آہ ! ڈاکٹر حنیف ترین

4   دسمبر 2020 کی صبح کو میں چائے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ نور شاہ صاحب کا فون آیا اور کہا کہ ’’حنیف ترین کا انتفال ہوگیا ہے‘‘ ۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ آج کے کشمیر عظمیٰ میں ان کاپنجاب کے کسانوں پر ایک مفصل مضمون شائع ہوا ہے۔شاہ صاحب کہنے لگے اسی مضمون پر ان کو مبارکبادی پیش کرنے کے لئے جب میںنے ان کے نمبر پر فون کیا تووہاں سے کسی نے رسیو کرکے یہ اندوہناک خبر سنائی کہ ڈاکٹر صاحب اس دنیا میں نہیںرہے۔میں نے اناللہ ونا الیہ راجعون پڑھ کر کچھ تفصیل جانے کی کوشش کی تو رابطہ منقطع ہو گیا۔ شاہ صاحب کی یہ خبر سن کر میں نے فون رکھ دیا۔ زندگی اور موت کی کشمکش ازل سے ہی جاری ہے ۔جس کا اعتراف خود مرحوم حنیف ترین نے اپنی شاعری میں کیا ۔بقول حنیف ترین   ؎
اب ساتھ میرا ہاتھ ،مری بات چھوڑئے
ناراضگی بھرے یہ سوالات چھوڑئے
کانٹوں کی طرح پھول بھی آزارد یں اگر
صحرا میں چل کے رہئے یہ باغات چھوڑئے
کوشش کے باوجود نہ سلجھیں جب الجھنیں
پھر وقت کے ہی ہاتھ میں حالات چھوڑئے
سوچ آپکی جدا ہے مری فکر مختلف
میرا نہ کیجئے ذکر میری بات چھوڑئے
اس خبر کی تصدیق کے لئے جب میں نے سوشل میڈیا کی اور رخ کیا تو سب سے پہلے ماہنامہ تریا ق کے مدیر حنیف قمرنے فیس بک پرپوسٹ اپ لوڈ کی تھی کہ اردو زبان وادب کے معروف شاعر ڈاکٹر حنیف ترین انتفال کرگئے اور نمازہ جنازہ 3بجے  سرینگر کے راولپورہ علاقے میں ادا کیا جائے گا جہاں مرحوم حنیف ترین کئی برسوں سے مقیم تھے۔ میں نے استاد محترم اشرف عادل کو یہ اطلاع دی کہ مرحوم حنیف صاحب انتفال کر گئے ہیں ۔وہ بھی یہ منحوس خبر سن کر چونک گئے۔دہلی ہی میں نہیں کشمیر میں بھی حنیف ترین کے حقیقی دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا جن میں اشرف عادل سر فہرست ہیں۔ہم نے مشورہ کیا کہ ہم ضرور مرحوم کے جنازے میں شرکت کریں گے۔گھر سے دو بجے نکل کر ہم اڈھائی بجے ان کے گھر پر پہنچ گئے ۔ان کے گھر کے صحن میں دو اشخاض کرسیوں پر بیٹھے تھیں، میں ان سے پوچھا کہ جنازہ کب ادا کیے جائے گا؟ تو ان  میں ایک نے کہا چار بجے۔اس کے بعد تھوڑے دیر کے لئے ہم ان کے یہاں بیٹھ گئے ۔میں نے جب ان کے یہاں آس پاس کا جائزہ لیا توایک بھی اردو دان میری نظروں سے نہیں گزرا،نہ ہی یہاں کا کوئی ادیب اورشاعر ۔ ساڑے چار بچے تک ہم ان کے جنازے کا انتظار کر رہے تھیں لیکن کہیں سے کسی بھی تجہیز وتکفین کاکوئی وسیلہ نظر نہیں آیا اور ہم بنا جنازہ ادا کرکے اداس اور نمناک گھر کی اور واپس لوٹ گئے۔جبکہ سوشل میڈیا تعزیت ناموں سے لبریز تھا اور حقیقت کچھ اور ۔(افسوس صد افسوس)
 ڈاکٹر حنیف ترین ؔگوناگو اوصاف کے مالک تھے۔آپ سائنس کے طالب علم تھے۔اس کے باوجود ان کا شعر وادب کی طرف مائل ہونا حیرت ناک ہے اور اس سے بھی زیادہ حیرت ناک بات یہ ہے کہ انہیں فارسی،عربی اور اردو زبان کی دانائی حاصل تھی۔
آپ ایک ذی علم ،ذی شعور ،ذی وقار اور ذی آبروانسان تھے۔ان کے علم میں وسعت اور مشاہدے میں گہرائی و گیرائی تھی ۔ان کے شعری دبستان کا کینوس بہت وسیع تھا۔اسی تخلیقی وسعت نے ان کی تخلیقی بصیرتوں کو وسعت اور گہرائی بخشی تھی ۔اچھا ادب پڑھتے تھے،اچھا ادب تخلیق کرتے تھے اور اچھے ادب کی خدمت کرتے تھے۔مرکزی عالمی اردو مجلس نئی دہلی کے صدر تھے۔اس اردو مجلس کا آغاز بھی مرحوم کے ہاتھوں سے ہی ہوا ہے۔اس اردو مجلس کا مقصد یہی ہے کہ اردو زبان و ادب کی آبیاری کر کے اردو زبان کے گلستان کو زینت بخشی جائے۔اس سلسلے میں یہ عالمی اردو مجلس ہر سال ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں ادبی نشستوں کا اہتمام کرتی ہے ۔مرکزی عالمی اردو مجلس کی نشستوں کو یاد کرتا ہوں تو ان کی بہت سی کھٹی میٹھی باتیں یاد آنے لگیں۔