پرویز مانوس
شہر کے تمام لوگ ایک بہت ہی خوبصورت اور بڑے مکان کے احاطے میں کھڑے بولی لگا رہے تھے۔
بیس لاکھ ۔۔۔۔۔۔۔!
بیس لاکھ…….!
اور کوئی ہے جو اس سے بڑھ کر بولی لگائے؟
پچیس لاکھ ۔۔۔! ایک شخص نے آگے بڑھ کر کہا تو ایجنٹ نے پھر کہا” اس سے آگے کوئی بڑھ سکتاہے کیا؟
ارے صاحبان ۔۔۔۔! مکان کو غور سے دیکھئے، پوری حویلی ہے حویلی ۔۔۔۔! طرز تعمیر پر ایک نظر ڈالئے، نقش و نگار تو دیکھئے ۔۔۔
بڑھ کر بولی لگائیے،
چالیس لاکھ ۔۔۔۔۔ایک اور شخص اپنی نکٹائی کو دُرست کرتے ہوئے بولا،
ٹھیک ہے ۔۔۔! سلمان صاحب نے چالیس لاکھ کی بولی لگائی ہے، چالیس لاکھ ایک، چالیس لاکھ دو، چالیس لاکھ۔۔۔۔۔،،
پچاس لاکھ، ایجینٹ کی آواز کو بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے عشائی صاحب کے بولی آگے بڑھا دی۔
بھائی اچھا بھلا چالیس لاکھ میں ڈن ہونے والا تھا پتہ نہیں یہ عشائی کا بچہ کہاں سے بیچ میں آ ٹپکا۔
ارے سلمان صاحب آپ مکان خریدنے آئے ہیں یا بکری کا بچہ۔۔۔کمال کرتے ہیں ،
ابھی تو شروعات ہے، یہ بولی کافی طویل جانے والی ہے ، عشرت صاحب نے مذاحیہ انداز میں کہا۔
بولی آگے بڑھتے دیکھ کر اب لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے تھے کہ اتنے میں بولی بڑھ کر ایک کروڑ بیس لاکھ تک پہنچ گئی، یہ بولی شہر کے ایک امیر شخص ہمدانی صاحب نے لگائی تھی جو اس مکان کو منہدم کرکے یہاں ایک پانچ ستارہ ہوٹل تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن جلد ہی اُن کی امیدوں پر خالق صاحب نے ڈیڑھ کروڑ کی بولی لگا کر پانی پھر دیا، وہ اس زمین پر ایک بہت بڑا شاپنگ مال کھڑا کرنا چاہتے تھے۔ _ کرتے کرتے بولی اڑھائی کروڈ پر ٹھہری تو ایجینٹ نے بلند آواز میں کہا _
“اڑھائی کروڑ ایک۔۔۔۔۔۔!
اڑھائی کروڑ دو۔۔۔۔۔۔۔۔!
اڑھائی کروڑ تین !!! صاحبان شرافت صاحب کے مکان کی بولی مکمل ہوئی، قانونی کاروائی اور کاغذات مکمل کرنے کے بعد اس مکان کے مالک خالق صاحب ہونگے،،
شرافت صاحب نے بادلِ نا خواستہ اور باعث مجبوری اس مکان کو بیچ تو دیا لیکن اس کو چھوڑتے ہوئے اُن کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا ،
اُس آنگن کو وہ حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے جس میں کبھی اُن کے ننھے بچوں کے قدم پڑے تھے، اُس باغیچے کو دیکھ رہے تھے جس میں اُس کے بچوں نے کبھی جھولے جھولے تھے، اُن کا دل چاہتا تھا اُس پیڑ سے لپٹ کر بے تحاشہ روئیں جسے اُنہوں نے بڑے شوق سے لگایا تھا، اُس منڈیر کو دیکھ کر اُن کی آنکھیں بھر آئیں جس پر وہ صُبح سویرے کبوتروں کی قطار کو دیکھتے تھے، مکان سے نکلتے وقت نسیمہ کافی جذباتی ہوگئی، دیوار کے ساتھ لگی ہوئی بیل کے ساتھ لپٹ کر وہ روتے ہوئے کہنے لگی ” اس بیل کو ساتھ لے چلتے ہیں۔ _
