آفتاب اظہر صدیقی
انٹرنیٹ ایک ایسی دنیا ہے جو آہستہ آہستہ باہر کی دنیا کا متبادل بنتی جارہی ہے، یہ دنیا جسے اپنے اندر قید کرلیتی ہے وہ پھر کسی دنیا کا نہیں رہتا، انٹرنیٹ پر آج کے وقت میں اتنا کچھ موجود ہے کہ آدمی تصور نہیں کرسکتا، اگر انٹرنیٹ کی تمام چیزوں کو دیکھنا شروع کیا جائے تو ہزاروں سال بھی کم پڑسکتے ہیں۔ انٹر نیٹ بھی عام دنیا کی طرح نیکی اور بدی دونوں کی گنجائش رکھے ہوا ہے۔ جہاں یہ ایک طرف نیکی کا گہوارہ ہے تو وہیں دوسری طرف برائی کا اڈہ۔ انٹر نیٹ پر آج کیا کچھ نہیں ہے، خریدنے اور بیچنے والوں کے لیے آن لائن شاپنگ کی سیکڑوں ویب سائٹس، پڑھنے والوں کے لیے ہزاروں آن لائن کتب خانے، لکھنے والوں کے لیے لاکھوں بلاگس اور ویب سائٹس، اہل ادب کے لیے ادبی چینلز اور ویب سائٹس۔ تفریح مزاج لوگوں کے لیے تفریحی مواد، فلم بینی کے شوقینوں کے لیے ہزاروں فلمیں، موسیقی اور گانوںکے دیوانوں کے لیے بے شمار گانے، آن لائن کمانے والوں کے لیے روزگار کے سیکڑوں مواقع، پڑھانے والوں کے لیے آن لائن کلاس لینے کے ذرائع، حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والوں کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، طوائف خانوں میں جانے والوں کے لیے آن لائن قحبہ خانے، شرم و حیا کو بیچ کر پیسہ کمانے والوں کے لیے پورن انڈسٹری ، فحش بینوں کے لیے ہم بستری اور زناکاری کی ننگی اور برہنہ فلمیں اور نہ جانے کتنے ہی ایسے میدان ہیں جن تک رسائی ہر کس و ناکس کے لیے بہت آسان ہوچکی ہے۔ ان ہی میں سے ایک میدان ہے ’’آن لائن گیمنگ‘‘ یعنی انٹر نیٹ پر کھیل کا میدان۔ انٹرنیٹ پر سیکڑوں طرح کے کھیل کے میدان موجود ہیں، جن کی تقسیم تین طرح سے کی جاسکتی ہے۔
(۱) وہ کھیل جس میں نہ کوئی فائدہ نہ نقصان ،صرف وقت کا ضیاع اور ٹائم پاس۔ پلے اسٹور پر ایسے بہت سے گیمزکے ایپ ہیں، جن کو لوگ صرف ٹائم پاس کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ انہیں ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد صارفین کا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا، نہ انہیں کوئی پیسہ ملتا ہے، بس وہ ٹائم پاس کے لیے اس طرح کے گیم کھیلتے ہیں۔ اس سے گیم بنانے والی کمپنیوں کو تو بہر حال فائدہ ہوتاہی ہے کہ وہ اشتہارات دکھاکر اور صارفین کا ڈیٹا بیچ کر پیسہ کمالیتی ہیں، لیکن صارفین کا کوئی مالی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس طرح کے گیم کھیلنا اس لیے ناجائز ہے کہ ان میں وقت ضائع ہوتا ہے اور بندہ اپنے ضروری کاموں سے غافل ہوجاتا ہے۔
رسول آخری محمد عربی صلی اللہ علیہ واالہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’آد می کے اسلا م کی خو بی اور اس کے کمال میں یہ بھی دا خل ہے کہ و ہ فضو ل اور غیر مفید کا مو ں اور بیکار با تو ں کا چھو ڑنے والا ہو۔(ترمذی)
رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مر تبہ نصیحت کر تے ہو ئے ار شا د فر ما یا:’’پانچ چیزو ں کوپانچ چیزو ں سے پہلے غنیمت سمجھو:جو انی کو بڑھا پے سے پہلے‘صحت کو مر ض سے پہلے‘دو لت کو فقر سے پہلے،فر اغت کو مشغو لیت سے پہلے اور زند گی کو مو ت سے پہلے۔‘‘(مشکوٰۃ)
