کسی بڑ ے واقعے یا حادثے کی سالگرہ یا برسی عموماً ہر برس منائی جاتی ہے یا خاص طور پر۱۰؍برس،۲۵؍برس، ۵۰؍برس،۷۵؍برس،۱۰۰؍برس اور اسی طرح آگے کی برسوں پر منائی جاتی ہے ۔اسے خاص نام بھی دے دیا گیا ہے:مثلاً ۲۵؍برس کیلئے سِلور جوبلی،۵۰؍ کیلئے گولڈن جوبلی ،۷۵؍کیلئے پلیٹِنم اور ۱۰۰؍ کیلئے ڈائمنڈ جوبلی۔اسی طرح ہزار برس کیلئے مِلینیم لیکن مودی جی کی حکومت اور بی جے پی ملک میں عائد ایمرجنسی کی ۴۳؍ویں سالگرہ ؍برسی جب مناتی ہے تو اس کی نیت پر شبہ ہونا یقینی ہو جاتا ہے۔تھوڑی دیر کیلئے ۴۰؍برس یا ۴۵؍برس کا بھی جواز بن سکتا ہے لیکن یہ بیچ میں ۴۳؍ویں برسی کا کوئی موقع ہے، نہ موسم ہے ، نہ دستور۔ظاہر ہے کہ حکومت اور اس کا سربراہ کوئی کام کرے اور میڈیا متوجہ نہ ہو ،ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔یہاں تو بغیر کام کے بھی میڈیا ہمہ وقت گھٹنے کے بل چل کر دربارِ حکومت میں سر جھکانے کو تیار ہے۔گو میڈیا نے بھرپور ساتھ دیا اور اندرا گاندھی کے ذریعے ۱۹۷۵ء میںنافذ کی گئی ایمرجنسی کو خوب کوس کوس کر کانگریس کو نشانہ بنایا۔وزیر اعظم مودی جی نے یہاں تک کہاکہ کانگریس کی آج بھی ایمرجنسی والی ہی ذہنیت ہے۔اگر یہ ذہنیت نہیں ہوتی تو چیف جسٹس کے خلاف مواخذہ کی تحریک یہ پیش نہیں کرتی وغیرہ وغیرہ۔حالانکہ ایک دنیا جانتی ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف کانگریس کی تحریک کیوں پیش کی گئی تھی۔ ۴۳؍ برس کے وقفہ بعد مودی حکومت کو کیا سوجھی کہ ایمرجنسی کی یاد منائی، حالانکہ ملک میں مودی سرکار براجمان ہوتے ہی غیر اعلانیہ ایمر جنسی نافذہوگی ۔ بہر حال یوم ایمرجنسی۳؍برس پہلے بھی منا ئی جا سکتی تھی لیکن اس سے اس کا کوئی انتخابی فائدہ نہ ہوتااور ۴۵؍ویں برس میں ممکن ہے کہ یہ حکومت ہی نہ رہے۔اس لئے صرف اور صرف سیاسی فائدہ اُٹھانے کیلئے ایمرجنسی کو پھر سے تازہ کرنے کی اس کوشش کا مطلب ووٹ بنک کاروبارہے ۔ اس میں دورائے نہیں کہ ۷۵ء کے آئینی بحران کو اب لوگ اسی طرح بھول چکے ہیں جیسے ۶۲ ء کی انڈوچین جنگ ان کے حافظے کی تختی پر سے محو ہوچکی ہے۔ خیرمہاراشٹر میں بی جے پی حکومت نے ایمرجنسی میں جیل جانے والوں کو پنشن دینے کی بات کی تو بیشتر نے اس تجویز کو ٹھکرا دیااور ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پنشن کی خاطر تھوڑے ہی یہ سب کیاتھا۔ہم پنشن لے کر اپنے ضمیر کو کچوکے لگائیں گے۔چونکہ ۲۰۱۹ء کے عام چناؤ میں اب زیادہ دن نہیں رہ گئے ہیں،بعض لوگ یہ امکان ردنہیں کر تے کہ عین ممکن ہے کہ یہ انتخابات پہلے ہی ہو جائیں اوربی جے پی کے پاس چونکہ ووٹروں میں بیچنے کے لئے کوئی موضوع ہے ہی نہیں ،اس لئے یہ موضوعات( خدمات نہیں ،کیونکہ بھاجپا کا یہ پرچہ سرے سے ہی خالی ہے) کی تلاش میں بُری طرح بے چین ہے اور گڑے مردے اُکھاڑ رہی ہے۔
