تہران//ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو ملک کے علاقے آذبائیجان کے پہاڑی علاقے میں حادثہ پیش آیا ہے جس کے بعد ہیلی کاپٹر اور اس میں سوار افراد کی تلاش جاری ہے۔خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر نے مشرقی ایرانی آذربائیجان کے علاقے ورزاغان میں عجلت میں بے ترتیب اور بے ہنگم لینڈنگ کی جس کے بعد جائے حادثہ پر امدادی ٹیمیں روانہ ہو گئی ہیں۔یہ حادثہ ورزاغان کے علاقے میں علاقے دزمر میں جنگلات سے بھرپور پہاڑی علاقے میں پیش آیا جس کی وجہ سے امدادی کاموں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ابراہیم رئیسی ایران اور پڑوسی ملک آذربائیجان کی سرحد پر اپنے ہم منصب الہام الیوف کے ہمراہ ڈیم کے منصوبے کا افتتاح کرنے کے لیے گئے تھے اور وہاں سے واپسی پر ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا۔ایران کے وزیر داخلہ احمد واحدی نے کہا ہے کہ خراب موسم کی وجہ سے قافلے میں شامل ایک ہیلی کاپٹر نے ہنگامی لینڈنگ کی اور ہیلی کاپٹر سے رابطہ کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ایک اہم ایرانی سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین عبداللہیان کی جانوں کو ہیلی کاپٹر حادثے میں خطرہ لاحق ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم اب بھی پرامید ہیں لیکن جائے حادثہ سے کو اطلاعات موصول ہو رہی ہیں وہ بہت تشویشناک ہیں۔رپورٹس کے مطابق سخت موسمی حالات اور دھند کی وجہ سے امدادی ٹیموں کو جائے حادثہ تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق جس ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا اس میں ایرانی صدر کے ساتھ ساتھ وزیر خارجہ حسین عامر عبداللہیان، مشرقی آذربائیجان کے گورنر ملک رحمتی اور کچھ مقامی اہم عہدیداران بھی سوار تھے۔صدر کا قافلہ تین ہیلی کاپٹرز پر مشتمل تھا اور کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق جس ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا، ابراہیم رئیسی اسی میں سوار تھے جبکہ بقیہ دو ہیلی کاپٹرز باحفاظت لینڈ کر چکے ہیں جن میں ایرانی وزیر توانائی علی اکبر مہرابیان اور وزیر ہاؤسنگ و ٹرانسپورٹیشن مہرداد بازرپش موجود تھے۔ ایران کی مسلح افواج کے سربراہ چیف محمد بغیری نے پاسداران انقلاب سمیت ملک کی تمام افواج کو مکمل سازوسامان کے ساتھ فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچنے کی ہدایت کردی ہے۔حادثے کے بعد ایران کے نائب صدر محمد مخبر دیگر حکومتی اکابرین کے ہمراہ تبریز روانہ ہو گئے ہیں۔یہ حادثہ ایرانی صوبے مشرقی آزربائیجان کے علاقے ورزاغان اور جولفا کے درمیان پیش آیا جو تبریز سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور حادثے سے قبل ہیلی کاپٹر تبریز کی جانب ہی رواں دواں تھا۔ایران کے سرکاری ٹی وی کی نشریات میں ہلال احمر کے رضاکاروں کو شدید دھند میں پہاڑی علاقے کی جانب رواں دیکھا جا سکتا ہے۔ایرانی ہلال احمر کا کہنا ہے کہ علاقے میں 40 ٹیمیں تعینات کردی گئی ہیں جو ہیلی کاپٹر اور اس میں سوار افراد کی کھوج کررہی ہیں۔ابھی تک حادثے میں کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی بھی تصدیق یا تردید نہیں ہو سکی۔اس کے علاوہ ابراہیم رئیسی کے آبائی علاقے اور ایران کے شہر مشہد میں امام رضا کے مزار پر عوام کو ان کی سلامتی کے لیے دعائیں کرتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔63 سالہ ابراہیم رئیسی 2021 سے ایرانی صدر کے منصب پر فائز ہیں۔ابراہیم رئیسی 1960 میں شمال مشرقی ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہوئے اور صرف صرف 20 سال کی عمر میں انہیں تہران بالمقابل واقع شہر کاراج کا پراسیکیوٹر جنرل نامزد کیا گیا تھا۔انہوں نے 1989 سے 1994 تک تہران کے پراسیکیوٹر جنرل کی خدمات انجام دیں جس کے بعد 2004 سے 2014 تک عدالتی اتھارٹی کے ڈپٹی چیف اور پھر 2014 میں نیشنل پراسیکیوٹر جنرل رہے۔انہوں نے 2021 میں ایک ایسے وقت میں بطور صدر ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی جب ایران شدید سماجی بحران کے ساتھ ساتھ اپنے متنازع جوہری پروگرام کے سبب امریکا کی وجہ سے عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے معاشی دباؤ کا شکار تھا۔انہیں اپنے دور میں اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے۔تاہم مارچ 2023 میں علاقائی حریف تصور کیے جانے والے ایران اور سعودی عرب نے حیران کن طور پر ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے تھے۔غزہ میں 7اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ نے خطے میں تناؤ میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کردیا تھا اور اپریل 2024 میں ایران نے اسرائیل پر براہ راست سیکڑوں میزائل اور راکٹ فائر کیے تھے۔اتوار کو آذربائیجان کے صدر کے ہمراہ ڈیم کے افتتاح کے بعد تقریر میں ابراہیم رئیسی نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے لیے ایران کی غیرمشروط حمایت کا اعادہ کیا تھا۔ایرانی صدر نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین مسلم دنیا کا سرفہرست مسئلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایران اور آذربائیجان کے عوام فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت اور صہیونی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