اگر میں پرندہ ہوتا؟

میر حسین
ذات الجلال نے اس دنیا کو لاکھوں کروڑوں جانداروں سے مزین کرکے ایک خاص نظم و نظام کے تحت منظم کیا ہے۔ان جانداروں میں کیڑے، مکوڑے سمیت الگ الگ حیوانات، جانور اور ہزاروں دیگر جاندار پائے جاتے ہیں۔دیگر تمام جانداروں سے الگ اور منفرد حیثیت کی حامل ذات انسان کی ذات ہے جو تمام مخلوقات سے اشرف اعلیٰ اور عظیم ہے۔خدا نے کائنات میں موجود تمام تر اقسام ذوات کو انسان کے لئے جبکہ اس اشرف المخلوقات کو اپنے لئے خلق کیا ہے۔قرآن کے مفہوم کے عین مطابق انسان ملائکوں سے برتر اور جانوروں سے بدتر ہونے کی سند حاصل کرسکتا ہے۔یہ سب انسان کی کاموں کا نتیجہ اور ماحصل ہوگا۔شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جانور انسان نہ ہونے پر فخر کریں گے کیونکہ اس انسان نے کچھ ایسا ضرور کیا ہوگا ،جس کے سبب آج یہ جانوروں کے معیار سے بھی نیچے نظر آتا ہوگا۔ جی ہاں! دوستو انسان حیوانوں کی صف سے بھی جدا نظر آتا ہے، اس کی سوچ، اس کی فکر، اس کی روش میں اس کا انداز غرض سب رحمانی سوچ، فکر انداز اور ہدف سے کہیں میل نہیں کھاتا، اس لیے پرندہ ہونا بھی کسی صحیح لحاظ سے فخر کی بات ہوگی:  کیوں؟کیونکہ میں اگر پرندہ ہوتا تو کم از کم انسان نہ ہوتا اور انسانیت کے بدبودار گُل اس گلستان میں نہ کھلاتا اور انہیں خون کے آنسو بہانے پر مجبور نہ کرتا کیونکہ ایسا صرف آپ کر سکتے ہیں نہ کہ ہم، بس فرق ضمیر کی معصیت اور معصومیت کا ہے، جس کو آپ انسانوں نے کھوٹے درہموں میں بیچ ڈالا۔اگر میں پرندہ ہوتا!تو بہرحال یہ طے تھا کہ کسی خاتون کو زندگی کی دہلیز پر بیوہ ہونے کا کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور نہ کرتا،کسی بچے کو کم سنی میں ہی یتیمی کے نام مہر نہ کراتا۔طے تھا کہ ظالم و مظلوم کو ایک ہی صف میں کھڑا نہ کرتا کیونکہ ایسا صرف آپ یعنی انسان کے خونی ہاتھ سے ہی ممکن ہے نہ کہ ہم جیسے محبت و مودت کے دلدار جانوروں کے ضمائر سے۔اے انسان! آپ کبوتر جیسے جانور کی خاصیت بھی خود میں پیدا نہ کرسکا۔کبوتر اپنی جائے پیدائش نہیں بھولتا لیکن آپ نے تو ایک دوسرے کا گلا اس طرح گھونٹ لیا ہے کہ ہم اپنی اصل جائے قیام تک بھول گئے۔گھٹن کے اس ماحول میں کبوتر جیسے انسان دوست جانوروں کی طرح خود کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

کیوں ہم نے مثبت خصائل کی جگہ پرندوں کے منفی خصوصیات اپنائے؟ کوا ایک ایسا پرندہ ہے جو کھانے کے لحاظ سے چیزوں میں امتیاز نہیں برتتا۔جو بھی غذا اُس کو ملتا ہے کھا کر خود کو سیر کرتا ہے۔کوے کی اس صفت کو ہم نے چوں و چرائے بغیر دل سے لگایا ہے بلکہ ہم ایک قدم آگے ہی بڑھے ہیں۔ہم نہ صرف امتیاز کیے بغیر غذاؤں کا استعمال کرتے ہیں بلکہ غصب کر کے کھا لینے میں کوئی حماقت تک محسوس نہیں کرتے۔غذاؤں اور اناج کو پوشیدہ رکھ کر بعد میں غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر استعمال کرنے کی ناجائز ترکیب بھی کوے کی ہی دین ہے ورنہ ایم ائمہ ہدی اس کام سے سخت منع کرتے ہیں۔

