ایک شاخ کے دو پھول

میاں بیوی کا رشتہ دنیا کا پہلا مقدس رشتہ ہے۔میاں بیوی دونوں ایک ہی شاخ کے دو پھول ہیں ،یہ ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔خالق کائنات نے سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور جنت میں داخل کیا ،جہاں اس کے لئے عیش و آرام کا سارا سامان مہیا تھا،ہر قسم کی ضیافتیں میسر تھیں،جو چیز چاہتا وہ حاضرتھا ۔وہاں کسی بھی قسم کی کوئی پریشان نہیں تھی ۔لیکن اس کے باوجود آدم علیہ السلام کو کسی چیز کی کمی محسوس ہورہی تھی ۔وہ پوری طرح سے مطمئن نہیں تھا،دل میں بےاطمینانی موجود تھی،ایک انجانی چیز کی چاہ تھی ،جس کو خدا کے بغیر کوئی سمجھ ہی نہیں پاتا ۔بلا ٓخر خالق کون و مکاں نے کا ئنات کی پہلی عورت حضرت حواؑ کو پیدا کیا اور حضرت آدم کے پاس میں بیٹھنے کا حکم دیا ۔آدم علیہ السلام جب نیند سے بیدار ہوئے تو پاس میں ایک حسین و جمیل خاتون اول کو دیکھ کر خوشی سے مسکرانے لگے ۔روح کو سکون ملا اور دل کو اطمینان ۔بعد میں ان دونوں کا نکاح ہوا ۔یوں دنیا کا پہلا مقدس رشتہ میاں بیوی کا رشتہ وجود میں آیا،اس کے بعد ان کی اولادیں ہوئیں اور دنیا کا دوسرا عظیم رشتہ والدین کا رشتہ فروغ پایا ۔پھر تیسرا رشتہ بھائی بہن کا رشتہ خلق ہوا وغیرہ وغیرہ۔
  دنیا کا یہ مقدس رشتہ پامالی کا شکار ہے،اس رشتے کی افادیت بتدریج کم ہورہی ہے ۔اس ضمن میں بیوی سب سے زیادہ ظلم وستم کی شکار ہے، حالانکہ اسلامی نقطہ نظر سے نکاح مرد و عورت کے درمیان ایک عہد و پیمان ہے اور ایک پاکیزہ اور مضبوط بندھن ہے، جس کی بنیاد سراسر محبت، مودت، رحمت، خیر خواہی، وفا، اعتماد اور احسان ہی پر ہے۔ میاں بیوی انسان ہی ہیں اور ان سے غلطیوں کا صدور عین ممکن ہے لیکن باہمی الفت و محبت اور مودت کا تقاضا یہ ہے کہ عفو و درگزر اور احسان کی روش کو شیوا بنا دیا جائے۔ یہی طرز فکر اور عمل خانگی زندگی کو خوشگوار اور گھر کو جنت بنانے کا یقینی وسیلہ ہے۔یہ چیز بھی یاد رکھنی چاہیے کہ عورت اپنی مزاج اور نفسیات میں بہت زیادہ حساسیت اور نزاکت رکھتی ہیں، اس لئے ان کے ساتھ حکمت سے پیش آنے کی نصیحت ہے۔ کوئی بھی انسان خامیوں اور کوتاہیوں سے ماوریٰ نہیں ہے ،اس لئے دانائی یہی ہے کہ خامیوں کو نظر انداز کر کے ان کی خوبیوں پر نظر رکھی جائے اور اسی میں بہت ساری الجھنوں کا علاج موجود ہے۔ اسی بنا پر پیغمبر آخرالزماںؐ نے فرمایا ہے کہ ’’عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہیں، پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے گا تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور اگر اسے یونہی چھوڑ دے گا تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو، عورتوں سے اچھا سلوک کرو‘‘۔
بیوی خدا کی عطا کی ہوئی بڑی رحمت ہے ،جو ذریعہ محبت، الفت، راحت، فرحت، سکینت اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا ہے، ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں کے پیچھے پڑ جانا، اس کا حساب کتاب رکھنا اور اسے اپنی اوقات میں رکھنے کی زعم میں مبتلا رہنا جہالت اور حماقت ہے۔