اگست 2018 کی بات ہے میں کسی کام سے یونیورسٹی گیا تو استاد محترم اشرف عادل نے مجھے فون کر کے یہ اطلاع دی کہ کام مکمل کرنے کے بعد میرے کمرے میں آنا، چناچہ اشرف عادل صاحب کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ امتحانات میں ملازم ہیں۔کام سے فارغ ہو کرجب میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو میں نے ایک ایسے شخص کو اشرف صاحب کے قریب کرسی پر بیٹھ کر دیکھا جس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی ،لباس اور وضع قطع میں نفاست پسندی تھی ،ناک پر عینک اور کندھے پر بیگ لٹکا ہوا تھا۔میں نے دھمیی آواز میں اشرف صاحب سے پوچھا یہ کون؟اشرف صاحب کا جواب’’یہ اردو دنیا کے ایک معروف شاعر ’’حنیف ترین‘‘ہیں‘‘۔باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ مرکزی عالمی اردو مجلس نئی دہلی کو یہاں ایک اعزازی نشست کا اہتمام کرنا ہے، اس لئے یہ کشمیر یونیورسٹی کے وائس جانسلر پروفسیر طلعت سے ملنے آئے تھے۔اس کے بعد مرحوم حنیف ترین نے مجھے اپنا فون نمبر دینے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کا پتہ بھی دے دیا نیز گھر آنے کی دعوت بھی دے دی تاکہ نشست کے حوالے سے بات ہوجائے۔
 24اگست 2108کو میں اور میرے دوست عارض ارشاد گھر سے دن کے چار بجے نکلے اور پانچ بچے کے قریب ان کے دولت حانہ (راولپورہ مجبوب لین)پہنچ گئے۔مرحوم حنیف صاحب نے بڑی گرم خوشی سے استقبال کیا ،تھوڑی دیر تشریف رکھنے کے بعد چائے سامنے آگئی اور چائے کی چسکیاں لینے کے ساتھ ساتھ مرحوم حنیف صاحب کی ادبی زندگی سے بھی روشناس ہو تے جارہے تھے ۔اس کے بعد اعزازی نشست کا فارمیٹ ترتیب دیا گیا ۔مرکزی عالمی اردو مجلس نئی دہلی نے اس سال (2018 )کشمیر کی دو معزز ادبی شخصیات کو انعام کے لئے منتخب کیا تھا ۔ ایک محمد یوسف ٹینگ اور ایک فاروق نازکی۔ اس نشست کے مہمان خصوصی کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طلعت مقرر ہوئے جبکہ صدارت میں جناب وحشی سعید براجمان کرنے کا فیصلہ ہوا۔مہمان خصوصی اول محمد یوسف ٹینگ اور مہمان خصوصی دوم فاروق نازکی طے پائے۔مہمان اعزازی کے فرائض مرحرم حنیف ترین کی اہلیہ ڈاکٹر شمیم اختر کے سپرد کرنے جبکہ نظامت کے فرائض نوجوان شاعر میرے دوست عارض ارشاد کو دینے کی بات ہوئی۔یہ کام مکمل کرنے کے بعد دستر خوان بچھایا گیا اور مرحوم حنیف ترین نے ہمیں کھانا کھانے کے بغیر جانے نہیں دیا۔کھانے میں مختلف پکوان شامل تھے۔اس کے بعد مغرب کی نماز ان کے دولت خانے پر ہی ادا کی جس کی امامت دوست عارض ارشاد نے کی ۔نماز ادا کرنے کے بعد مرحوم حنیف صاحب نے ہمیں اپنی شاعری سے محظوظ کیا۔ آپ بھی چند شعر ملاحظہ فرمائیں؎
سروں  کے  لہجے کی  رنگت بدل گئی ہوگی
وہ جب بھی گیت کے لفظوں میں ڈھل گئی ہوگی
لپٹ  کے خوف  سے کیورں رو ررہا ہے سناٹا
لبوں  سے چیخ  کس  کی  نکل گئی  ہوگی
گھٹن حنیف  کو دے کر وہ  سبز خوابوں  کی 
خود  احتساب  کی بھٹی  میں  جل گئی ہوگی
اندھیرے کی سرخی آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی اور ہم نے مرحوم حنیف صاحب سے جانے کی اجازت طلب کی ۔مرحوم نے اپنے آٹھ شعری مجموعے مجھے اور میرے دوست کودستخط کے ساتھ تحفتاً پیش کئے۔ پھر اس کے بعد ہم نے گھر کی راہ لی۔مرحوم حنیف صاحب کا یہ رویہ بڑی شفقت اور محبت کا غماز تھا۔ان کی نرم طبعیت اور خوش مزاجی نے مجھ میں گویا سرشاری کی کیفیت بھردی۔آخرکار ادب کا یہ سپاہی ۴دسمبر
 کواس جہاں فانی سے کوچ کر گیاور اپنے چاہنے والوں کو یادوں کا ایک قیمتی خزانہ دے کر تاعمر ان کے دلوں میں گھر کر گیا۔اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین۔یادیں اور باتیں بہت سی ہیں۔بقول حنیف ترین    ؎
جو گر کے اٹھتے رہیں، ان کا ہارنا مشکل
جو سر سے باندھیں کفن، ان کو مارنا مشکل
 بکھر گیا  جو غم روز  و شب کی رہوں میں
اسے  حیات کی زلفیں  سنوار نا  مشکل
رابطہ۔ رعناواری سرینگر،910365455