اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارتی جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کا سیکولر تانا بانا اور سماجی یک جہتی لگاتار بکھر رہی ہے ۔ یہ حکومت پسماندہ ذات کے دلتوں اور مسلمانوں کے ساتھ جیسا استحصال کررہی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بی جے پی کے ترجمان چاہے لاکھ ان سچائیوں اور ۲۰۱۴ء اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی رپورٹ کو نامکمل اور ہندستان کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیں لیکن سچا ئی یہی ہے کہ ملک میں ایک مذہبی جنون طبقاتی اور ذات پات کی سیاست زوروں پر ہے۔مودی حکومت نے اظہار رائے ،مذہبی آزادی ، خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ اور پسماندہ طبقہ کے استحصال کو روکنے کے لئے بھی کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا ہے ۔ بہوجن سماج وادی پارٹی کے لیڈر سمیت سارے ہی دلت رہنما مودی حکومت پر لگاتار یہ الزام عائد کررہے ہیں کہ وہ پسماندہ ذات کے دلتوں ، مسلمانوں اور عورتوں کا استحصال کر رہی ہے اور یہ کہ مرکز میں آنے کے بعد ان فرقوں پر ظلم وزیادتی میں کافی اضافہ ہوا ہے ۔مسلمانوں کے سلسلے میں بی جے پی کے رہنما اور وزراء جس طرح کے اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں ان پر وزیر اعظم کی کوئی گرفت نہیں ہے اور اس طرح کے بیانات دے کروہ ملک میں ٹکراؤ اور انتشار کا ماحول پیدا کرنا چاہ رہے ہیں ۔اس ضمن میں نریندر مودی کی خاموشی بھی کم معنی خیز نہیں ہے ۔یا تو وزیر اعظم کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اس سلسلے میں ان کی بات کوئی نہیں سنے گا یا پھر انہوں نے ایسے لوگوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
۱۲؍اپریل کا دن ملک کی تاریخ میں اپنے سیاہ نقوش چھوڑ گیا لیکن اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج کی زمین ایک دن میں ہی تیار نہیں ہو گئی تھی۔اس کے پیچھے وہ تمام عوامل کارفرما تھے جو گزشتہ چند برسوں کے دوران دلتوں پر مظالم کئے گئے تھے ،یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ بغیر کسی لیڈر شپ اور کسی کی سربراہی کے’’بھارت بند‘‘اس قدر پُر اثر رہا ۔اگرچہ کئی ریاستوں میں ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے اور لوگوں کی جانیں تک گئیں لیکن تشدد کو کسی بھی حالت میں جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔اس سے پہلے اگر دلتوں کے ساتھ ہونے والے تشدد پر بھی سنجیدگی کے ساتھ دھیان دیا گیا ہوتا تو کم از کم جانی نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔ایک رپورٹ کے مطابق ہر اٹھارہ منٹ میں ایک دلت کے خلاف جرم ہوتا ہے ،اوسطاً ہرروز تین دلت خواتین عصمت دری کی شکار ہوتی ہے ، ۴۵؍فیصد غذائیت سے محروم ہیں اور ۴۵؍فیصد بچے غیر تعلیم یافتہ رہ جاتے ہیں،تقریباً ۴۵؍فیصد سرکاری اسکولوں میں دلت بچوں کو عام بچوں کی قطار سے علیٰحدہ بیٹھ کر کھانا پڑتا ہے۔ا سے بھی زیادہ افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ۴۸؍ فیصد گاؤ ںمیں دلتوں کو عام مقامات سے پانی لینے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ ایک سلسلہ ہے جو بہت عرصہ سے چلا آرہا ہے۔