(۲) دوسرے نمبر پر کھیل کے وہ ایپ یا ویب سائٹس ہیں جن میں صارفین کا پیسہ تو نہیں لگتا، لیکن صارفین کو انعام کے طور پر کچھ پیسہ مل جاتا ہے۔ اس طرح کے گیمگ ویپ کو استعمال کرنے والوں کو کچھ کوائنز یا نقلی سکے ملتے رہتے ہیں اور یہ سکے ان کے کھیلنے کے وقت کے حساب سے بڑھتے رہتے ہیں، جو بندہ جتنا زیادہ ان ایپس میں گیم کھیلتا ہے اس کو اتنے زیادہ سکے ملتے ہیں۔ پھر یہ سکے ایک مقرر کردہ تعداد میں پہنچ کر اصلی روپیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ لیکن اصلی روپیوںکی مقدار کوائنز سے بہت کم ہوتی ہے، مثلاً اگر کسی نے گیم کھیل کر ایک ہزار کوائنزبنالیے تو اس کو ایک ہزار کوائنز کے بدلے سو یا پچاس روپے ہی دیے جاتے ہیں، یعنی ایک ہزار کوائنز کی ویلیو سو یا پچاس روپے ہوئی۔ اس طرح کے گیموں سے ملنے والے پیسوں کے استعمال میں ذرا سی وضاحت ہے۔ ان گیموں سے ملنے والے انعام کے پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ گیم بنانے والی کمپنی دیتی ہے، وہ کہاں سے دیتی ہے؟ وہ ان کمپنیوں سے لیتی ہے جو اپنی کمپنی کے سامانوں کا ایڈورٹائز اور اشتہار ان گیم کے ایپلیکیشنز کو دیتی ہیں، گیم کھیلنے والے صارفین کو ان ہی اشہارات کو دیکھنے کے پیسے ملتے ہیں۔ اب واضح رہے کہ اگر دکھائے جانے والے یہ اشتہارات فحش تصویروں یا حرام اشیاء پر مشتمل نہ ہوں تو ان پیسوں کا استعمال جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔ لیکن ایسا شاید ہی کوئی گیمنگ ایپ ہوگا ،جس میں فحش تصاویر یا حرام چیزوں کا اشتہار نہ دکھایا جاتا ہو۔ لہٰذا ان گیموں کے کھیلنے سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔ دوسری بات اس طرح کے گیم والے ایپ میں پہلی قسم کے ایپ سے بھی زیادہ وقت ضائع ہوتا ہے۔ اس لیے کہ صارف انعام کے لالچ میں زیادہ سے زیادہ وقت کھیل میں مصروف رہتا ہے۔ حالانکہ اس کے بدلے میں ملنے والا انعام کوئی معنی نہیں رکھتا، اس لیے کہ دن دن بھر کھیلنے والے صرف سو یا پچاس روپے مشکل سے حاصل کر پاتے ہیں۔ لہٰذا وقت ضائع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ جب ان گیموں کی عادت پڑجاتی ہے تو آدمی ’’کام کا نہ کاج کا، دشمن اناج کا‘‘ بن کر رہ جاتا ہے۔
وقت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے قرآن پاک کی اس آیت پر نظر کیجیے:
أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیہِ مَن تَذَکَّرَ وَجَائَکُمُ النَّذِیرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِینَ مِن نَّصِیرٍ(فاطر۔ 35: 37)
’’کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا، وہ سوچ سکتا تھا اور (پھر) تمہارے پاس ڈر سنانے والا بھی آچکا تھا، پس اب (عذاب کا) مزہ چکھو، سو ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہ ہوگا۔‘‘
یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے جس کے باعث اسلام میں وقت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اسے ضائع کرنے کے ہر پہلو کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے وقت کو صحیح کاموں میں لگائے۔ حضرت عبداللہ ا بن عباس ؓسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں: صحت اور فراغت۔‘‘
