یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھِٹکار سرمایہ اْن کا
جہاں بھر کی دْھتکار اْن کی کمائی
(فیض احمد فیضؔ)
برصغیر کے نامور انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’ کْتّے ‘ پچاس برس قبل لکھی گئی تھی۔ آج جب ہم اس نظم کے پہلے ہی دو اشعار کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو لگتا ہے کشمیر کی ہر گلی، ہربستی اور ہر نْکڑ پر رال ٹپکاتے کْتّے جیسے اس کلام کا مذاق اْڑاتے ہوں۔ کیوں کہ اب وہ پھِٹکارے یا دْھتکارے نہیں جاتے ، بلکہ اْنہیں انسانوں کے قتل عام کا قانونی لائسنس مل چکا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2008 سے 2012 تک کشمیر کے دس اضلاع میں 53925 افراد کو کْتوں نے نوچ ڈالا، ان میں بیشتر خواتین اور بچے تھے۔ متعدد موت کے مْنہ میں چلے گئے اور جو بچ گئے وہ درجنوں انجکشن لگوانے کے باوجود کسی نہ کسی طرح کے عارضے میں مبتلا ہوگئے۔
چند سال کی بات ہے کہ خانقاہِ معلی کے قریب ایک کم سن بچا کْتوں سے جان چھڑانے کے لئے جہلم میں کْود پڑا اور کئی روز کی تلاش کے بعد اْس کی لاش دریا سے نکالی گئی۔ ایک اور لڑکا مدثر احمد وانگنو گھر سے نکلتے ہی خونخوار کْتوں کے چْنگل میں پھنس گیا اور دو درجن کتوں نے اْس کے جسم کو 125 مرتبہ نوچ ڈالا، یہاں تک کہ اْس کا جگر اور دل بھی مجروح ہوگیا۔ ڈاکٹروں کی ان تھک کوششوں سے لڑکا بچ گیا مگر عمر بھر کے لئے مختلف عارضوں میں مبتلا ہے۔
پوری دْنیا میں ہرسال کتوں کے کاٹنے سے 60 ہزار اموات ہوتی ہیں، جن میں سے 20ہزار صرف بھارت میں مرتے ہیں۔ مطلب پوری دْنیا میں آوارہ کتوں سے ہر سال مرنے والوں کی تعداد کا 33 فی صد انڈیا میں ہوتا ہے۔ لیکن انڈیا کی ہی بات کریں تو کْتوں سے نوچے گئے افراد میں سب سے زیادہ اموات کشمیر میں ہوتی ہیں۔ سرکاری شمار کے مطابق صرف سرینگر شہر میں پچاس ہزار کْتّے ہیں ، تاہم بعض معتبر غیرسرکاری اداروں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔
پہلے بھی آوارہ کتوں کی وجہ سے لوگ زخمی ہوتے تھے، لیکن اب نہایت گھمبیر صورتحال ہے کیوں کہ چند سال قبل حکومت ہند نے جانوروں کے قتل کی حْرمت کا قانون منظور کرکے اْن کی نس بندی کرنے کا اعلان کیا۔ نس بندی تو نہیں ہوئی، البتہ جانوروں کے احترام کی قیمت انسانی جانوں کے اتلاف کی صورت میں چْکانا پڑ رہی ہے۔
2012 میں جب پانی سر کے اوپر سے بہنے لگا تو سرینگر میونسپل کارپوریشن نے شہر میں سبھی ایک لاکھ کتوں کو زہر دے کر مارنے کا اعلان کیا۔ زہر کی گولیاں منگوانے کے لئے باقاعدہ آرڈر بھی دیا گیا، لیکن کارپوریشن پر اوپر سے کوڈا برسا تو شوہامہ میں قائم کْتّوں کے ہسپتال میں کْتّوں کی نس بندی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ میں نے شوہامہ کا دورہ بھی کیا ، جہاں مشکل سے ہفتے میں ایک یا دو کْتوّں کی نس بندی ہوتی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کبھی کبھار یہ بھی ہوتا ہے کہ آپریشن کے بعد کْتّا زیادہ خطرناک ثابت ہوجاتا ہے۔ چونکہ ہسپتال ایک ہے اور ہر ضلع میں لاکھوں کی تعداد میں کْتّے۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے پچھلے سال سابق ڈویڑنل کمیشنر بصیر خان نے سبھی ڈپٹی کمیشنروں کو ہدایات جاری کردیں کہ ضلع میں دو کنال اراضی پر کتوں کی نس بندی کا سینٹر قائم کریں۔ پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا ہے، حکم نواب تادرنواب !
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ علم الحیوان سے وابستہ ماہرین نے ایک تحقیق بھی سامنے لائی جس کے مطابق کشمیر میں پائے جانے والے کْتّوں میں 1300 اقسام کے وائرس ہیں اور اگر کتوں کی زیادہ تعداد ہو تو بغیر کسی کو کاٹے بھی وہ بیماری پھیلا سکتے ہیں۔ بھارت میں گائے کی ہی بندر بھی طرح ایک مقدس جانور سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اْسے بھگوان ہنومان کا اوتار مانا جاتا ہے۔ لیکن چند سال قبل جب بندروں نے گْجرات میں سیاحوں اور عام شہریوں کا جینا دوبھر کردیا تھا تو بے جے پی حکومت نے شہری مقامات پر ا?وارہ بندروں کو گولی سے اْڑانے کا حکم دے دیا۔ اْس وقت جانوروں کے حقوق کے لئے سرگرم حلقوں نے کوئی شور نہیں مچایا۔
اْس کے برعکس کشمیر میں ہر سال بیس سے زیادہ افراد کْتّوں کا لقمہ بن جاتے ہیں ، اور جب کْتّوں کو زہر دے کر مارنے کی بات کی جاتی ہے تو کشمیر کے ہی بعض حلقے سینہ کوبی کرتے ہیں، کیونکہ وہ حکومت کو نس بندیوں کے انجیکشن فروخت کرنا چاہتے ہیں۔
کْتّوں کی بڑھتی آبادی کے باعث بچوں اور والدین میں نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ بچے پڑھائی کے سلسلے میں باہر جائیں تو کسی کو اْن کے ساتھ جانا پڑتا ہے، بچے واپس آجائیں تو کہیں نہ کہیں اٹک ہی جاتے ہیں۔
دوسرا مسلہ ریبیس نامی وائرس کے خلاف انجیکشن کا ہے۔ کشمیر کے ہسپتالوں میں اینٹی ریبیس انجکشنوں کی مناسب سپلائی بھی موجود نہیں۔ ایک طرف جانوروں کے احترام میں عام انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیلا جارہا ہے اور دوسری طرف نہ اس مسلے کے حل کی باپت کوئی سنجیدہ اقدام نظر آتا ہے اور نہ ہی ہسپتالوں میں متاثرین کے علاج کا مناسب انتظام۔ اگر واقعی کْتّوں کے مارنے پر پابندی کسی اخلاقی تقاضے کے تحت ہے تو یہ کہاں کا اخلاق ہے کہ انسانوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کی جائے۔ بعض ماہرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ اگر حالت ایسی ہی رہی تو 2024تک کشمیر میں کْتّوں کی ا?بادی 70 لاکھ ہوگی، جسکا مطلب ہے کہ ہر شہری کے پیچھے ایک کْتّا ہوگا۔
(کالم نویس معروف سماجی کارکن ہیں
رابطہ 9469679449 ،[email protected])