رفیق احمد کولاری قادری
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اب ساتھ ہم سے رخصت ہونے والا ہے۔ اپنے دامن میں رحمت، مغفرت اور خلاصیٔ جہنم کا مژدہ جانفزا لئے ہوئے دن رات نوازشات ربانیہ و انعامات الہٰیہ کی بارش برساکے اپنے امتیازی شان کے ساتھ ہر گھر میں خوشیوں اور شادمانیوں کا ماحول پیدا کرتے ہوئے سایہ فگن رہا۔ظاہر ہے کہ
جیسے ہی یہ مہینہ سایہ فگن ہوتا ہے تو جملہ مخلوق اپنی اپنی غفلت وتساہلی سے بیداری وشعور کا لباس پہن لیتے ہیں۔ چنانچہ جو اب تک خدا کی بارگاہ سے دور ونفور تھے ،وہ سراپا عبادت وریاضت میں نظر آئے۔ غفلت سے توبہ کرکے ذکر وفکر والی زندگی گزاری ، مسجد کے در و دیوار بھی خوش رہے۔ مسجد کی سجدہ گاہیں سجدوں سے آراستہ ہوئیں، ہر طرف تلاوتِ قرآن کریم کے نغموں سے فضا معطر رہی ۔ صدقہ وخیرات کا دروازہ کھل گیااور گھر گھر روزمرہ کا سودا سلف پہنچایاگیا۔ اسی طرح تراویح اور قیام اللیل، افطار وسحری کا روح پرورمناظر بھی دیکھ کر دل شاد کام ہو تے رہے۔ ہر بندہ محو عبادت رہ کر اپنے مالک حقیقی کو راضی کرنے میں مشغول رہا کہ روٹھا ہوا ربّ کسی طرح ہم سے راضی ہوجائیں۔ توبہ اور اپنے کئے ہوئے گناہوں پر ندامت کے اشک بہا کر ربّ کےحضور گریہ وزاری میں مبتلا رہے۔ ربّ کو یہ ادائیں کافی پسند ہیں۔ وہ فرشتوں کے جھرمٹ میں ناز کرتے ہوئے کہتا ہے دیکھا کہ میرا بندہ مجھے راضی کرنے کے لیے کیا کیا کررہا ہے۔ تم گواہ رہو، میں نےمیرے فلاں بندے کے تمام گناہوں کو معاف کرکے اُس سے راضی ہوا۔ اس کے حق میں پروانہ بخشش لکھی، اور وہ مغفور اور گناہوں سے پاک ہوکر ایک نئی زندگی گزارے گا۔ یہ رمضان ہی کا فیض عام ہے کہ گنہگار بندے بھی تقویٰ اور خشیت الٰہی سے اپنے سینے کو معمور کرلیتے ہیں اور نیک زندگی گزارتے ہیں۔ یہ جو کچھ بیان ہوا، تصویر کا ایک رُخ ہے۔ اب تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھئے۔ جو ہمارا آج کا اہم موضوع ہے۔ شومئی قسمت کہئے کہ جہاں رحمت، مغفرت اور خلاصیٔ جہنم کا ذریعہ رمضان ہے، وہی کچھ بد بخت افراد کے لیے یہ ماہ مبارک حجت بھی ہے۔ حدیث پاک میں سرکار دوجہاں ﷺ نے تین افراد کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ بدنصیب ہیں۔بد قسمت ہیں۔ وہ محروم رحمت خداوندی ہیں۔ وہ راندہ بارگاہِ یزداں ہیں۔ اب آئیے امام الانبیاء ﷺ کی زبان فیض ترجمان سے ان تین افراد کے بارے میں سنتے ہیں۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر تشریف لے گئے، جب پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین، پھر دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین، پھر تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا:آمین، پھر اس ماجرے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: میرے پاس حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور کہنے لگے: اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو شخص رمضان کا مہینہ پالے اور اس کی مغفرت نہ ہوتو اللہ تعالی اسے رُسوا کرے، میں نے کہا: آمین۔ اے اللہ قبول فرما۔ حضرت جبریل ؑنے جب دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: جو اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پالے، پھر ان کی نافرمانی کرکے جہنم میں داخل ہوا تو اللہ تعالی اسے رُسوا کرے، میں نے کہا: آمین۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے جب تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر فرمایا: اور وہ شخص جس کے سامنے آپ کا نام لیا جائے ،پھر وہ آپ پر درود نہ بھیجے تو اللہ تعالی اُسے بھی رُسوا کرے، کہئے آمین، میں نے کہا: آمین۔) صحیح ابن حبان، طبرانی کبیر)
آپ نے پڑھا وہ تین رسوائے زمانہ اور بد قسمت لوگ کون ہیں؟
1) وہ جو رمضان کا مبارک و مقدس مہینہ پائیں اور اس کی ناقدری کر کے اپنے آپ کو اس ماہ مبارک کے تمام انوار وبرکات سے محروم رکھا اور اپنی مغفرت تک نہ کروا سکا۔
2) وہ جو اپنے بوڑھے والدین کو پایا اور ان کی خدمت کرنے کے بجائے انہیں پریشان کیا اور وہ ان کے ذریعے جنت حاصل کرنے کے بجائےوہ جہنم کا ایندھن بن گیا۔ جس طرح ایک انسان کے لیے اس کے ماں باپ جنت کا ذریعہ ہیں، اسی طرح وہ اس کے لئے جہنم کا سبب بھی بن سکتے ہیں اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔
3) وہ جس کے سامنے امام الانبیاءؐ کا اسم گرامی قدر لیا گیا اور نام مبارک سُن کر اس نے بخل سے کام لیتے ہوئے درودشریف نہیں پڑھا۔
مذکورہ بالا حدیث میں پہلا شخص بڑا ہی محروم ہے۔ اس لیے کہ رمضان المبارک کا مہینہ جیسے ہی جلوہ بار ہوتا ہے تو حدیث نبویؐ کے مطابق شیطان اور سرکش جنات قید کردئیے جاتے ہیں تاکہ کہیں شیطان کی ورغلاہٹ میں آکر بندہ رب ّکے انوار وبرکات سے محروم نہ ہو جائیں۔ جہنم کے سارے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے۔ ان تمام باتوں کے باوجود اگر وہ اپنی بخشش اور مغفرت نہیں کروا سکا تو اندازہ لگاؤ پھر کب اُسے ایسا سنہرا موقع ہاتھ آئے گا۔ صرف کھانے پینے سے اپنے آپ کو روک کے رکھنے سے روزہ نہیں ہوتا۔ ایسے روزوں کی خدا کو کوئی ضروت نہیں۔ جیسے کہ حدیث پاک میں ہے کہ سرکار دو عالمؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کام اور باطل کلام نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے علاوہ معصیات ومنکرات سے بھی زبان ودہن اور دوسرے اعضاء کی حفاظت کرے، اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی پروا نہیں۔ (بخاری)اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس ماہِ مبارک کے رخصت ہونے کے بعد بھی ربّ قدیر ہم سب کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے فرامین کے عین مطابق چلنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین
[email protected]