اسی طرح کی ایک اور مثال ’سرجیکل اسٹرائک ‘ کے تعلق سے ہے ۔یہ بھی گڑے مردے اُکھاڑنے جیسا ہی معاملہ ہے ۔اب اس کی ویڈیو فوٹیج جاری کرنے کا کیا مطلب ہے؟ زی نیوز نے پہلے پہل اس ویڈیو کو جاری کیا ۔بعد میں تقریباًتمام چینلوں نے سبقت لینا شروع کر دی۔ جب کہ بازار میں ہاہا کار مچا ہوا ہے ،ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر بہت کمزور ہو رہی ہے،در آمدات اور بر آمدات متاثر ہو رہے ہیں ،ملکی معیشت تباہ ہو رہی ہے،خواتین اور بچیوں کے ساتھ زنا بالجر کے واقعات میں ۸۸؍ فیصدی اضافہ ہو گیا ہے،غیر ملکی ایجنسیوں کے اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ خواتین ملک میں محفوظ نہیں ہیںاور انڈیا دنیا میں اس معاملے میں سرِ فہرست آگیا ہے ،ہجومی تشدد کے شکار دو ایک افراد تقریباً روز ہو رہے ہیں،امریکہ نے ۲؍پلس ۲؍اجلاس(دونوں ملکوں کی خارجہ اور دفاعی پالیسی) ملتوی کر دیا ہے اور چینل والے سرجیکل اسٹرائک پر مباحثہ کر وا رہے ہیں۔کیا ملکی عوام اِن چینلوں کا منشاء سمجھ نہیں رہے ہیں؟سرجیکل اسٹرائک کو تو ایک دفعہ بی جے پی نے یو پی کے انتخابات میں استعمال کر لیا ، اسے کیا لگتا ہے کہ پھر سے وہ لوگوں کو گمراہ کر سکے گی؟ہاں ،ایک بات ضرور ہے کہ ایسے مباحثے کروا کر بھاجپا کانگریس کو گھیرنا چاہتی ہے کہ کبھی راہل گاندھی نے اس پس منظر میں کہا تھا کہ پی ایم مودی خون کی دلالی کر رہے ہیں۔اپوزیشن ہی میں سے کسی نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ ’فرضیکل اسٹرائک ‘ ہے۔
روپے کے مقابلے ڈالر کے مضبوط ہونے پربھکتی کا یہ عالم ہے کہ کہا جا رہا ہے اِس سے امریکی صدر ڈانالڈ ٹرمپ کا ہاتھ مضبوط ہوگا اور اسلام اور مسلمانوں سے نمٹنے میں وہ کامیاب ہوں گے بلکہ اچھی طرح وہ انہیںسبق سکھائیں گے۔مطلب یہ کہ ایک ڈالر کے مقابلے روپیہ اگر ۱۰۰؍بھی ہو جائے تو بھکتوں میں خوشی کی لہر دوڑ جائے گی بھلے ہی ملک عزیز کی معیشت تباہ و بربادکیوں نہ ہو جائے۔یاد کریں کہ کس طرح ٹرمپ کی جیت کیلئے بھکتوں (خاص طور پر بجرنگ دل والوں )نے یہاں’ہَوَن‘ کاجگہ جگہ اہتمام کروایا تھا ۔مطلب صاف تھا کہ ٹرمپ کے جیت جانے کے بعد مسلمانوں کی تباہی کے دن شروع ہو جائیں گے اور امریکہ سے وہ مسلمانوں کو نکال پھینکے گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔۲؍برسوں کے اندر ہی ٹرمپ نے بجرنگ دل کو دہشت گرد تنظیم قرار دلوا دیا اور حقوق انسانی کے تعلق سے ہندوستان کو خبر دار بھی کیا۔ہم بہت خوش تھے کہ ٹرمپ نے پاکستان کو دی جانے والی امداد بند کر دی تھی اور دہشت گردی کے معاملے میں پاکستان کو بھلا برا کہا تھا۔یہ ٹرمپ کے شروعاتی دنوں کے آثار تھے لیکن آج سب کچھ بدل گیا ہے۔ٹرمپ افغانستان کو لے کر پاکستان سے مفاہمت کرنے کے لئے مجبور ہیں اور ساتھ ہی ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم ایران سے تیل کی در آمدات بند کر دیں اور اس کیلئے انہوں نے ایک مدت بھی معین کر دی ہے غالباً ۴؍نومبر ۲۰۱۸ء۔