اپوزیشن کا وزیر اعلیٰ کی تقریر کا بائیکاٹ

  جموں//وزیر اعلیٰ کی جانب سے شہری ہلاکتوں پر ایوان میں بیان نہ دئیے جانے پر اپوزیشن نے عمر عبداللہ کی قیادت میں وزیر اعلیٰ کی گورنر کے خطبہ پر تقریر سے بائیکاٹ کرتے ہوئے اسمبلی سے باہر کی راہ لی ۔قانون ساز اسمبلی میں بدھ کو شہری ہلاکتوں پر ہوئے ہنگامہ کے بعد پارلیمانی امور کے وزیر عبدالرحمان ویری کے جواب سے مطمئن نہ ہو کر عمر عبدللہ اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ جو ہمیں ہلاکتوں پر ویری صاحب سے سننا پڑا وہ وزیر اعلیٰ سے سنتا چاہتے تھا ۔ہمیں ان واقعات پر وزیر اعلیٰ کے بیان اخبارات میں پڑھنے کو ملتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کو اس وقت ایوان میں موجود ہونا چاہئے تھااور اگر وہ ایوان میں موجود رہ کر شہری ہلاکتوں پر ہمدردی کے دو لفظ بیان کرتی تو اچھا تھا لیکن وہ یہاں نہیں ہیں اور نہ ہی شہری ہلاکتوں پر کوئی بات ایوان میں کرتی ہیں جبکہ وہ یونیفائڈ کمانڈ کی  خود چیئرمین ہیں اور خود ہوم منسٹر ہیں۔ اس وقت ایوان چل رہا ہے، انہیں جو بات کرنی ہے ،یہاں کرنی چاہئے، اچھا ہوتا کہ ہمدردی کے دو الفاظ ہم اُن سے سنتے ،اب وہ آئیں گی، گورنر کے خطبہ پر ممبران کی تقریروں کا جواب دیں گی، اب ہم اُن کی اس تقریر کو سننے کیلئے تیار نہیں ہیں جس کے بعد انہوں نے اُن کی تقریر سے بائیکاٹ کیا ۔اس دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمر نے کہا کہ ریاست جموں وکشمیر میں حالات انتہائی خراب ہوئے ہیں اور سرکار شہری ہلاکتوں پر بات کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر سرکار کو یہ لگتا ہے کہ شہری ہلاکتیں اپوزیشن کے پاس کوئی مدعا نہیں ہے تو سرکار کو کرسی پر بیٹھے کا کوئی حق نہیں ہے ۔میری حکومت کے دوران بھی صورتحال خراب تھی لیکن میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ مدعانہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سال کا صرف دوسرا ہفتہ چل رہا ہے اور آپ خود اندازہ لگائیں کہ کتنے عام شہری مر گئے ہیں، کتنے سیکورٹی فورسز کے بہادر جوان مارے جا چکے ہیں اور اگر ان سب کے باوجود بھی آپ کو لگتا ہے کہ اپوزیشن کے پاس کوئی مدعا نہیں ہے تو پھر ہم میں ہی کوئی کوتاہی ہے، ہم سمجھ نہیں پاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کل جس شہری کو ہلاک کیا گیا اُس کے پاس تو کوئی بندوق نہیں تھی جبکہ سرکار نے خود یہ مانا ہے کہ وہ بے گناہ تھا اور اُس کی گردن میں گولی لگی ہے اور جو زخمی ہوا ہے اُس کے کندھے پر گولی لگی ہے ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اُن کے چہروں کو نشانہ بنارہے ہو اگر وہ ملی ٹنٹ ہوتا  تومیں مانتا کہ وہ مر گیا ،لیکن حکومت نے یہ بھی نہیں کہا کہ وہ ملی ٹنٹ تھا جبکہ حکومت نے بھی خود کہا ہے کہ وہ بے گناہ تھا ۔حالات میں سدھار آنے کے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمر نے کہا کہ وہ سب دیکھ رہے ہیں کہ حالات میں کتنی بہتری آئی ہے ہمیں تو حالات میں کوئی بھی سدھار نظر نہیں آتا کیونکہ اس سال کا ابھی دوسرا ہفتہ ہی چل رہا ہے، 8کے قریب سیکورٹی فورسز کے اہلکارمارے گئے ہیں بے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