آیئے۔قدرت سے رشتہ جوڑیں!

سید مصطفیٰ احمد
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہےاور انسان کے لئے اس وسیع کائنات کو مسخربنا کے رکھ دیا ہے۔ پیڑ، پودے، جانور، معدنیات، ہوا، سورج، پانی، وغیرہ انسان کی بقا اور ترقی کے لئے ہی تو ہیں۔ ہاں! اس میں انسان کا امتحان بھی پنہاں ہے۔ جب انسان اپنے ماحول کی طرف نظر دوڑاتا ہے، تو اسے ہر طرف توازن دکھائی دیتا ہے۔مگر ہر کوئی چیز اس کائنات میں اپنے اندر محاضرات کےانبار چھپائے بیٹھی ہے۔جس سے وہ بے خبر ہے۔بَس! انسان کو صرف آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے۔ 

       بغور دیکھا جائے تو آج کا انسان اباحتی بن گیا ہے، صرف کمانے اور خرچ کرنے میں ہی مصروف دکھائی دیتا ہےاور اس نے اب قدرت کو بھی مادیت کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا ہے۔ Capitalism کی دوڑ نے انسان کو گویامنافع کا پجاری بنا دیا۔ ہر سطح پر اور ہر معاملے میںانسان کمانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے، اس کی وقعت محض ایک آلہ (شئے )بن کر رہ گئ ہے۔ کچھ دنوں پہلے sociology میں ،میں ایک مضمون پڑھنے کا موقع ملا۔ اس میں یہ بات چھوٹے موٹے الفاظ میں ایسے بیان کی گئی ہے کہ کائنات کی ہر کوئی چیز اب منافع کی نذرہوگئ ہے اورانسان کو اس مرحلہ تک پہنچنے میں بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہے۔ 

      پہلا ہے دین بیزاری۔ ظاہر ہے کہ جب انسان اباحتی بن جاتا ہے تو وہ دین کو بھی تجارت کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کردیتا ہے۔ اُس کو آفاقی اصولوں کا سودا کرنے میں ہی سکون میسر آتا ہے۔ جیسے عبدالاحد آزاد اپنی ایک نظم میں لکھتے ہیں کہ انسان نے مذہب کو کاروبار کے لئے استعمال کیا ہے۔ انسان کو لگتا ہے کہ کچھ مخصوص اعمال کا نام دین ہےاور اُن پر بنا سوچے سمجھے عمل کرنا ہی دین کا اصل مقصد ہے۔ اس اباحتی فکر کی وجہ سے اَب وہ اُن چیزوں میں آرام ڈھونڈنے لگا ہے، جس میں سکون کا کوئی بھی عنصر چھپا ہوا نہیں ہے۔ دوسرا ہے مال کی ہوس۔ اس مال کی ہوس نے انسان کو قدرت سے کٹنے(دور ہونے) پر مجبور کر دیا ہے۔ ہر چیز کو اپنی ملکیت سمجھنا، آج کے انسان کا بنیادی مقصد بن چکا ہے۔ پہاڑ، دریا، جنگلات، وغیرہ ساری چیزیں اب صرف مالی منفعت کے اغراض بنے ہوئے ہیں۔ سورج کا چڑھنا اور ڈوبنا آج کے انسان کے لئے کوئی بھی اہمیت نہیں رکھتاہے۔ دن اور رات کا آنا جانا اب انسان کے لئے بے معنیٰ ساہوکر رہ گیا ہے۔ تیسرا ہے دوسروں کی نقالی۔ آج کے اس جدید دور کا تقریباً ہر انسان ایک دوسرے کی نقالی کی دوڑ میں نامعلوم سفر میںرواں دواں ہے، یعنی بنیادی مقصد یہی رہ گیا ہے کہ جس طرح ہو اور جیسے بھی ہو، جتنا کمایا جائے اُتنا ہی بہترہے۔ اس کے بغیر انسان کے لئے جیسےاور کوئی مصروفیت اور مشغلہ رہا ہی نہیں ہے۔ حالانکہ حق تو یہ ہے کہ انسان کے وجود کامقصد کچھ اور ہے، مال و دولت ،جائداد یہاں تک کہ اولاد بھی انسان کے لئےبحیثیت  ایک آزمائش و امتحان ہیںاور ان سے مرغوب ہونا انسان کے لئے کوئی دانائی نہیں ہے۔ چوتھا ہے لاپرواہی اور تغافل۔ ہم جہاںاس اِباحیت میں اپنے آپ سےبے فکر ہوچکے ہیں وہاںالاہیت سے بھی غافل ہوگئے ہیں،جس کے نتیجے میںیہ وسیع و عریض کائنات ہمیں بے معنی دکھائی دے رہی ہے۔گویا ہم اپنی بنائی ہوئی کھوکھلی دنیا میں اتنے مگن ہوچکے ہیں کہ ہمارے لئے اس سے باہر آنے کی سوچ بھی چھِن گئی ہے۔ جس کا براہ راست اثر اِس شکل میںنمایاں ہورہا ہے کہ آج کاانسان اپنے اصل خالق و مالک سے بہت دور چلا گیا ہےگویااس کارشتہ نہ صرف قدرت سے کٹ چکا ہے بلکہ اس کے لئے باہمی رشتہ اب ماضی کی بات بن چکی ہے۔ اور اسی لئے اب اپنی بنائی ہوئی دنیا میں مضطرب اور پریشان حال ہے،حالانکہ اس ساری صورت حال کا علاج محض اس بات میں پنہاں ہے کہ ہم پھر سے قدرت سے جُڑ جائیں اور انسان ہونے کے بنیادی مقصد کو پاسکیں، اس کے سوا کوئی اور چارۂ کار بھی نہیں ہے۔ قدرت کی رنگینیوں سے اسباق لے کر ہمیں وہ دنیا تعمیر کرنی ہوگی، جہاں ہر سطح پر انسان کا کردار بن سکے۔ اس کے اندر وہ خصائل جنم لیں، جو زندگی میں آرام و سکون کا گہوارہ بنیں۔ تو آیئے، اس ماہِ مبارک کے مقدس ایام میں قدرت سے جُڑنے کی  ہر ممکن کوشش کریں، اِسی سے نہ صرف دنیا کے بہت سارے مسائل حل ہوں گے بلکہ ہماری دنیوی زندگی سج جائے گی اور اُخروی زندگی بھی سنور جائے گی ۔ 

(مدرس: حسینی پبلک اسکول خوشی پورہ، ایچ ایم ٹی، سرینگر )

(رابطہ۔7889346763)