اکبر بادشاہ کا’جھروکہ‘ اب کس کام کا؟

 گاندربل//شہرہ آفاق مانسبل جھیل کی شان رفتہ بحال کرنے میں مانسبل ڈیولپمنٹ اتھارٹی ناکام ہوگئی ہے جس پر شعبہ سیاحت و دیگر متعلقہ شعبوں سے وابستہ طبقوں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ایشیا کی سب سے گہری اور صاف شفاف کہلانے والی مانسبل جھیل پر کوندہ بل،راتھر محلوں کے مقامات پر کئی کنال پر ناجائز قبضہ کئے جانے کے ساتھ ساتھ جھیل کے کناروں پر موجود رہائشی بستیوں سے نکلنے والا گندہ پانی اور بیت الخلاء سے نکلنے والا فضلہ جھیل کی طرف جانے سے مانسبل کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے۔جھیل کے اندرگھاس جمی ہوئی جارہی ہے جس سے جھیل سکڑتی جارہی ہے۔اس جانب سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی تو شہرہ آفاق مانسبل جھیل قصہ پارینہ بن جائے گی۔تاریخی اہمیت کی حامل جھیل جس کے ایک کنارے پر مغل بادشاہ اکبر نے محل اور باغ بنوایا تھا، اس وقت جھروکہ بل کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس وقت جھروکہ( بڑی سی کھڑکی)بنوائی گئی تھی جہاں سے اکبر بادشاہ اس زمانے میں مانسبل جھیل کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ساتھ ہی رعایا کو اسی جھروکہ سے ملاقات وغیرہ دیا کرتے تھے۔مانسبل جھیل کی گہرائی 50 فٹ سے زائد ہے جبکہ ایک کلومیٹر چوڑائی،پانچ کلومیٹر لمبائی جبکہ محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق 4600 کنال کاغذات پر درج ہے۔جھیل کے ایک کنارے پر چشمہ مانسبل موجود ہے جہاں سے پانی ابل کر جھیل میں چلا جاتا ہے۔چشمہ کے قریب ہی چند سرنگیں جن کی لمبائی سو میٹر کی قریب تھی سیاحوں کی دلچسی کا خاص محور ہوا کرتی تھیں۔ موجودہ وقت میں ان کا وجود ختم ہوا ہے ۔ماضی میں گرمیوں کے موسم میں ریاست اور بیرون ریاست کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک سے سیاحوں کی بھاری تعداد سرینگر سے شکاروں،کشتیوں اور ہاوس بوٹوں میں سوار ہوکر مانسبل کے مقام پر جہاں دریا جہلم اور مانسبل جھیل آپس میں ملتی ہیں وہی سے جھیل میں داخل ہوکر کئی روز تک جھیل کے پانیوں میں قیام کرتے تھے۔سیاح جو کئی راتوں تک قیام کرتے تھے اس وقت مانسبل جھیل میں قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے تھے جب چاندنی راتوں میں چاند پورے جوبن پر ہوا کرتا تھا۔اس وقت مانسبل جھیل کی شان رفتہ بہت ہی متاثر ہوئی ہے۔گاندربل کے سرکردہ اور معروف وکیل شبیر احمد مسعودی نے اس بارے میں کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ"تاریخی اہمیت کی حامل اور بہت ہی خوبصورت جھیل سرکار کی لاپرواہی اور عدم توجہی کے باعث اس وقت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے اس جانب اگر سنجیدگی سے قدم نہیں اٹھایا گیا تو اس کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا ۔