اگر میں پرندہ ہوتا!تو پرواز کرنا سکھاتا اور اونچائی سے دکھاتا کہ دنیا کتنی خوبصورت اور دلفریب جگہ ہے اور احساس کراتا کہ آپ نے اس تخلیق کو کس قباحت،بے ایمانی اور خیانت سے ایک زندہ اور جاوید دوزخ میں تبدیل کیا۔پرواز آپ بھی کرتے لیکن آپ نے پرواز سے پہلے ہی اپنے پر پست مقاصد کی خاطر کاٹ ڈالے۔

اگر میں پرندہ ہوتا!تو میں آپ کو سکھاتا کہ کس طرح پرواز سے جاودانی کا حصول ممکن ہے اور دکھاتا کہ کمال اور ترقی سے کس طرح زوال اور تنزلی کا شکار ہوا جاتا ہے۔پرندہ ہونے کی صورت میں میں آپ کو اس رزق سے آشنا کراتا جس رزق سے اڑان اور تکمیل ہونے میں آسانی ہوتی ہے اور اس رزق سے بھی شناسائی کراتا ،جس رزق سے پرواز میں کوتاہی اور وقت کا ذبیحہ ہوتا ہے اور شاعر مشرق کے اس شہر کو بھی یاد دلاتا ہے جس میں وہ ہمیں باور کراتا ہے کہ بہتر ہے اس رزق سے جس سے پرواز کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔خودی اور خود کو بھول کر ہم انسانیت کے اقتدار اور وقار انسانی سے بہت گر چکے ہیں،اتنے گر چکے ہیں کہ اب آزاد فکر انسان دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہے۔دنیا کی اس لطیف اور رنگین نما حلیہ میں کھو گیا ہے۔خدا بہتر جانتا ہے کہ کب ہم چیتے نما نیند سے بیدار ہو جائیں تاکہ معیار انسان و انسانیت کو پا سکے۔کتنے صفات ایسے ہیں جو پرندوں میں ضرور پائے جاتے ہیں لیکن اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ہم ان خصائل سے عاری ہے۔کیا پرندوں نے وہ صفات ہم سے سیکھے ہیں یا ہم ان کے صفات اپنانے سے کتراتے ہیں یا شیطانی انانیت ہمیں روکتی ہے ۔ہم کیوں اپنے سے کمتر ذات سے چیزوں کو نقل کریں۔جی ہاں دوستوں اسی انانے موجودہ دور کے انسان کو تباہی کی دہلیز پر لاکھڑا کیا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دوسرے کی بجائے خود میں عیوب ڈھونڈے اور ان کو روح سے جدا کرنے کی سعی کریں تاکہ ہم دوسرے میں تخریب کے بجائے تعمیری سوچ پیدا کر سکیں اور ہمیشہ ان میں خوبصورت چیزوں کو دیکھنے کی متمنی بن جائیں۔

خدا ہمیں اپنی خلقت کی ہدف اور مقصد کو سمجھنے کی توفیق عنایت کریں۔اگر میں پرندہ ہوتا تو ضرور اپنے متضاد جنسوں کی عزت کرنا سکھاتا ،یہ چیز آپ انسانوں کو ہی زیب دیتا تھا۔لیکن افسوس کہ آپ نے اپنی بصارت سمیت بصیرت تک کو نیلام کر دیا، جس کے نتیجہ میں آپ امتیاز برتنے سے قاصر رہتے ہیں کہ جنس مخالف بھی عزت کا متقاضی اور مشتاق ہوتا ہے۔

دنیا میں ہوں، نہ دنیا کا طلبکار نہیں ہوں

 بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

زندہ ہوں مگر زیست کی لذت نہیں باقی

 ہر چند کہ ہوں ہوش میں لیکن ہوشیار نہیں ہوں

[email protected]