نسیمہ ۔۔۔۔! اپنے جذبات پر قابو رکھو جن کے لئے یہ بیل باہر سے منگوا کر لگائی تھی جب وہ نہیں تو یہ بیل کس لئے، چلو اپنے نئے گھر میں لگانا بیل۔
شرافت صاحب کے پیر من من بھاری ہورہے تھے لیکن ایک طرح سے وہ پُر سکون ہوگئے تھے کہ بینک لون کی رقم ادا کرنے کے بعد نسیمہ کا علاج تسلی سے کر ا سکیں گے ، یہی سوچتے ہوئے وہ جیسے تیسے گیٹ سے باہر نکل آئے،،
جب وہ اپنے دوکمرے والے نئے مکان میں داخل ہوئے تو سوچنے لگے ساری عمر سچ جھوٹ کرکے آخر زندگی ایک کمرے میں ہی سمٹ کر رہ جاتی ہے، وہ کافی تھک چکے تھے، اُن کی کمر جیسے ٹوٹ چُکی تھی وہ سوچتے کر لوگ اولاد کیوں چاہتے ہیں، اُن سے بڑی بڑی اُمیدیں کیوں لگاتے ہیں۔ _ اُنہوں نے نسمیہ سے نظریں بچاکر اپنے اشک پونچھے لیکن نسیمہ نے بھانپ لیا۔
نسیمہ نے نحیف آواز میں کہا،” میں تمہاری گنہگار ہوں، میری وجہ سے تمہیں کافی تکالیف برداشت کرنا پڑیں _تمہیں اپنا پشتینی مکان بھی بیچنا پڑا،نہیں ایسی کوئی بات نہیں، تم اپنا دل چھوٹا مت کرو، تم وہ طوطا ہو جس میں میری جان اٹکی ہوئی ہے۔
اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو میں زندہ رہ کر کیا کروں گا۔ _تمہارے ساتھ زندگی کے چالیس برس گزارے ہیں، تم نے تنگدستی میں قدم قدم پر میرا ساتھ دیا ہے، آج جب تمہیں میری ضرورت ہے تو میں کیسے پیچھے ہٹ جاؤں، تمہارے لئے اگر مجھے خود کو بھی بیچنا پڑے تو خدا قسم کبھی پیچھے نہیں ہٹوں گا، شرافت نے اُسے کرسی پر بٹھاتے ہوئے کہا تو نسیمہ نے ایک لمبی آہ بھر کر کہا،، میری اس بیماری نے تمہیں سب کچھ بیچنے پر مجبور کردیا _۔
نسیمہ میں سمجھتا ہوں زندگی میں ہر انسان پر ایک نا ایک بار بُرا وقت ضرور آنا چاہئے ،بُرے وقت میں اپنوں اور ہمدروں کی پہچان ہوجاتی ہے، تمہارے آگے سب ہیچ ہیں، شرافت نے پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے کہا۔
مجھے بہت تھکاوٹ محسوس ہورہی ہے تھوڑی دیر سونا چاہتی ہوں، نسیمہ نے کرسی پر دراز ہوتے ہوئے کہا تو شرافت نے آگے بڑھ کر اُسے چارپائی تک پہنچایا پھر وہ آرام سے لیٹ گئی۔
شرافت علی نے ساری زندگی ایک سرکاری ملازم کی حیثیت سے گزاری _ صبح سویرے بیدار ہو کر دفتر جانا اور شام کو تھکے ہارے گھر واپس آنا اس کی معمول کی زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔ اس کی نوکری میں جو بھی تھوڑی بہت اضافی آمدنی ہو جاتی، وہ اُسے اپنے بچوں کی بہتر زندگی کے لئے وقف کر دیتا۔ اوپر کی کمائی میں جو اس کے حصے میں آتا، وہ اپنے بچوں کے لئے نیک نیتی سے استعمال کرتا رہا،حالانکہ رشوت کے الزام میں کئی مرتبہ اُسے معطل بھی ہونا پڑا لیکن اولاد کو بہتر مستقبل دینے کے لئے اُس نے یہ بھی برداشت کیا۔ بچوں کی اسکول فیس سے لے کر ان کی جائز اور ناجائز خواہشات پوری کرنے تک، شرافت علی نے کوئی دقیقہ و فروگزاسشت نہیں کیا ۔