ایران سے تیل نہیں لینے کی صورت میں ہماری معیشت کا انجام کیا ہوگا یہ سوچ کر ہی وحشت ہوتی ہے ۔وہ یوں کہ ایران کا تیل ہمیں سستا پڑتا ہے اور یہی سبب ہے کہ ہم زیادہ ایران ہی سے امپورٹ کرتے ہیں۔مزے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ایران کو ہمیں ڈالر میں رقم نہیں دینا پڑتی بلکہ ہمارا لین دین ہندوستانی روپوں میں ہوتا ہے ۔اگر ایسا ہو گیا یعنی ہم گر جھک گئے جس کے اشارے ملنے شروع ہو گئے ہیںتو اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مودی جی کی خارجہ پالیسی کا حشر کتنا بھیانک ہے؟خارجہ پالیسی صرف گلے ملنے اور دوست کہہ دینے سے طے نہیں ہوتی۔اس میں بڑی ہی دور اندیشی کی ضرورت پڑتی ہے۔
اِن خارجہ معاملات کے علاوہ مودی جی اندرون ملک گمبھیر مسائل سے گھرے ہوئے ہیں کیونکہ اِن ۴؍ برسوں میں مسائل کا انبار لگ گیا ہے۔ٹی وی والے بیچارے پتہ نہیں کب تک ان کی مدد کریں گے نت نئے مباحثے کروا کر۔مودی جی کے پاس کئے ہوئے کام تو کچھ ہیں نہیں اسی لئے وہ اور بی جے پی اپنے پرانے مرغوب موضوعات پر آگئے ہیں اور یہ جتنے بھی موضوع ہیں سب کا تعلق مسلمانوں ہی سے ہے۔رام مندر ،یکساں سول کوڈ اور دفعہ ۳۷۰؍۔رام مندر کا راگ الاپنا شروع ہو گیا ہے اور بی جے پی کے لیڈران یہ کہنا شروع کر دئیے ہیں کہ ۲۰۱۹ء سے پہلے ہی رام مندر کا نرمان شروع ہو جائے گا۔ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عدالت کے آرڈرسے تھوڑے ہی ہم نے بابری مسجد توڑی تھی ،اُسی طرح رام مندر کی تعمیر بھی ہم عدالت سے پوچھ کر تھوڑی نہ کریں گے !طلاق ثلاثہ پر بھی مودی حکومت کا موقف سب کے سامنے ہے اور میڈیا نے بھی جو ساتھ نبھایا وہ بھی جگ ظاہر ہے۔اب تعدد ازدواج اور حلالہ کی مخالفت بھی مودی حکومت کرے گی اور اپنا حلف نامہ جلد ہی عدالت میں پیش کرے گی۔یہ سب یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی جانب ہی قدم ہے۔رہی آرٹیکل ۳۷۰؍ختم کرنے کی بات تو اس سے تو کشمیر اور کشمیری ہی متاثرہوتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اُن کی اکثریت مسلمان ہی ہے۔یہ طے ہے کہ بی جے پی کے پاس مسلمانوں کی مخالفت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔اس کی سیاست کا دارو مدار اور محور مسلمان ہی ہیں۔ ان کا استعمال کر کے وہ مسند اقتدار پر آسکتی ہے لیکن جو نئے سیاسی حالات ملک میں رونما ہوئے ہیں اس سے بی جے پی بہت زیادہ بوکھلائی ہوئی ہے۔مودی جی کو دکھائی دے رہا ہے کہ ان کے ہاتھوں سے اب اقتدار چھننے والا ہے۔اسی لئے انہوں نے سنت کبیر کو ڈھونڈ نکالا ہے اور ان کے مزار پر چادر چڑھانے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ان کی اس سیاسی منتر پر یہی کہا جاسکتاہے ع
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883