’’ایک دوسرے کے قاتل نہ بنیں‘‘

سہیل بشیرکار ،بارہمولہ
سائنسدانوں کی ایک جماعت نے پانچ بندروں کوایک کمرے میں بند کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس کمرے میں ایک سیڑھی رکھ دی اور اس کی چوٹی پر کچھ کیلے رکھ دئے۔ کیلے کھانے کے لیے جب بھی بندروں میں سے کوئی ایک بندر سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش کرتا،تو سائنسدان چھت پرلگے پانی کے ایک شاور کو کھول دیتے۔ پانی برسنے کی وجہ سے باقی بندروں کوکافی تکلیف ہوتی،جب کوئی بھی بندر سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش کرتا پانی ان پر گر جاتا، جس سے سب کو تکلیف ہوتی ۔جس کی وجہ سے وہ پھر کسی بندر کو دوبارہ سیڑھی پر چڑھنے سے روک دیتے۔ اُن کی دانست کے مطابق ایساکرکے وہ پانی کوبرسنے سے روک دیتے تھے۔ کچھ دیر بعد کمرے سے پانی کا والو ہٹادیا گیا اور تجربے کادوسرامرحلہ شروع ہوا۔ پانی کی بوچھاڑ نہ ہوتے ہوئے بھی ، بندروں میں سے کوئی بھی سیڑھی پرچڑھنے کی ہمت نہیں کرپاتا۔ جب کافی وقت تک کمرے میں کسی طرح کی کوئی حرکت یا پیش رفت نہیں ہوئی تو سائنسدانوں نے ان بندروں میں سے ایک کو نکال کر اس کی جگہ نیابندرگروہ میں شامل کردیا۔ اب چونکہ نیابندرسابقہ مشاہدے سے بے خبر تھا،اُس نے آتے ہی سیڑھی پرچڑھنے کی کوشش کی۔ یہ دیکھ کر باقی سارے بندر اس پر ٹوٹ پڑے اور اسے مارنے لگے۔ بیچارہ بندر مارکھاکرایک طرف کونے میں سمٹ گیا اوروجہ معلوم نہ ہونے کے باوجودبھی دوبارہ سیڑھی چڑھنے کاخیال ترک کردیا۔ سائنسدان ایک کے بعد ایک بندربدلتے گئے۔ نیا بندر آتے ہی سیڑھی پرچڑھنے کی کوشش کرتا لیکن دوسرے بندر اسے گھسیٹ کر نیچے لاتے اور زدوکوب کانشانہ بناتے۔ بالآخر وہ بھی دوسرے بندروں کی تقلید میں نئے آنے والے بندروں کومارناشروع کردیتا ۔ ایسا کرتے کرتے اب کمرے میں سارے نئے بندرجمع ہوگئے تھے، لیکن پھر بھی ان میں سے کوئی سیڑھی کی طرف بڑھنے کی جرات نہ کرتا۔ اگر ممکن ہوتا اور ان بندروں سے کوئی پوچھتا کہ تم ایساکیوں کررہے ہو؟تو یقینا ان کاجواب کچھ اس طرح کاہی ہوتا کہ ہم نے تو اپنے اسلاف اور بڑوں کو ایساکرتے دیکھاہے بعینہ اسی طرح انسان بھی ماضی کے کچھ مشاہدات کو اپنے اوپر حاوی کرلیتاہے جبکہ وہ مخصوص مشاہدات اپنے مخصوص وقت میں ایک مخصوص معانی لئے ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے معنی اور اثرات بدل جاتے ہیں لیکن ہم ان کی اصل کو جانے بغیر ان کے اثرات کو ہمیشہ اپنے اوپر حاوی کئے رکھتے ہیں۔ نتیجتاً ہم اُن سے کبھی خلاصی حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔

