جموں وکشمیر کی ادبی ذرخیزیت سے ادبی دنیا بخوبی واقف ہیں اور یہاں کے گنے چنے ادبی علاقوں میں پونچھ خاصی پذیر ائی حاصل کرچکا ہے ۔اس علاقے سے کرشن چندر،کشمیری لال ذاکر ،محمد الدین فوق کی وابستگی ایک طرف اورٹھاکر پونچھی،جیلانی کامران،مالک رام آنند،بلراج بخشی،پرویز مانوس،شیخ خالد کرار وغیرہ کا آبائی وطن یہی پونچھ ہے ۔ اس ادبستان سے نئی نسل کے درجنوں فکشن نگار،شاعر ،صحافی اور ریسرچ اسکالر پیدا ہوئے ہیں اور ان میں ایک نام محمد ارشد کسانہ کا آتا ہے جو ان دنوں دہلی یونیورسٹی سے ڈاکٹر یٹ کی ڈگری میں مصرف ِ عمل ہیں۔حالیہ دنوں ان کی مرتب کردہ کتاب’’اکیسویں صدی میں اردو ادب‘‘ منظر عام پر آئی ہے ، چونکہ میں جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے ہر چھوٹے بڑے قلمکار کی کتاب پڑھنا پسند کرتا ہوں۔ لہٰذا ایک کتاب حاصل کرکے اس کا مطالعہ شروع کیا۔یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی نے شائع کی ہے اورکتاب کی قیمت ۲۵۰ رکھی گئی ہے،جو آج کی گراں بازاری میں نہ صرف مناسب بلکہ کم قلیل معلوم ہوتی ہے۔مجموعی طور پر کتاب ۱۹ مضامین پر مشتمل ہے جن کو پانچ اصناف شاعری،فکشن،غیر افسانوی نثر،تحقیق وتنقید اور صحافت کے خانوں میں بانٹا گیا ہے۔محمد ارشد کی مہارت نہ صرف مضامین کو مختلف اصناف کے تحت ترتیب دینے میں نظر آتی ہے بلکہ آغاز میں’’میں ذمہ دار نہیں ہوں‘‘ کے عنوان سے لکھی نظم سے بھی ہوتا ہے۔ مرتب نے ۴۰ صفحات پر مشتمل ایک ضخیم مقدمہ بھی تحریر کیا ہے۔جہاں تک مرتب کے مستقبل کا سوال ہے تو انہوں نے اس ضمن میں اپنا مشن واضح کیا ہے کہ وہ کن ادبی مصروفیات میں مشغول ہے۔اس سے پہلے ان کے افسانوں کا مجموعہ’’ابابیلیں اب نہیں آئیں گی‘‘۲۰۱۹ء میں شائع ہواتھا۔ان کی زیر طبع تصانیف میں’’چنار اُداس ہے(ناول)،مشن دوسری دنیا(ناول)،کفن ۲(افسانوی مجموعہ)،تمہیں بھلانے کی مسلسل جستجو میں ہوں(شعری مجموعہ)،پونچھ کے اردو ادیب(تنقیدوتحقیق) اور سرینگر کے اردو ادیب(تنقید وتحقیق)‘‘شامل ہیں۔اب ان میں سے کون کون سے کتاب منظر عام پر آئے گی ،یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔
زیر بحث کتاب کا مقدمہ قارئین کو ضرور اپنی طرف متوجہ کرے گا کیونکہ اس میں مصنف نے تفصیل سے اکیسویں صدی کے اردو ادب پر روشنی ڈالی ہے۔مقدمہ میں ارشد صاحب نے طلسماتی انداز اپنایا ہے،اس وجہ سے نہیں کہ اس میںفوق الفطری عناصر کا ذکر کیا ہو بلکہ اس وجہ ہے کہ کلیم الدین احمد کی طرح ہر بات کو سوالیہ انداز اورشک کی نظروں سے بیان کیا ہے۔مقدمہ کی شروعات ہی چونکا دینے والی بات سے کی ہے کہ اکیسویں صدی کا ادب صحافت کے بہت قریب ہوچکا ہے اور اس صدی کا ادب دل بہلانے کے بجائے انسان کو دکھوں میں مبتلا کرتا ہے۔حالانکہ ان باتوں پر سوالات کھڑے کیے جاسکتے ہیں لیکن اکیسویں صدی کے قارئین اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں کہ کون کیا کہتا ہے اور کس انداز سے کہتا ہے کیونکہ آج کل کسی کے پاس پڑھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔حالانکہ امتحان کی تیاری کے لئے طلبہ،نوکری کے لئے ضرورت مند کسی حد تک مجبور ی میں سرسری مطالعہ کرتے ہیں لیکن نوکری کے بعد مشکل سے دس فیصد لوگ لکھنے پڑھنے کی طرف دھیان دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹریٹ کے باوجود ہمارے اساتذہ کے پاس ایک عدد مضمون لکھنے کی فرصت نہیں اور کتاب لکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔
