سرینگر// وادی میں ہلاکتوں کے چکر کو روکنے کیلئے مشترکہ پلیٹ فارم سوشو اکنامک کارڈی نیشن کمیٹی نے آپریشن آل آوٹ کو کشمیری آبادی کے خلاف جنگ قرار دیا۔پروفیسر حمیدہ نعیم نے بین الاقومی بشری حقوق علمبرداروں تنظیموں اور سفارتخانوں کو یاداشت پیش کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مقامی و قومی بشری حقوق کمیشن کے علاوہ بھارت کی سیول سوسائٹی کشمیر میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔سرینگر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سوشو اکنامک کارڈی نیشن کمیٹی کی متحرک رکن پروفیسر حمیدہ نعیم نے کہا کہ حکومت کی طرف سے تلاشیوں اور محاصروں کے آپریشن کو کشمیری آبادی کے خلاف ’’اضافی انتقام گیری‘‘ کے ساتھ پھر بحال کیا گیا،جس کا مقصد نہ صرف انہیں اپنے جائز حقوق پر آواز بلند کرنے،بلکہ انہیں مکمل طور پر خاموش کرنے کا ہے۔حمیدہ نعیم نے کہا’’ کشمیر میں نسل پرستی کا یہ آپریشن اسی جواز سے چلایا جا رہا ہے،جس طرح زہریلے کیڑے مکوڈوں کو مارا جاتا ہے‘‘۔ انہوں نے آپریشن آل اوٹ کو کشمیریوں کے خلاف جنگ قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ان آپریشنوں کے دوران محاصرہ زدہ علاقوں میں لوگوں کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے،اور انسانی حقوق پاسداری کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہے۔ پروفیسر حمیدہ نعیم کا کہنا تھا کہ بندوق برداروں اورعام شہریوں میں پہلے لکیر کھنچنی چاہیئے تھی،تاہم انہوں نے کہا کہ کشمیر میں جنگی اصولوں اور قواعد کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے،اور ہر ایک انسانی حقوق کی پامالی کو افسپا کا لبادہ اوڈہ جاتا ہیں۔انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ فورسز کو کسی بھی کو مارنے کی لائسنس دی گئی ہے۔پروفیسر حمیدہ نعیم نے کہا کہ جن لوگوں نے بندوق اٹھائی ہیں،انہیں اس کا استعمال کرنا بھی نہیں آتا بلکہ’’ ان پر جب سرکاری فورسز نے عتاب کیا اور انہیں ذلیل کیا گیا تو وہ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوگئے‘‘۔حمیدہ نعیم نے تاہم کہا ’’ قواعد کے تحت بھی جنگجوئوں کو مارنا نہیں بلکہ انہیں گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے،تاہم ایسا نہیں ہوریا ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ فورسز کو جب کسی جگہ کسی بندوق بردار کی خبر ملتی ہیں تو وہ وہ اس جگہ پر ٹوٹ پڑتے ہیں،جبکہ نوعمر بندوق بردار کے ہاتھوں میں بندوق بھی نہیں ہوتا اور وہ نیند میں ہوتے ہیں،اور فوری طور پر مکان کو اڈایا جاتا ہیں جبکہ وہ کنبہ بھی اپنی رہائش گاہ سے محروم ہوتا ہے۔پروفیسر حمیدہ کا کہنا تھا کہ یہ سوالات ان کیلئے کوئی بھی معنی نہیں رکھتے بلکہ’’انہیں تمغوں اور انعامات‘‘ سے سروکار ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ2خواتین سمیت16 ذہنی مریضوں کو بھی ہلاک کیا گیا،اور اب اعداد شمار جمع کرنا بھی اس قدر مشکل ہو رہا ہے،کیونکہ ہر روز ہلاکتیں ہو رہی ہے،اور ہلاکتوں کا یہ نہ تھمنے والا چکر جاری ہے۔ پروفیسر حمیدہ نے کہا کہ گزشتہ2برسوں سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے،اور سینکڑوں نوجوانوں کو جہاں بینائی سے محروم کیا گیا وہی انہیں عتاب کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اقوام متحدہ کے بشری حقوق کمیشن کی طرف سے امسال جون میں پیش کی گئی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی بشری حقوق تنظیموں اور ملکوں کیلئے یہ معقول وقت ہے کہ وہ بیدار ہو اور کشمیری میں ہو رہی انسانی حقوق کی مبینہ ماپالیوں کو بند کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ڈاکٹر حمیدہ نے اس دوران قومی اور ریاستی انسانی حقوق کمیشن کو نشانہ بناتے ہوئے’’بغیر دانتوں‘‘ کے شیر قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ اگر چہ بشری حقوق کا ریاستی کمیشن کرنے کی چاہ بھی رکھتا ہین،تاہم ان کے ہاتھوں کو باندھا گیا۔ حمیدہ نعیم نے بیرون ریاست سیول سوسائٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بیشتر سیول سوسائٹی ممبران نے خاموشی کا اظہار کیا ہے،اور کسی جگہ وہ کشمیریوں کے مخالف ہی ہوگئے،تاہم انہوں نے واضح کیا کہ تمام سئیول سوسائٹی ممبران کو ایک ہی ترازوں میں تولا نہیں جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کے خلاف نہ صرف بندوق سے جنگ چھیڑ دی گئی ہے،بلکہ اقتصادی جنگ بھی چھڑ دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاسی مفادات پر مبنی تعلیمی پالیسی کو بھی مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،جبکہ جموں کشمیر بنک کو نشانہ بنانا تازہ واقعہ ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے اپیل کی کہ وہ بھارت کو کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے پر دبائو ڈالے اور اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی برسوں سے کشمیر میں تجارت میں بھی کافی کمی واقع پیس آئی۔پریس کانفرنس میں ظہور احمد ترمبو، ڈاکٹر جاوید اقبال،عبدالمجید زرگر،شکیل قلندر، بشیر احمد راتھر،روف قریشی، عبدالرشید ٹچو،غلام جیلانی پرزہ،روف ترمبو کے علاوہ سوشو اکنامک فورم کے کنونئر سراج احمد سراج بھی موجود تھے۔