اُس کے تین بیٹے تھے ،وقاص، اشفاق اور کامران _،،شرافت علی نے انہیں اچھے اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم دلائی ، اس نے ہمیشہ اپنے بیٹوں کو بہتر مستقبل کے لئے تیار کرنے کی کوشش کی۔ شرافت علی کی بیوی، نسیمہ ، گھر کی دیکھ بھال میں اپنا حصہ ڈالتی رہی اور شوہر کا ہر قدم پر ساتھ دیا یہاں تک کہ تنگدستی میں اپنے زیورات تک اُس کے حوالے کر دئیے _۔
شرافت علی کی محنت رنگ لائی۔ اُس کے تینوں بیٹے کمانے کے قابل بن گئے اور اپنے اپنے پیشوں میں کامیاب بھی اُس نے یکے بعد دیگرے تینوں بیٹوں کی شادی کرادی۔
وقت گزرتا گیا اور ہر ملازم کی طرح شرافت بھی ریٹائر ہوگیا، ریٹائر منٹ کے بعد وہ پینشن پر گزارہ کرنے لگا۔
وقاص، اشفاق اور کامران، جو اب الگ الگ شہروں میں خوش و خرم زندگی گزار ر ہے تھے، بچوں کی گرمائی تعطیل ہوتیں تو وہ عیال سمیت ایک دو ماہ کے لئے وہاِں آجاتے اور سارا خرچہ شرافت اور نسیمہ برداشت کرتے وہ دونوں خوش تھے کہ اُن کے بیٹے آباد ہیں _۔
شرافت علی کو بیٹوں سے کبھی بھی کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں پڑی، ہاں کبھی کبھار کوئی بیٹا تھوڑی بہت رقم دے جاتا تو ماں کہتی بیٹا ہمارا گزارا بہت اچھی طرح چلتا ہے، تمہیں ابھی بچوں کا مستقبل بنانا ہے ہمارا کیا ہے ہم تو سوا نیزے پر سورج کی طر ح ہیں کب سانسوں کی ڈور ٹوٹ جائے معلوم نہیں _۔
زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی کہ اچانک نسیمہ کو چکر آنے لگے، دن بدن وزن کم ہونے لگا ۔ رنگ بھی ذرد ہونے لگا۔ _شرافت کو فکر لاحق ہوئی، شرافت نے ڈاکٹر سے اُس کی تشخیص کرائی تو ٹیسٹوں سے معلوم پڑا کہ نسیمہ کو بُلڈ کینسر ہے۔ یہ سُنتے ہی شرافت کے پیروں تلے سے زمین کھسکنے لگی، وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔اُس نے بیٹوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر تھوڑی بہت رقم بھیج دی کہ آپ ماں کا علاج کرائیں بعد میں اور بھی بھیج دیں گے _ ۔
سال میں ایک مرتبہ اُس کے جسم کا تمام خون تبدیل کرنا پڑتا جس کے لئے کافی رقم درکار تھی، جہاں کہیں اُس نے کوئی بچت کی تھی وہ ساری لگادی، اس بُرے وقت میں اس نے امید کی تھی کہ اس کے بیٹے اس کی بھر پور مدد کریں گے، جس طرح اس نے زندگی بھر ان کا خیال رکھا تھا۔اُسی طرح وہ بھی بوڑھاپے میں اُن کا خیال رکھیں گےلیکن معاملہ کچھ اور ہی نکلا۔