پانچواں باب ’’خوبصورت ازدواجی زندگی کوکامیاب بنانے کے اصول‘‘ سے بحث کرتاہے۔ گزشتہ باب کی طرح اس باب کاآغاز بھی مصنفہ نے حضور کی ایک حدیث مبارک جو کہ ترمذی شریف میں درج ہے، جس میں رسول اللہ ؐارشاد فرماتے ہیں: ’’تم میں بہترین انسان وہ ہے جواپنے اہل وعیال کے حق میں بہتر ہواور میں اپنے اہل کے لئے تم میں ںسب سے زیادہ بہترہوں‘‘۔ ازدواجی زندگی کے حوالے سے مصنفہ کا ماننا یہ ہے کہ ابتدامیں قریب قریب ہرایک شادی شدہ جوڑے کے بیچ کافی حدتک لگاؤ اور انسیت ہوتی ہے ،لیکن رفتہ رفتہ یہ تعلق کمزورپڑنے لگتاہے اوردونوں کے درمیان مختلف قسم کے مسائل سراُٹھاناشروع کردیتے ہیں۔ اس صورتحال سے نپٹنے کے لئے مصنفہ کچھ عملی تدابیر بتاتی ہیں، جن سے رشتے میں گرمجوشی پیدا ہوگی ۔ اس سلسلے میں پہلی تجویز وہ یہ دیتی ہیں کہ چونکہ ہرایک انسان کی دلچسپی کامحور الگ ہوتاہے، اور ایسا ہونافطرت کے عین مطابق بھی ہے۔ لہٰذا میاں بیوی کوچاہیے کہ اگر وہ اپنی دلچسپی کو دوسرے کی دلچسپی میں نہ ڈھالیں لیکن ایک دوسرے کی خواہشات ،جذبات اور امنگوں کااحترام کریں۔ دوسری اہم تجویز وہ یہ دیتی ہیں کہ شادی کے اوائل میں جوڑا ایک دوسرے کومختلف قسم کے سرپرائزس دے کرخوشی کااحساس دلاتاہے لیکن زندگی کی گہماگہمی میں الجھ کر یہ سلسلہ کمزور ہو رک جاتا ہے۔اس سلسلے میں دونوں میں سے کسی کے پاس بھی وقت نہیں ہوتا۔ جبکہ باہمی رشتے کو مضبوط رکھنے کے لئے وقتاً فوقتاً ایسے سرپرائزس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس لیے یہ سلسلہ جاری رکھنا چاہیے ۔ تیسری بات، کبھی بھی رشتہ توڑنے کی دھمکی نہ دیں،ایسا کرنے سے رشتوں میں ڈرکا عنصر شامل ہوجاتاہے،اور ڈر پر قائم کئے جانے والے رشتے زیادہ دیرنہیں چل سکتے۔ چوتھی چیز ویک اینڈ پر کسی خوبصورت اور حسین جگہ کاانتخاب کرکے تفریح کے لئے جایاکریںاور پانچویں اور سب سے اہم بات، ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کا خیال کریں،صرف اپنے حقوق کارونا نہ روتے رہیں، ذمہ داری کا احساس رشتوں میں مٹھاس لاتا ہے۔

کتاب کے چھٹے باب میں وہ ’’غصے پرکیسے قابو پایاجائے‘‘ جیسے اہم موضوع پر گفتگو کرتی ہیں۔ مصنفہ کے مطابق غصے پر قابوپانے کے دو طریقے ہیں،ایک قلیل مدتی اور دوسرا طویل مدتی۔ قلیل مدتی تدابیر ایسی ہی کام کرتی ہے جیسے درد میں پین کِلر(pain killer) کی دوائی۔ اس ضمن میں وہ کچھ تدابیر بتاتی ہیں جیسے کہ جس جگہ غصہ آجائے ،وہاں سے باہر نکل جانا، وضو کرنا، دو سانسوں میں بیس تک کی گنتی گننا، گھرمیں کوئی جانور پالنا،اگر کھڑا ہوتو بیٹھ جانااوربیٹھا ہوتولیٹ جانا۔ لیکن مصنفہ ساتھ ہی یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان کے مطمح نظرہمیشہ طویل مدتی تدابیر ہونی چاہیے، جن کے اثرات بہت دیر تک قائم رہیں گے، جو شخصیت کا حصہ بن جائے ۔اس سلسلے میں مصنفہ کئی ٹکنیکس بتاتی ہیں۔جن کے استفادہ سے مسلسل فائدہ کی امید ہے۔