ارشد صاحب نے مقدمہ میں مزید کچھ سوالات اُٹھائے ہیں۔وہ اکیسویں صدی کے ادب کو نہ ادب برائے ادب اور نہ ادب برائے زندگی مانتے ہیں بلکہ اس کو ادب برائے سماج کا نام دیا ہے۔اردو ناول نگاروں سے یہ شکایت ہے کہ وہ آج تک پریم چند جیسا ناول گئودان نہیں لکھ سکیں ہیں۔حالانہ اکیسویں صدی میں شمس الرحمان فاروقی کا’’کئی چاند تھے سرآسمان‘‘ اور مشرف عالم ذوقی کا ’’مرگ ِ انبوہ‘‘کو زبردست پزیرائی ملی ہے۔سرسید تحریک کی ادبی خدمات سے کون واقف نہیں ہے لیکن ارشد صاحب نے اس تحریک پر بھی سوالات اُٹھائے ہیں کہ سرسید مرحوم نے ادب سے علم و اصلاح کا کام لیا ہے۔تو کیا ادب سے علم واصلاح کا کام لینا ممنوع ہے یا پھر یہ ادب کے دائرہ کار میں شامل نہیں ہیں۔تنقید کو مختلف ناقدین نے الگ الگ القاب سے یاد کیا ہے اور ارشد صاحب نے جدید دور کی تنقید کو قصیدہ گوئی سے تعبیر کیا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ آجکل تنقید بھی فرمائش پر ہوتی ہے۔شاعری کے بارے میں کہتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی شاعری دل کے بجائے دماغ کی دین ہے اور جدید غزل کے نام پر پھیکی شاعری کا گراف روز بہ روز بڑھتا جارہاہے۔خواتین قلمکاروں کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ قراۃ العین حیدر جیسی علمبردار خاتون کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے صرف اپنا رونا روتی ہے اور ان کی کل کائینات تانیثیت نظر آتی ہے۔گویا اگران کی تخلیقات سے رونا دھونا اور تانیثی شعور نکالا جائے وہ وہاں کچھ باقی نہیں رہے گا۔بہرحال کتاب کا مطالعہ کرتے وقت گہرائی سے مطالعہ کرنے والوں کو بحث ومباحثہ کے لئے زبردست مواد ملیں گے۔مقدمہ میں مصنف نے اردو زبان وادب کی اہم پچاس ویب سائٹ کا بھی تعارف کرایا ہے۔المختصر انیسویں صدی میں ناسخ نے اپنا کلیات’’دفتر پریشان‘‘ کے نام سے شائع کیا تھا اور اکیسویں صدی میں محمد ارشد نے اپنا مقدمہ’’دفترِ شکایات‘‘ منظر عام پر لایا ہے۔حالانکہ کچھ شکایات میں صداقت بھی نظر آتی ہے جیسے جموں وکشمیر کے مصنفین اور اداروں کے بارے میں جو رائے قائم کی ہے وہ حق بجانب نظر آتی ہے۔مضامین کے انتخاب اور صاف نیت سے قائم کی گئی شکایات کیلئے فاضل مرتب شاباشی کا حقدار ہے۔اردو زبان میں ہزاروں بہترین کتابوں کی طرح اس کتاب کو بھی خاطر خواہ قارئین میسر نہیں ہوں گے اور یوں کتاب مرتب کرنے کا مقصد فوت ہوسکتا ہے۔