دریں اثنا تین سال کا عرصہ گزر گیا، ایک دوبار بیٹے آئے اور رقم بھیجنے کا وعدہ کر چلے گئے لیکن وعدے سراب ثابت ہوئے۔ _رفتہ رفتہ تینوں بیٹوں نے یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا کہ انہیں اپنے بچوں کا مستقبل بنانا ہے، ویسے بھی ماں کا بچنا نا ممکن ہے ایسے میں پیسہ ضائع کرنا کون سی عقل مندی ہے۔ یہ سنتے ہی شرافت پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا لیکن وہ نسیمہ کو اس بارے میں نہیں بتانا چاہتا تھا، اُس نے چپکے سے یہ کڑوا گھونٹ پی لیا۔ ادھار لے کر بھی جب کوئی راستہ نظر نہ آیا توایک دن اُس نے تینوں بیٹوں کو کانفرنسنگ کال پر بُلا کر سمجھایا کہ میرے بچو۔۔۔! میرے پاس جو کچھ تھا میں سب نسیمہ کے علاج پر لگا دیا ہے۔ اس نے تمہیں جنم دیا ہے، تمہیں پال پوس کر اس قابل بنایا ہے ،اگر تم تینوں کچھ مدد کردو تو اس کا علاج ہوجائے گا۔
وقاص نے کہا، “ابو، آپ کو تو پتا ہی ہے کہ ہماری بھی کتنی ذمہ داریاں ہیں۔ مکان کا کرایہ، بچوں کی فیس ، گھر کے اخراجات، سب کچھ سنبھالنا ہوتا ہے، بیٹا ایم بی اے کے لئے اجپٹ میں ہے رانی آئی اے ایس کی کوچنگ کررہی ہے میرے لئے مزید رقم دینا کافی مشکل ہے _ ۔
اشفاق نے بھی اُس کی ہاں میں ہاں ملائی، “جی ابو، آپ کو دوران نوکری ہی بُرے وقت کے لئے کچھ سیونگ کر لینی چاہئے تھی تو آج کام آتی، ہم بھی اپنی جگہ مجبور ہیں۔”
کامران اُن سے مختلف نہیں تھا بولا ” ابو جی میرا تو آپ کو معلوم ہی ہے، چھوٹا ملازم ہوں، ننگا نہائے گا کیا نچوڑے گا کیا _۔
شرافت علی نے ایک گہری سانس لی جس نے اپنی پوری زندگی بچوں کے لیے قربان کر دی تھی، مگر آج وہ اس کی ضرورت کو نظرانداز کر رہے تھے۔
ابو آپ کو اور کچھ کہنا ہے؟ جلدی کہئے، مجھے میٹینگ میں جا نا ہے _۔
میرے بچو۔۔۔! آپ بھی اپنی جگہ صحیح ہیں، آپ کا جواب سُن کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ بالکل صحیح کہتے ہو،
مجھے دورانِ سروس ہی بچت کرنی چاہئے تھی، اپنی طرف سے تو میں نے بچت کے نام پر کچھ پیڑ لگائے تھے لیکن جن پیڑوں کو میں نے اپنے لہو سے سینچا تھا بدقسمتی سے وہ بے ثمر ثابت ہوئے لیکن تم فکر مت کرو، میں آپ کو اب کبھی تکلیف نہیں دونگا کیونکہ ابھی بھی میرے پاس ایک (ایف ڈی ) محفوظ ہے جس سے میں نسیمہ کا علاج کرا سکوں گا _۔
ایف ڈی؟ وقاص نے حیرت سے کہا” لیکن ابو۔۔! آپ نے کبھی اس ایف ڈی کا ذکر نہیں کیا۔
ذکر کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی وہ میں نے اپنے اسی بُرے وقت کے لئے بچاکر رکھی تھی۔
کتنی رقم کی ہوگی؟ کامران نے جھٹ سے پوچھا۔
پوری عمر کی کمائی ہے خود ہی اندازہ لگاؤ، کروڑوں میں تو ہوگی ہی۔
کروڑوں کی سُن کر وہ فوراً بولا “ابو ۔۔۔! ہم اگلے ماہ وہاں آرہے ہیں وہیں بیٹھ کر بات کریں گے کہہ کر وقاص نے فون منقطع کردیا _،،
شرافت مسکراتے ہوئے اپنے آپ سے کہنے لگا،،اب تو آپ آؤ گے ہی،،
���
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9419463497