سیدنا حضرت عمر فاروق کا طرز عمل دیکھئے:ایک دیہاتی علی الصبح امیر المومنین عمر فاروقؓ کے گھر اپنی بیوی کی زبان درازی کی شکایت کرنے آیا، آپ ایک معمولی گھر میں رہتے تھے ۔اندر کی بات باہر صاف سنائی دیتی تھی، دیہاتی جونہی دروازے کے پاس پہنچا، اس نے جناب عمر فاروقؓکی بیوی کو بولتے سنا، جو بولتی جا رہی تھی اور آگے سے جناب عمر فاروقؓ کی آواز تک نہیں آ رہی تھی، اگر عمر ابن الخطابؓ کا یہ حال ہے جو اتنے سخت ہیں اور امیر المومنین بھی ہیں تو میرا شمار تو کسی شمار میں نہیں ہے، پھر شکایت کا کیا فائدہ؟
اِدھر دیہاتی واپسی کے لئے پلٹا اُدھر امیرالمومنین صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کے لئے گھر سے باہر نکل آئے۔ آپؓ نے دیہاتی کو واپس جاتے دیکھا اور اس کی چال ڈھال سے سمجھ لیا کہ یہ مدینے کا باسی نہیں کوئی مسافر ہے۔ آپؓ نے اس کو آواز دی کہ بھائی کسی کام سے آئے تھے؟ وہ واپس پلٹا اور کہا کہ امیرالمومنین میں اپنی بیوی کی شکایت لے کر آیا تھا کہ وہ مجھے بہت ڈانٹتی ہے مگر آپ کو بھی اسی مصیبت میں مبتلا دیکھ کر واپس جا رہا تھا کہ جب امیرالمومنین کا خود اپنا یہ حال ہے تو پھر ہمارے لئے بھی صبر کے سوا چارہ نہیں، امیر المومنین عمر فاروقؓ نے اسے نصیحت کی، فرمایا: میرے بھائی! اس کی یہ ساری باتیں میں اس کے ان احسانات کے بدلے برداشت کرتا ہوں جو وہ مجھ پر کرتی ہے، وہ میرا کھانا تیار کرتی ہے، میری روٹی پکاتی ہے، میرے کپڑے دھوتی ہے، میری اولاد کو دودھ پلاتی ہے اور میرے دین کی حفاظت کرتی ہے اور مجھے حرام سے بچاتی ہے ، یہ سب اس پر واجب بھی نہیں ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ امیر المومنین میری بیوی بھی یہ سب کام کرتی ہے۔ آپؓ نے فرمایا تو پھر اس کو برداشت کرو بھائی، یہ تھوڑی سی مدت ہی کی تو بات ہے، پھر نہ ہم رہیں گے اور نہ وہ۔ دیہاتی نے کہا آپ سچ کہتے ہیں امیرالمومنین اور واپس چل پڑا۔اسے عملی سبق مل چکا تھا کہ بولنا عورت کا عیب نہیں، برداشت کرنا مرد کا امتحان ہے۔
رحمت اللعالمین ؐکی زندگی میں ہمارے لئے عملی نمونہ ہے۔ ان کی خانگی زندگی مثالی رہی لیکن ان کی ازواج کی بشری کمزوریوں کی سبب مسائل کا بھی سامنا رہا ،لیکن کہیں بھی ثابت نہیں ہے کہ انھوں نے کبھی سختی فرمائی ہو، ہاتھ اٹھانا تو بہت دور کی بات ہے۔’’حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: تم میں اچھا وہ ہے جس کا سلوک اپنے اہل و عیال سے اچھا ہو اور میں تم میں اپنے اہل و عیال کے بارے میں سب سے اچھا ہوں‘‘۔تو سوچا جاسکتا ہے کہ ہم کہاں ہیں ،ہمارا‌بیویوں کے ساتھ کیسا سلوک ہے ۔اگر ہم انسان ہیں تو وہ بھی تو انسان ہے ۔کون سی چیز ایسی ہے جو ہمیں ان پر ظلم کا حق دیتی ہے،کیوں ہمارے رشتوں میں دن بدن کڑواہٹ بڑھتی جارہی ہے ؟
مرد اور عورت میں صرف جنس کا فرق ہے، باقی سب یکساں ۔یعنی ایک ہی مالک کے بندے اور ایک ہی ساخت کی مخلوق۔ میاں بیوی دونوں ایک ہی شاخ کے دو پھول ہیں۔ یہ ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں، دونوں کو ہی اپنا اچھا مثبت کردار ادا کرنا ہے ۔ سب سے بڑی بات اس رشتہ ازدواج میں بندھنے سے پہلے اسلام کے مطابق ایک دوسرے کے حقوق اور فرائض کو پڑھنا ہے۔ جب دل و دماغ مطمئن ہو کہ میں یہ اصول و ضوابط پورے کر سکتا ہوں یا کر سکتی ہوں۔ تب ہی اس رشتے میں قدم رکھئے، ورنہ یہ رشتہ کبھی اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائے گا اور زندگی کے سفر میں شکوں، شکایتوں ، رویوں ، عادتوں کی ناپسندیدگی پر بھٹکتا رہے گا۔
( قصبہ کھُل کولگام،رابطہ۔9906598163)