اپنے موقف پر قائم ہیں ڈاکٹر گگن بھگت

جموں//ممبر اسمبلی آر ایس پورہ گگن بھگت نے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 35- اےکے بارے میں دیا گیا بیان ذاتی ہے میں پارٹی کا ترجمان نہیں ہوں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کا باشندہ ہو ں اور اپنے لوگوں کو سیاہ اور سفید میں تمیز کرنے کی بھر کوشش کر رہا ہوں ۔ڈاکٹر گگن بھگت نے آرٹیکل 35-اے کے بارے میں دئیے گئے اپنے بیان پر ڈٹے رہنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں پارٹی کا کوئی سینئر لیڈر یا ترجمان نہیں ہوں میں آنے والی نسل اور موجودہ لوگوں کو ان خوفناک واقعات کے بارے میں آگاہ کرناچاہتا ہوں جو آرٹیکل 35-Aکے منسوخ ہونے سے پیش آسکتے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ ریاست میں غربت اور افلاس کی وجہ سے جموں کے لوگوں کو آرٹیکل 35-Aکے بارے میں زیادہ علمیت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اگر میں بھی اپنی زبان بند رکھو اور انہیں آنے والے خوفناک واقعات کے بارے میں آگاہ نہ کروں تو آنے والی نسل ہمیں کیسے معاف کریگی ۔ ڈاکٹر گگن بھگت نے خبر رساں ایجنسی اے پی آئی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 35-Aکے منسوخ ہونے سے سب سے زیادہ نقصان جموں کا ہو گا ،کوئی بھی بیرونی تاجر یا بڑی کمپنی کا مالک بندوقوں کے سائے میں کشمیر جانے کی جرت نہیں کریگا بلکہ جموں میں ڈھیرہ جما کر یہاں کے ڈوگرہ کلچر کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ دیں گے ۔ ڈاکٹر بھگت نے کہا کہ ڈوگرہ کلچر کو فروغ دینے کا دعویٰ کرنے والوں کو اس حقیقت کی علمیت نہیںکہ آرٹیکل 35-Aکے منسوخ ہونے سے جموں اور کشمیر میں گجراتی ،مراٹھی ،بہاری کلچر پنپے گا اور ریاست کی وحدت ، انفرادیت ،اجتماعیت پارہ پارہ ہو کر رہے گی ۔ آرٹیکل 35-Aکو ریاست کے لوگوں کیلئے بلٹ پروف قرار دیتے ہوئے انہوںنے کہا کہ میرے بیان کو غلط قرار دینے والے یہ کیوں نہیں کہ رہے ہیں کہ وہ دہری سیاست اپنا رہے ہیں ،وہ اپنے لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیوں نہیں کرتے ہیں کہ آرٹیکل 35-Aکے منسوخ ہونے سے امبھانی ،ٹاٹا اور دوسری ملٹی کمپنیوں کے مالکان ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کو روزگار نہیں دیں گے بلکہ بھارت کی مختلف ریاستوں سے لوگ لا کر یہاں آباد کر دیں گے جسے ریاست میں بیروزگاری بڑھ جائیگی اور ریاست کے لوگ بھکاری بن کر رہ جائیں گے ۔ انہوںنے کہا کہ ڈوگرو کی لڑائی وادی کے لوگ لڑ رہے ہیں اور میںوادی کے لوگوں کو حق کی لڑائی لڑنے پر سلام پیش کرتا ہوں ۔انہوںنے کہا کہ اگر آرٹیکل 35-Aکو منسوخ ہی کرنا ہے تو سپریم کورٹ آف انڈیا کے بجائے یہ اختیار ریاستی اسمبلی کو ہونا چاہیے ۔