جو  چون چوں کامر بہ والی سرکار پیداہوئی ہوئی وہ مضبوط ہے لیکن رام نے مادھو سے یہ کہہ کر پردہ ہٹایا کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔اگر کرسی کی خیر چاہتے ہو تو پرانی تنخواہ پر کام کرتے رہو۔وہ قلم دوات والے جو بڑی شیخی بگھارتے تھے کہ ہم نے اہل جموں و کشمیر کی خاطر  دوات کے اندر کنول کھلائے ،وہ سن کربوکھلائے نظر آئے۔دہائیاں دیں کہ ابھی الیکشن کا خرچہ بھی وصول نہیں ہوا کہ کرسی کے لالے پڑنے لگے یعنی سر منڈھایا نہیں کہ رام نے سونم لوٹس کا روپ دھار لیا اور اولے گرنے کی پیش گوئی کردی۔اس کرسی کے حصول کے لئے کیا کیا نہیں کیا۔ خاص وعام جو بھی اللہ کو پیارا ہوا اس کے گھر جا کر تعزیت ہی نہیں بلکہ آنسو بھی بہائے جن کو اپنے دور میں آنکھوں سے بینائی چھین لی ان کے قریب جا کر ہسپتال میں دلاسہ دیا کہ ہم تو تن من دھن سے آپ کے ساتھ ہیں بلکہ اس حد تک کہ اپنی آنکھیں تحفے میں دینے کے خواہاں ہیں ۔یہ اور بات تھی کہ ہمیں معلوم تھا  انہیں ایسا نقصان پہنچا ہے کہ آنکھیں اس کا مداوا نہیں کر سکتیںاور وہی کرسی جو دور ہوتی دکھی تو اپنی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ادھر کنول والوں کے دل مرجھا نے لگے کہ زندگی میں پہلی بار وارے نیارے ہونے لگے تھے کہ دل کے ٹوٹے ٹوٹے ہونے لگے۔کہیں گائے ماتا کی پوجا کی کہیں مودی مہاراج کے گن گائے تو کرسی ہاتھ لگی لیکن اب کی بار نہ جانے کیا چمتکار ہونے لگا کہ گلکار کا کام دستِ نجار سے بھی ہوسکتا ہے ۔کسی نے اسی ادھیڑ بُن میں کہ عیش و آرام کی گنگا رکنے والی ہے کیونکہ کرسی گئی تو اب گئی سنگ باز ایسوسی ایشن کو اینٹ کا جواب پتھر سے اور پتھر کا جواب گولی سے دینے کا فرمان جاری کردیا۔ پھر سب پہنچے کرسی دان کرنے والے منبع تک۔مودی جی گنگا نہاؤ ،جمنا تٹ پر دھونی رمائو ، سرسوتی کا پانی پی کر گلا صاف کرو لیکن کسی طرح ہماری نوکری بچائو ۔مودی جی بھی جلال میں آکر دو تین مہینے کی فرصت دے بیٹھے یعنی دو تین مہینے میں سدھر جائو نہیں تو ہمیں سدھارنے کے کئی ایک طریقے آتے ہیں۔ہم سے کچھ نہ بن سکا تو ہم گو رکھشک کھلے عام چھوڑ سکتے ہیں کہ ان کی بات مان کر ہم نے گائیوں کے شناختی کارڈ بنوا ڈالے ۔سینگ کی لمبائی،رنگ، سائز ، آواز اور سرتال وغیرہ سب کچھ درج کروایا۔بھلے ہم سب کا وکاس نہ کر پائے ہوں لیکن گائے ماتا کے نام پر سبھی مشٹنڈوں کا ساتھ میرے ایک اشارے پر حاضر خدمت ہے اور ہم سب کی ہڈی پسلی ایک کرا سکتے ہیں بلکہ ہر پہلو مار مار کر خان کی جان بھی نکال سکتے ہیںاور ان مشٹنڈوں میں قبائل بھی ہیں جو غلیلوں سے پتھر بازی کا ہنر جانتے ہیںاور وہ تیرہ ہزار فوجی بھی جو کسی کانپوری پجاری نے تیار کئے ہیں کہ چڑھ جا بیٹا سولی رام بھلی کرے گالیکن اسے ہی کشمیر میں کہتے ہیں ہسی دَرَن نہ واوس بُجہِ کَڈن کپس(ہاتھی طوفان کے سامنے ٹِک نہیں پاتے لیکن بوڑھیاں کپاس چننے لگیں)۔