گزشتہ کچھ دنوں سے اتر پردیش اور جومں کٹھوعہ میں آبرو ریزی کے واقعات نے ملک ہی نہیں بلکہ انسانیت کو بھی شرمسار کردیا ہے۔جموں میں آٹھ سالہ بکروال مسلم بچی کے ساتھ مندر میں دیوی کے سامنے عصمت دری ہوئی اور اسی دیوی کے سامنے ماری گئی ۔اس کی لاش سب کو دُکھی کر گئی ۔بھیڑ کٹھوعہ میں بھی بنی لیکن عصمت دری کی شکار مظلوم بچی کے لئے نہیں بلکہ زانیوں اور قاتلوں کی حمایت میں ۔ان کے لئے ترنگا لہرایا گیا ،جئے شری رام کے نعرے لگے اور بھارت ماتا کی جئے کی راگ الاپی گئی۔دوسری طرف اُترا کھنڈ میں عصمت دری کی جھوٹی کہانی بنائی گئی کہ ایک مسلم لڑکے نے ہندو لڑکی کی عصمت دری کی، دیکھتے ہی دیکھتے بھیڑ آگ بن گئی اورہزاروں دکانیں جلای دی گئیں کیونکہ دوکاندار مسلمان تھے۔جموں کشمیر اور انّاؤ میں بلات کاریوں کا معاملہ میڈیا میں بڑے زورشور سے سامنے آگیا تو وزیر اعظم نریندر مودی طویل عرصہ بعد اس معاملے پر خاموشی توڑکر کچھ باتیں کہیہ گئے ۔انہوں نے ہوا میں انصاف دلانے کی بات تو کہہ دی لیکن جو ان کے اختیار میں تھا وہ کام انہوں نے نہیں کیا۔انّاؤ آبروریزی کا قصوروار بی جے پی کا ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگر ہے۔اگر میڈیا بڑے پیمانے پر مہم نہیں چلاتی تو آج تک اس کی گرفتاری نہ ہوتی۔ تقاضا یہ بنتاتھا کہ کلدیپ سنگھ کو فوراً برخواست کیاجاتا لیکن وزیر اعظم اور یوگی آدتیہ ناتھ سمیت بی جے پی صدر امت شاہ نے بھی عصمت دری کے ملزم سینگر کواپنی پارٹی سے اب تک نکال باہر کیا اور نہ ہی معطل کیا۔اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عصمت دری جیسی گھناؤنی واردات سے بھارتیہ جنتا پارٹی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
موجودہ حکومت کو اقتدار میں آنے کے بعد یہاں کے حالات زیادہ خراب ہوئے ہیںاور اس میں بکاؤ میڈیا کا بڑا اہم رول ہے ۔اگر لوگوں کو حکومت کی ناکامی نظر بھی آرہی ہوتو یہ میڈیا کو نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ ان کا کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔صوبوں کو کامیاب بنانے کا ٹھیکہ مل رہا ہے اور یہ لوگ اسی میں خوش ہیں، ورنہ کیا وجہ ہے کہ گزشتہ چار سالوں میں اب تک مہنگائی کو ایک بار بھی اُجاگرنہیں کیا گیا؟گزشتہ چار سال میں ریلوے کرایہ سے لے کررسوئی گیس،پٹرول،ڈیزل، آٹا،چاول، دال، تیل،صابن،دودھ،دہی اور اس طرح کی تقریباً ہر چیز کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہواہے،لیکن اس پر اب ٹی وی چنل بحث ومباحثہ نہیں کراتیں ۔۲۰۱۴ء سے پہلے جب مرکز میں کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت تھی تو شاید ہی کوئی ایسا دن ایسا ہو جب مہنگائی پر ڈھول نہ بجایا گیا ہو اور ٹی وی بحث وتکرار نہ چلائی جاتی رہیں ہوں۔۳۷۰؍روپے کی رسوئی گیس آج ۷۵۰؍روپے ہو گئی ہے لیکن کیا کئی بول رہا ہے؟اسی طرح آج ڈیزل ۶۵؍روپے اور پٹرول ۸۰؍ روپے قیمت تک فی لیٹر پہنچ گیا ہے لیکن کسی بھی نیوزچینل پر یہ موضوعِ بحث نہیں ہے،جب کہ عالمی بازار میں خام تیل کی قیمت کم ہے۔طلاق ثلاثہ ، حلالہ ،تیسرامورچہ، کر کٹ، رام مندر،بابری مسجد،ہندو اور مسلم اور نہ جانے کن کن چیزوں پر فضول بحثیں کرائی جارہی ہیں لیکن مہنگائی پر قطعاً نہیں۔کسانوں کی خودکشی اور نوجوانوں کی بے روزگاری پر بات نہیں ہورہی ہے کیونکہ حکومت کی ناکامی کا پیمانہ اب بد انتظامی نہیں بلکہ انتخابات میں کامیابی اور ناکامی ہے۔