ساتواں باب بچوں کے حوالے سے بہت اہم ہے ،اس لئے کہ عنوان کے تحت وہ ’’بچوں کی تربیت اور غصے سے چھٹکارا‘‘ جیسے حساس موضوع پر گفتگوکرتے ہوئے اپنی تجاویز کو ترتیب وار نکات میں بیان کرکے وہ قارئین کے سامنے ایسے اصول رکھتی ہیں جن سے کہ گھر کاماحول ایسا بنایاجاسکے، جہاں بچوں کا مزاج غصیلہ نہ بن جائے ۔ مصنفہ نے اس ضمن میں جو تدابیر پیش کی ہیں،وہ عملی اعتبارسے آسان بھی ہیں اورقابل عمل بھی۔ انسان کی زندگی بننے میں ٹین ایچ کی کافی اہمیت ہے۔کتاب کاآٹھواں اورآخری باب ’’ٹین ایج اور غصے سے نپٹنے کالائحہ عمل ‘‘کے موضوع پر ہے۔ عمرکے تمام ادوارمیں نوعمری کو الگ سے موضوع ِبحث بنانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ زندگی کاوہ دورہوتاہے، جس میں انسان کے مزاج کے لئے ایک طرح سے بنیادی خمیرتیارہوتی ہے۔ اس ضمن میں مصنفہ نے جو نکات تجویز کئے ہیں، راقم کا ماننا ہے کہ اگر اُن پر پوری یکسوئی کے ساتھ عمل کیاجائے تو نتائج کا سامنے آنا کافی حدتک لازمی ہے۔ اس باب میں وہ مزید کچھ تکنیکوں،جوکہ دماغی ورزشوں پرمشتمل ہے، کا تعارف بھی کراتی ہیں ،جن سے غصے کو قابو کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان میںLong Tail Breathing Exercise, Cool Blue Breathingاور 3B’sشامل ہیں۔ مصنفہ ان میں سے ہرایک تکنیک کے فائدے بھی الگ سے گنواتی ہیں۔ راقم کا ماننا ہے کہ اس کتاب کو ایک کورس کی حیثیت سے لینا زیادہ مفید ہوگا۔ لیکن اس کے لئے کتاب کا پرنٹ ایڈیشن زیادہ مفید ہے اور اس کا استفادہ بھی زیادہ ہوگا، کتاب تقاضہ کرتی ہے کہ باب کے آخرمیں کچھ مشقیں اور گرافکس وتصاویر بھی ہوں۔امید ہے پرنٹ ایڈیشن میں یہ چیزیں شامل کی جائیں گی تاکہ کتاب صحیح معنوں میں ایک گائیڈبک کی حیثیت اختیار کرلے ۔ ساتھ ہی چھپائی اور ایڈٹنگ میں جو غلطیاں رہ گئی ہیں ،جیسے کہ کتاب کاسائز(A4) کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ،اس کا کثیررنگی نہ ہونااور صفحہ نمبر نہ دینا،ان کی تلافی بھی کتاب کوزیادہ مفید بنانے میں کارگر ثابت ہوگی ۔ کتاب پروفشنل شخص سے ایڈیٹنگ کا تقاضا چاہتی ہے۔ان چند خامیوں کے باوجود،کتاب میں مصنفہ نے anger managmentجیسے اہم موضوع کو جس خوش اسلوبی سے الفاظ کاجامع پہنایاہے،اس کے لئے وہ مبارکبادی کی مستحق ہے ۔ موضوع کی اہمیت کومدّ نظر رکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی اشاعت بڑے پیمانے پر ہو،تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی زندگی کو خوشگوار اور پرسکون بنانے کے لئے دئے گئے اصولوں سے رہنمائی حاصل کریں۔امید ہے داعی حضرات اس کتاب سے استفادہ کریں گے تاکہ ان کو دعوت کے میدان میں بہت فائدہ ملے۔

 کتاب Amazon پر مندرجہ ذیل لنک سے حاصل کی جاسکتی ہے:

Let’s Not Kill Each Other: A Comprehensive Guide to Manage Anger’ https://www.amazon.in/dp/B098T2WLL6/ref=cm_sw_r_apan_glt_CN70DFEKF0Y43JB77T2J

(مبصر کا رابطہ 9906653927)