مطلب سات لاکھ فوجی اور دوسرے فورسز اہل کشمیر کے سامنے کچھ نہیں کر پاتے لیکن پتھر پھینکنے والے مسلٔہ حل کردیں گے۔اتنا ہی نہیں ہمارے پاس ایسے بندوق برداروں اور بم بارود والوں کی کھیپ ہے جنہیں ہماری پولیس ہی پکڑتی اور این آئی اے کو ان کے جرم نظر نہیں آتے کہ ہم نے میڈ اِن انڈیا عینکیں تیار کروائی ہیں کہ وہ بے گناہ دُکھ جائیں ۔بھروسہ نہ ہو تو ان کو دیکھو جو بارہ سال بعد بے گناہ ثابت ہوئے لیکن ہم نے پہلے ہی انہیں دہشت گرد منوالیا اور وہ جو ہماری کھیپ ہے وہ با عزت بری۔مرتا کیا نہ کرتا،ایک تو سادھوی ہے اور دوسرے بیمار ،کچھ تو خیال کرنا ہی تھا  ؎
اب کہاں جائو گے ڈھونڈنے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمیں پہ رکھ دو
ایسے میں لگتا ہے نیند کھلتی جا رہی ہے ۔بھلے اذان کی آواز سے کھلے، اشک آوار گولوں سے کھلے یا مودی مہاراج کی سرزنش سے ۔یقین نہ آئے تو بیگ کی وکیلانا سجھاؤپر غور وخوض ہو کہ محبوبہ جی واپس اپنے لوگوں کے پاس جائو مگر ستم بالائے ستم انہوں نے تو  عوام الناس کو پہلے ہی  اپنے حرم ِ سیاست میںسہ طلاق دے کرو داع کردیا ہے۔وہ تو ۲۰۱۶ء نہیں بھولے، ٹافی دودھ نہیں بھولے، چھید کرنے والے چھرے نہ بھولے، اور جمہوری تماشے میں زخم و نمک نہ بھولے ۔ کرسی اور جمہوری تماشے کے درمیان کشا کش میں کر لیا ہے ضمیر کو تار تار مودی ۔مودی مہاراج سے جو بِنتی کرنے میڈم دلی دربارپہنچیں تو باہر نکل کر ہمیں بتانے کی کوشش کی کہ بات چیت ہوگی،یقیناً ہوگی، مسلٔہ کشمیر پر ہوگی، بلکہ قوم کے غم میں سب سنگھیوں کو جمع کر کے وازہ وان کاڈنر کھلائیں گے وہ بھی گیسٹ کنٹرول قانون کی دھجیاں اٹھاتے ہوئے۔ادھر کے ادھر کے، ہل والے قلم والے، کیا وہ ہڑتالی برادری بھی بلائی جائے گی لیکن ہم تو اہل کشمیر ہیں اللہ میاں کی گائے سہی لیکن اب تو سب کچھ پہچانتے ہیں۔اب تو اہل سیاست کی سچی باتوں پر یقین نہیں جھوٹ اور مکرو فریب کا سوال نہیں۔اہل سیاست نے کچھ تانے بانے بنے تھے ہم نے اپنی سوچوں میں کچھ اور نقشہ کھینچا تھا اور چونکہ ہم پبلک ہیں اس لئے سب جانتے ہیں ۔ان کا تو خیالی پلائو تھا لیکن ہم جو پبلک ہیں،جو ہم نے سوچا تھا وہ صبح صبح ہوتے ہوئے سامنے آیا ۔مودی مہاراج کے چیلے چانٹے میدان میں بانڈا پھوڑنے پہنچے،کسی کے ساتھ بات چیت سے انکار کیا۔ قوم کے غم میں ڈنر کی بات کو نکارا۔وہ تو خود نکسلیوں نے ایوان ہلا دئے کہ خود مودی مہاراج کے ایوان لرز گئے۔کس سے بات کریں کس کو دعا دیں۔ ہم اور آپ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
بات کرنی ہے بات کون کرے
درد سے دودو ہاتھ کون کرے
 
رابط؛[email protected]/9419009169