اللہ تعالی نے انسان کو سب سے اشرف مخلوق بنا کر اس دنیا میں اس کو خلیفہ کا تاج پہنایا۔ اگر یہ کہا جاے تو غلط بھی نہ ہوگا کہ خدا نے اسے اپنے ہی سانچے میں ڈال کر،اس دنیا میں بھیجا۔ وسیع وعریض کائنات اس کی خدمت میں رکھی تاکہ وہ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ موسموں کو، جانوروں کو اور دوسری مخلوقات کو اس کے تابع کرکے یہ بات باور کرانے کی کوشش کی کہ تیرا مرتبہ کتنا اونچا ہے۔ اگر تو بلندیوں کو چھونا چاہتا ہے، تو ہر کوئی چیز یہاں موجود ہے، تو ان کے سہارے آگے بڑھتا جا اور اللہ کی زمین کوامن کا گہوارہ بناتا جا۔مگر اس کے برعکس انسان نے اپنی صلاحیتوں کا ناجائز استعمال کیا۔ اس نے اس زمین کو فساد سے بھر دیا۔ ہر جگہ ہر کوئی نظام درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ زمین سے لے کر آسمان تک افراتفری کا عالم پیدا کر دیا۔ دکھ درد کا بازار گرم کر دیا۔ جنگوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ جاری کر دیا۔ گلے شکوے آئے دن کے مشاغل بنے۔ یعنی پوری کی پوری دنیا تفرقہ کا شکار ہوچکی ہے۔ ہم یہاں انسان کی کچھ ظاہری برائیوں کا ذکر کرتے ہیں، جس سے کم از کم یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ انسان کی حیثیت اب کیا رہ گئ ہے۔
(۱)جنگیں۔ آج یہ تو آنکھوں سے دکھائی دینے والی جنگیں لڑی جارہی ہے یا پھر پردے کے پیچھے جنگوں کا ایک بازار گرم ہے، جن کا بنیادی مقصد چودھراہٹ، مال و دولت کی ہوس، انتہا پسندی اور انا کی تکمیل۔ انہی جنگوں نے اس خوبصورت دنیا کو مصیبتوں کا مسکن بنا دیا ہےاور یہی انسان کی عظمت کا تضاد ہے۔ کیا یہ دنیا اسی لئے بنائی گئی تھی؟ (۲) دوسروں کی زندگی مشکل بنانا۔ بظاہر ہر کوئی اچھا اور خوبصورت دکھائی دے رہا ہے، مگر در پردہ بُرائیوںاور خرابیوںسے لبریزوہ اتنا بدصورت ہوچکا ہےکہ اب اُس سے دوسروں کا جینا بہت مشکل ہوگیا ہے۔حسد، بغض اور کینہ نے تو انسان کا سکون چھین لیا ہے،اس لئے اب کسی کی بھی ترقی دوسروں کو ہضم نہیں ہوتیں، کسی کا بھی بڑے منصب پر براجمان ہونا دوسروں کے گلے سے نہیں اُترتا ہے۔بس !ایک دوسرے کو مسمار وخوار دیکھنا ہی آج کے انسان کا مرغوب مشغلہ بن گیا ہے۔ (۳) رُسوائی۔ بلا کسی خوف و ڈر کے اب انسان کو رُسوا ہونے میں مزہ آتا ہے۔ اللہ کی نگاہوں میںتو انسان کب کی ناپسندیدہ مخلوق بن گئ ہے۔شائد اسی لئے اونچے درجےسے نیچے آنے میں اب انسان کو کوئی شرم نہیں آتی ہے۔ جو خصائل انسان میں موجود ہونے چاہیے تھے، اب وہ جانوروں میں پائے جاتے ہیں۔ محبت، ہمدردی اور یک جہتی اب دوسری مخلوقات میں پائی جاتی ہیں، مگر صرف انسان ہی ان معاملات میں پرے ہوگیا ہے۔
جب تک انسان اپنے منصب کو پھر سے دریافت نہ کرے، تب تک یہ دنیا لڑائی اور فتنوں کی آماجگاہ بنتی رہے گی۔ زمین کے وسائل کو بہترین انداز میں استعمال کرنے میں ہی مسائل کے حل کےراز پوشیدہ ہے۔ ایک دوسرے کی چاہت ہی ہمیں اس بھنور سے نجات دلا سکتی ہے۔ قدرتی نظام پر عمل کرنے سے ہی ہر مسئلہ کو ہم ٹھیک کرسکتے ہیں۔ اس نظام میں وہ باتیں موجود ہیں، جو انسان کے بنائے ہوئے نظاموں میں نہیںپائی جاتیں۔ تو وقت کی نزاکت یہی ہے کہ انسان پھر سے انسان بنے اور اس زمین کو امن کا گہوارہ رہنے دے۔ یہ زمین صرف انسان کی ملکیت نہیں ہے،یہ زمین دیگر تمام مخلوقات کا مسکن ہے۔ خود کے لئے تو نہیں، مگر دوسروں کے لئے تو اس زمین کو تو زمین ہی رہنے دے۔ ان دیگر مخلوقات نے تو آپ کا کچھ نہیں بگاڑا ہے ،اُن کا کوئی قصور بھی نہیں ہے، تو پھر کیوں وہ موت کا شکار بنیں؟
(مدرس حسینی پبلک اسکول ایچ ایم ٹی، زینہ کوٹ، سرینگر)