ہندوستان کو ایک مخصوص نظریہ کے لوگ جلانے اور جمہوری اقتدار کو دفن کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔بہار بنگال کے ساتھ مختلف صوبوں میں نفرت اپنی تمام حدوں سے نکل چکی ہے۔بہار پر نفرتوں کا سایہ کچھ زیادہ ہی گہرا ہوچکا ہے۔ معیشت تباہ ہوچکی ہے،ہندستان سے روزگار کے مواقع ختم ہوچکے ہیں،بنک دیوالیہ ہو چکے ہیں،مودی حکومت نے کروڑوں کروڑ کی دولت لوٹنے والے مالیہ اور نیرو مودی جیسے لوگوں کو فرار ہونے کا آسان راستہ مہیا کرایا۔ سپریم کورٹ کے چار جج انصاف کا قتل ہوتے دیکھ کر آگے بڑھے اور ایک حد تک اپنی ذمہ داریوں کا پالن کیا مگر سب بے کار۔یہ ہمارا ملک ہے جہاں کھلے عام الیکشن کمیشنرمرکزی حکومت کی حمایت میں اپنے عہدے اور منصب کو داغ دار کرتا ہے ۔کرناٹک اسمبلی انتخابات کے موقع پر تاریخ کے انکشاف کے معاملہ نے الیکشن کمشنر کو پوری طرح ننگا کردیا۔اس ملک میںان دنوں سب کچھ بک چکا ہے۔یرقانی میڈیا ہندو اور مسلمانوں کے درمیان گہری خلیج پیدا کررہا ہے اور انصاف کے مجسمے سوئے پڑے ہیں۔رام نومی کے موقع پر اگررام ہوتے تو ان کے بھی آنسو نکل آتے ۔فسطائی طاقتیں پورے ملک کو رام کا نام لے کر اسے بنانے کے بجائے جلانے کی کوشش کررہی ہیں۔ملک کی سلامتی خطرے میں ہے،آدھا خطرہ آدھار کارڈ نے پیدا کیا ہے ۔انصاف کی عمارتوں پر زعفرانی پرچم لہرایا جاچکا ہے۔امبیڈکر کی مورتی اورگاندھی کے مجسمے کو علامتی طورپر توڑا جا چکا ہے۔بچوں کی تعلیم سے کھیلا جا رہا ہے۔مرکزی حکومت تعلیم میں بجٹ کو کم کرچکی ہے۔ہندو کے رکشک کھلے عام اپنی جارحیت کا ننگا ناچ اس لئے دکھا رہے ہیں کہ ان کی سرپرستی مرکزی حکومت اور آرایس ایس کررہی ہے۔موجودہ حالات میں حکومت کی خاموشی ہندوستان کی یکجہتی کے لئے سب سے بڑا نقصان ہے۔ان دنوں عورتیں بلکہ معصوم بچیاں تک خود کو محفوظ محسوس نہیں کررہی ہیں ،جبکہ حکومت کا نعرہ ہے ’’بیٹی بچاؤ،بیٹی پڑھاؤ‘‘۔موجودہ پُر آشوب حالات میں سرکار بیٹیوں کی عزت وآبرو بچا ئے رکھنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرے۔حکومت کی تمام تر غیر جمہوری حرکتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ابھی حال کی یہ خبر بھی غور طلب ہے کہ مجاز عدالت نے حیرت انگیز فیصلہ سناتے ہوئے مکہ مسجد بم دھماکہ کے سبھی ملزمین کو بیک جنبش قلم بری کردیا ۔ اب جس سرعت کے ساتھ تفتیشی ایجنسیوں پر حکومتی و سیاسی اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے، اس سے واضح ہو تا ہے کہ حکام سے انصاف کی امید نہیں کی جا سکتی اور دہشت گردی کے بہانے کسی بھی اقلیت کو نشانہ بنایا جا سکتا کیوںکہ مرکزی جانچ ایجنسیاں برسر اقتدار پارٹی کے سیاسی موقف اور موڈ کے مطابق ہی کام کرتی ہیں۔ایسی گھمبیرصورت حال میں جمہوری آداب ، آئینی حقوق اور انصاف کی بھلا کیسے توقع کی جا سکتی ہے؟
………………………………….
نوٹ :مضمون نگار جنرل سکریٹری المعین فاؤنڈیشن، ویشالی ہیں
6 991179278,[email protected]