تہران //ایران کے مختلف شہروں میں مسلسل پانچویں روز حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ جاری رہا ہے اور سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں مرنے والوں کی تعداد بیس ہوگئی ہے جبکہ احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ پاکستان کی سرحد کے نزدیک واقع ایرانی شہر زاہدان تک پھیل گیا ہے۔اطلاعات کے مطابق ایران کے وسطی صوبے اصفہان میں واقع شہر قہدریا ن میں پانچ مظاہرین ہلاک ہوگئے ہیں۔ اصلاح پسندوں اور بنیاد پرستوں کے خبری ذرائع کے مطابق مظاہرین نے شہر کے ہال کی عمارت میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔ اس کے بعد مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔سابق صدر محمود احمدینژاد کے نزدیک بعض ویب گاہوں نے غیر مصدقہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس شہر میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دو ہے اور وہ دونوں سپاہ پاسداران انقلاب کے اہلکار ہیں۔قبل ازیں ایران کے سرکاری ٹیلی ویڑن نے ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے دوران میں بارہ افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی تھی لیکن اس نے ان ہلاکتوں کی مزید وضاحت نہیں کی تھی۔اس طرح اب تک ہلاکتوں کی تعداد بیس ہوگئی ہے۔ایرانی پارلیمان کے ایک رکن نے سوموار کے روز میڈیا کو بتایا کہ ان میں دو مظاہرین جنوب مغرب میں واقع ایک چھوٹے قصبے ایذہ میں گولی لگنے سے ہلاک ہوئے ہیں۔اس علاقے سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان ہدایت اللہ خادمی نے ایلنا نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ” ایذہ کے مکینوں نے بھی ملک کے دوسرے شہریوں کی طرح اقتصادی مسائل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس دوران میں دو افراد مارے گئے ہیں اور بعض زخمی ہوگئے ہیں“۔ایرانی حکومت نے قبل ازیں یہ اطلاع دی تھی کہ اس نے گذشتہ چار روز کے دوران میں 450 سے زیادہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ ایرانی کارکنان نے دعویٰ کیا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران میں پکڑے جانے والے افراد کی تعدداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔صوبہ لورستان میں ایک سرکاری گاڑی دو افراد پر چڑھ دوڑی جس سے وہ دونوں اپنی جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ صوبہ تہران کے نائب گورنر علی اصغر ناصر بخت نے کہا ہے کہ مقامی پولیس نے اتوار کی شب شاہراہوں پر احتجاج کرنے والے قریباً دو سو افراد کو گرفتار کیا تھا۔ان میں سے چالیس افراد مظاہروں کی قیادت کررہے تھے۔ صوبہ مرکزی کے میئر کے مطابق غیر مجاز احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے کی پاداش میں ایک سو سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ دریں اثناءتہران کے گورنر ہاو¿س کے ڈپٹی علی اصغر نصیربخت نے بتایا کہ ہفتے (30 دسمبر 2017) کو 200، اتوار (31 دسمبر 2017) کو 150 جبکہ پیر (یکم جنوری 2018) کو 100 افراد کو گرفتار کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ تہران میں گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں صوتحال انتہائی اطمینان بخش ہے، جس میں گزشتہ روز مزید بہتری آئی ہے۔ڈپٹی گورنر کا مزید کہنا تھا کہ اب تک پاسدارانِ انقلاب کو دارالحکومت میں مداخلت کرنے کی درخواست نہیں کی گئی۔خیال رہے کہ گزشتہ برس 28 دسمبر کو شروع ہونے والے مظاہروں کی شدت تہران میں دیگر شہروں میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں سے کم دکھائی دیتی ہے۔ادھر پاسدارانِ انقلاب کے ایک مقامی ڈپٹی کمانڈر اسمٰعیل کووساری نے سرکاری ٹیلی ویڑن سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ’ہم تہران میں عدم استحکام کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دیں گے، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اعلیٰ حکام اس معاملے کو ختم کرنے کا فیصلہ کریں گے۔
ایران میں حکومت مخالف پر تشدد مظاہرے جاری