زیر مطالعہ کتاب میں شامل مضامین پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔پہلا مضمون توصیف احمد ڈار کا’’اکیسویں صدی میں اردو غزل‘‘ ہے۔اگرچہ اس مختصر سے مضمون میں اکیسویں صدی کی غزل کی خوبیان بیان کی گئی ہے لیکن زیادہ اشعار وحوالہ جات کے سبب مضمون نگار وضاحت نہیں کرپایا ہے۔دوسرا مضمون دانش اثری کا’’اکیسویں صدی میں اردو نظم کی روایت‘‘ہے۔اس میں اکیسویں صدی کے اہم نظم گو شعراء کی خوبیوں،فکر اور زاوئے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔محمد ارشد کسانہ نے’’اکیسویں صدی میں اردو رباعی‘‘ کے نام سے مضمون لکھا ہے۔اگرچہ اکیسویں صدی کے درجنوں رباعی گوشعراء اور ان کے شعری مجموعوں پر بحث کی ہے لیکن جموں وکشمیر کے دو مشہور رباعی گو شعراء مسعود سامعوں اور سلیم ساغر کا ذکر نہیں کیا ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف نے علاقائی ادب کا بغور مطالعہ نہیں کیا ہے۔کشمیر یونیورسٹی کی ریسرچ اسکالر مسرت آرا نے’’اکیسویں صدی میں اردو نعت‘‘ پرمختصر مضمون لکھا ہے ۔حالانکہ ان کے ڈاکٹریٹ کا موضوع جموں وکشمیر کے بارے میں ہی ہے لیکن ریاست کے صرف ایک نعت گو ذکر کرکے اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ وہ یہاں کے نعت گو شعراء سے واقف نہیں ہے ۔اگر صرف رسالہ ’’جہان حمد ونعت‘‘ کے ایڈیٹر ڈاکٹر جوہر قدوسی سے رابطہ کرتی تو درجنوں بہترین نعت گو شعراء سے شناسا ہوپاتی۔محمد ارشد کا مضمون’’اکیسویں صدی میں اردو مرثیہ‘‘ ایک عمدہ مضمون تصور کیا جاسکتا ہے کیونکہ اکیسویں صدی میں اس صنف کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی ہے۔بڑی محنت اور عرق ریزی نے اس صدی کے مرثیہ گو شعراء کے کلام تک رسائی حاصل کی ہے اور اس کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ آخرپر یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی ہے کہ’’جدید مرثیہ کی تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ وہ مرثیہ جو اپنے عہد کا آئینہ دار ہو وہ جدید مرثیہ ہے‘‘(ص۔۱۹۴) شاعری کے باب کا آخری مضمون اندور یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر ڈاکٹر حارث حمزہ لون کا’’اکیسویں صدی میں قطعہ نگاری‘‘ ہے۔اس موضوع پر قلم اُٹھانا ہی حارث صاحب کی دلچسپی اور مطالعہ کا پتہ دیتی ہے۔بہترین انداز میں گنے چنے قطعہ نگاروں کے کلام کا جائزہ لیا ہے لیکن جموں وکشمیر کے کسی قطعہ گو کا ذکر نہ کرکے علاقائی ادب اور کشمیر کے وارث کا حق ادا نہیں کیا ہے۔
زیر نظر کتاب کا دوسرا حصہ فکشن پر لکھے پانچ مضامین پر مشتمل ہے۔پہلا مضمون ناہید شفیع کا’’اکیسویں صدی میں اردو ناول کی روایت‘‘ ہے۔ان کے مطابق اکیسویں صدی کا پہلا ناول علی امام نقوی کا’’بساط‘‘ ہے۔اس مضمون کا مطالعہ کرنے سے قارئین کو بہت حد تک اطمینان ہوگا کہ واقعی عمدہ مضمون لکھا ہے۔نہ صرف تمام ناول نگاروں بلکہ جموں وکشمیر کے متعدد ناول نگاروں کا بھی ذکر کیا ہے۔اکیسویں صدی کے ناولوں کا موضوعاتی مطالعہ ہو یااہم مسائل کی عکاسی ہو ،تمام اہم نکات پر بخوبی روشنی ڈالی ہے۔فکشن کے باب میں محمد ارشد کا مضمون’’اکیسویں صدی میں اردو افسانہ‘‘ بھی شامل ہے۔اس مختصر مضمون میں عالمی مسائل کی گونج سنائی دیتی ہے۔محمد ارشد کا ماننا ہے کہ اکیسویں صدی کے افسانوں کا مطالعہ کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی اخبار کا مطالعہ کررہے ہوں اور اکیسویں صدی کا کوئی افسانہ دوبارہ پڑھنے کو جی نہیںکرتاہے۔کیونکہ ان میں اخبارات کی طرح جنگ،بیماری،معاشی وسیاسی مسائل کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے۔