اللہ تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغت اوقات کی نعمتوں سے نوازتا ہے تو اکثر سمجھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنی ہیں اور ان کو کبھی زوال نہیں آنا ہے۔ حالانکہ یہ صرف شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔ جو ربّ ِکائنات ان عظیم نعمتوں سے نوازنے والا ہے، وہ ان کو کسی وقت بھی چھین سکتا ہے۔ لہٰذا انسان کو ان عظیم نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں بہتر استعمال میں لانا چاہیے۔
حضرت ابو بَرزَہ اَسلمی ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’قیامت کے دن بندہ اس وقت تک (اللہ کی بارگاہ میں) کھڑا رہے گا جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے،۱۔ اس نے اپنی زندگی کیسے گزاری،۲۔اس نے اپنے علم پر کتنا عمل کیا،۳۔اس نے مال کہاں سے کمایا اور کیسے خرچ کیا،۴۔اس نے اپنا جسم کس کام میں کھپائے رکھا۔
(۳)تیسری قسم ان گیمنگ ایپس کی ہے، جس میں صارف کو پیسے لگانے پڑتے ہیں۔ یعنی جوا کھیلنے جیسا معاملہ ہے، ڈریم الیون، آن لائن لوڈو یا اور کھیل جس میں صارف کو پیسہ لگاناپڑتا ہے۔ اس طرح کے گیمنگ ایپ کے مالکان اپنے صارفین کو کچھ روپیوں کے بدلے کھلاکر خود کروڑوں میں کھیل جاتے ہیں۔ ان ایپ کے استعمال کرنے والوں کو دس بیس یا سو پچاس روپے لگاکر ایک کھیل شروع کرنا پڑتا ہے، یا ایک میچ رکھنا پڑتا ہے، پھر اگر اس کی ٹیم نے میچ جیت لیا تو اس کو ایک محدود رقم ملتی ہے ورنہ وہ اپنے لگائے ہوئے پیسے ہار جاتا ہے۔ ایسے میں مان کر چلیے کہ اگر ایک لاکھ لوگوں نے دس دس روپے لگائے تو ایپ کے مالک کے پاس دس لاکھ روپے جمع ہوگئے ،اب ان میں سے صرف دس لوگ جیت پاتے ہیں ،جنہیں دو ہزار ، پانچ ہزار کرکے کمپنی پیسہ دے دیتی ہے اور بقیہ پیسہ خود رکھ لیتی ہے۔ بعض ایپلیکیشنز میں تو صارفین کی تعداد اتنی ہوتی ہے کہ دس بیس پچاس روپے لگانے والوں سے ہی ایک ساتھ کروڑوں روپے لگ جاتے ہیںاور کمپنیاں کچھ جیتنے والوں کو لاکھوں روپے بھی دے دیتی ہیں۔ اس طرح کے گیموں کو ڈاؤن لوڈ کرنا اور کھیلنا اور اس میں پیسہ لگانا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔ یہ سراسر جوا ہے، جس کے حرام ہونے کو قرآن و حدیث میں صاف صاف بیان کیا گیا ہے۔ ان ایپ سے جیتے گئے پیسوں کا استعمال بالکل ناجائز اور حرام ہے ۔
’’جو ا‘‘جسے عربی زبان میں’’قمار‘‘کہا جاتا ہے در حقیقت ہر وہ معاملہ ہے جس میں’’مخاطرہ ہو‘‘۔ یعنی قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ایسا معاملہ کیا جائے جو نفع ونقصان کے خطرے کی بنیاد پرہو۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے: یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ (المائدۃ)
ترجمہ:’’اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں ،سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔
اسلام نے کھیل کود کو سرے سے منع نہیں کیا ہے، بلکہ اسلام میں ہر ایسا کھیل جائز ہے ،جس میں شریعت کے حدود سے تجاوز نہ ہو اور جس میں دینی یا دنیوی منفعت شامل ہو، جیسے کشتی، دوڑ، تیراکی، تیر اندازی، تلوار بازی، ورزش وغیرہ۔
[email protected]>