حالانکہ اس مضمون کی خاص اہمیت یہ ہے کہ اس میں مصنف نے اس صدی کے ۲۷۵ ؍افسانہ نگاروں کے لگ بھگ ۵۰۰ افسانوی مجموعوں کی فہرست ترتیب دی ہے جو ایک تاریخی وتحقیقی کام ہے۔البتہ محمد ارشد نے جلد بازی سے کام لیکر ان افسانوں نگاروں کو کسی بھی ترتیب یعنی پیدائش یا حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب نہیں دیا ہے، جس کے سبب کچھ خامیاں در آئیں ہیں جیسے نمبر شمار ۱۸۷؍ اور۲۵۸ پر دونوں جگہ پر زنفر کھوکھر کا ذکر کیا ہے ۔ذوالفقار علی کا مضمون’’اکیسویں صدی میں اردو افسانچہ‘‘ بھی ایک عمدہ مضمون ہے۔ذوالفقار نے بڑی محنت اورعرق زیزی سے اس صدی کے افسانچہ نگاروں اور ان کے مجموعوں کا ذکر کیا ہے۔انہوں نے افسانچہ نگاری کے آغاز میں خلیل جبران ،کرشن چندر اورعظیم راہی جیسے مشاہیر کی خدمات کا بھی اعتراف کیا ہے۔اگرچہ اس صنف کے حوالے سے مواد تلاش کرنا مشکل ہے لیکن مصنف نے ہندوپاک کے افسانچہ نگاروں کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیرکے تمام اہم افسانچہ نگاروں کی خدمات کا ذکر کیا ہے۔اس مضمون کیلئے مصنف صحیح معنوں میں داد کا مستحق ہے۔اس باب کا آخری مضمون اشفاق احمد آہنگر کا’’اکیسویں صدی میں اردو ڈراما: سمت ورفتار‘‘ ہے۔اشفاق صاحب نے بھی قدرے محنت سے اس صدی کے ڈراموں کا جائزہ لیا ہے۔اس مختصر مضمون میں منتخب ڈراما نگاروں کے اہم ڈراموں کا جائزہ لیا گیاہے ،نہ کہ اکیسویں صدی کے تمام ڈراموں کا ذکر کیا ہے۔اس صدی کے ڈراموں کے موضوعات خصوصاً شعور کی رو تکنیک استعمال کرنے والے ڈراموں نگاروں کی لمبی فہرست بیان کی ہے۔بہرحال اس باب میں اس صدی کے ناول،افسانہ،افسانچہ اور ڈرامہ نگاری کا عمدہ مواد پڑھنے کو ملتا ہےتیسرا باب غیر افسانوی نثر کے عنوان سے ہے جس میںپانچ مضامین شامل ہیں۔محمد فیصل کسانہ کے مضمون’’اکیسویں صدی میںسوانح نگاری‘‘میں اس صدی کے دس اہم سوانح نگاروں کا ذکر کیا ہے۔اگرچہ سوانح کے آغاز وارتقاء پر بھی سرسری نظر ڈالی ہے لیکن تمام تر توجہ ’’محمود الہٰی:حیات وخدمات،قاضی عبدالودود:شخصیت وخدمات اور مولانا ابوالکلام آزاد:ایک مطالعہ‘‘نامی تین سوانح پر مرکوز کی ہے۔اس مختصر مضمون کا اختتام پرپچاس سے زائد اہم سوانح عمریوں کے نام سے کیا ہے ۔ یوں مضمون نگار نے مضمون لکھنے کا حق بھی کسی حد تک ادا کیا ہے۔دوسرا مضمون محمد ارشد کا’’اکیسویں صدی میں اردو خودنوشت‘‘ ہے۔اس میں مصنف کا گہرا شعور، وسیع مطالعہ اور حقیقت نگاری نظر آتی ہے۔اردو کی پہلی خودنوشت’’کالا پانی‘‘ سے مضمون کی شروعات کی ہے اور پھر اس صدی کی ۳۲ خودنوشتوں کا مختصر تعارف پیش کیا ہے ۔انہوں نے تین قسم کی خود نوشتوں طبع زاد ،ترجمہ اور مرتب کردہ خدنوشتوںکاذکر کیا ہے۔خودنوشت کے حوالے سے کچھ غلط بیانی کا بھی جواب دیا ہے۔جیسے حمایت علی شاعر نے ۲۰۰۱ء میں’آئینہ در آئینہ‘‘ کے نام سے منظوم خودنوشت لکھکر یہ دعویٰ کیا تھا کہ:’’نثر میں خودنوشت سوانح حیات بہت لکھی گئی ہیں مگر نظم میں یہ’’پہلا تجربہ‘‘ ہے۔میں اسے پہلا تجربہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اس میں واقعات،تاریخی حوالوں کے ساتھ مرتب ہوئے‘‘۔ (ص۔۱۷۴) ۔۔۔۔۔۔(جاری)
(رابطہ : پلوامہ کشمیر۔7006108572)