آصفہ! ملت کی بیٹی پر تیغِ ستم

   ابھی پاکستان میں سات برس چھوٹی ننھی زینب کے ساتھ پیش آئے انسانی ضمیروں کو جھنجوڑنے والے سانحہ کی دل دہلانے والی تصاویر نظروں کے سامنے رقصاں ہی تھیں کہ کھٹوعہ جموں میں ایک اور انسانیت کش المیہ گوجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ بچی آصفہ کے ساتھ پیش آیا جس نے ریاست بھر میں انسانی دلوں کو چھلنی کر کے رکھ دیا ۔ واقعی ان ہر دوجگر سوز واقعات پر دنیائے انسانیت شرمندہ ہے کیونکہ ان سے یکے بعد دیگرے پوری انسانی تہذیب و شرافت پر کالک پوت  دی گئی ۔ان المیوں نے ہم سب کو یاد دلایا کہ ہم پتھر کے زمانے سے بھی زیادہ وحشی ہیں ۔ کھٹوعہ ضلع کے ہیرا نگر تحصیل میں ۸؍ برس کی معصومہ آصفہ کو دن دھاڑے اغوا ء کیاگیا، پھر ناقابل معافی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر کے اس کی نوچی ہوئی لاش انسانیت کو رُلانے  کے لئے چھوڑدی گئی۔ معصوم کلی آصفہ بکروال طبقے سے تعلق رکھتی تھی جسے ۱۰ ؍جنوری کو اس وقت نامعلوم درندے نے اغواء کیا جب معصوم بچی اپنے گھوڑوں کو نزدیکی ندی کے پاس پانی پلانے گئی تھی۔ اغواء کاری کے بعد پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ درج کی گئی مگر پولیس کارول متاثرہ گوجرخانوادے سے غیر ہمدردانہ رہا ۔ کئی روز بعد بچی کی لاش برآمد ہوئی جس نے آسیہ اور نیلوفر کی طرح اپنی بپتا خودسنائی۔ یہ بپتاا سمبلی کے بجٹ اجلاس میں اپوزیشن ممبران کی زبانی پہنچی۔ شکر ہے اس بارریاستی وزیراعلیٰ نے آصفہ المیہ کے بارے میں یہ نہ کہا کہ آصفہ نے خودکشی کر لی ہے جیسے آسیہ اور نیلوفر کے المیے پر سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے یہ کہہ کر زمین وآسمان کو ہلادیا کہ یہ رمبی آرہ شوپیان کے دوانچ پانی میں ڈوب مری تھیں ۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سمیت عوام نے اس اندوہ ناک سانحہ پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا جب کہ گجر بکروال برادری نے بھی کمزور ہی سہی اپنا احتجاج درج کیا ۔ اسمبلی میں اپوزیشن ممبران نے حکومت سے برمحل سوال کیا کہ اگر معصوم بچی کو لاپتہ ہوئے ایک ہفتے سے زائد عرصہ گذر گیا تو پولیس ایک ہفتہ تک کیا کر رہی تھی؟ ممبر اسمبلی وقار رسول نے بآواز بلند کہا کہ جموں کے کھٹوعہ ضلع میں پہلے سے ہی گوجر بکروال طبقے پر ظلم و جبر ڈھایاجارہا ہے اور معصوم بچی کا بہیمانہ قتل اس پراضافہ ہے۔ ممبر اسمبلی اور گوجر لیڈر میاں الطاف نے بھی سرکار کو الزام دیا کہ جب سے وجود میں آئی ہے ایک مخصوص طبقے کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس سے پہلے بھی گوجر بکروال برادری پر شرناتھیوں کے ہاتھوں کئی ایک حملے کئے جاچکے ہیں۔قبل ازیں جنگلات کی زمین بازیاب کر نے کے نام پر جموں میں دن دھاڑے پر پشتوں سے آباد گوجر کوٹھوں کو مسمار کر دیا گیا اور انہدامی کارروائی کے دوران ایک گوجر نوجوان کو راست گولی کا نشانہ بناکر ابدی نیند سلادیا گیا۔آصفہ نامی معصوم کلی کا بہیمانہ قتل ریاست میں مسلم خواتین سے روارکھی جارہی ظلم و زیادتی کی ہی ایک کڑی سمجھنی چا ہیے ۔ حکومت چاہے ظالموں ، قاتلوں اور عصمت کے لٹیروں کی پردہ پوشی بھی کرے مگر کنن پوش پورہ سے لے کر کٹھوعہ تک پھیلے شرم ناک سانحات ان بد قماشوں کا پتہ دیتے ہیںہیں جنہیں ریاست میں بالخصوص وقت کے اقتدار اورا س کے حاشیہ برداروں کی حمایت حاصل ہے ۔ اگر یہ امر واقع نہ ہوتا تو مسلم خواتین کے خلاف سنگین جرائم کے مر تکبین کی کاہے کو پردہ داری کی جاتی ؟ یہ الگ بات ہے کہ آصفہ کے دردناک قصہ پر اسمبلی کے شور وغل نے حکومت کو تنگ گلی میں بند کردیا کہ ا س نے بادل نخواستہ متعلقہ تھانہ کے ایس ایچ کو معطل کیا اور معاملہ کرائم برانچ کے سپرد کر کے اپنی پنڈ چھڑالی۔اب اس ساری حکومتی کارروائی کیا نتیجہ نکلے گا اور آصفہ کے لواحقین کو انساف ملے گا، وہ زیادہ دیر سربستہ راز نہ رہے گا۔ افسوس ہمارے یہاں اب یہ کلچر بن گیا ہے کہ کسی گھناؤنے واقعہ پر ہم وقتی طور غم وغصہ کا رد عمل دکھا کر فوراً ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اور پھر کوئی نیا سنسنی خیز واقعہ ہی ہماری گہری نیند توڑ دیتا ہے ۔ حکومت بھی موج منالیتی ہے چلو طوفان ٹل گیا اور ہم عوامی غیظ وغضب سے بچ گئے ۔ یہ صورت حال اس شعر کے مصداق ہے  ؎
ہم ایسے عہد منافق میں جی رہے ہیںجہاں 
خوشی چھپا کے جنازوں کا غم کیا جاتا ہے 
 عام طورعورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو تنگ لباس ، سینما، موبائیل ، مغربیت وغیرہ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے لیکن ننھی آصفہ ان تمام آلائشوں سے پاک ایک معصوم ستارہ تھی ، وہ معصومیت کے عالم میں بے فکری کی زندگی جی رہی تھی ، عام سماجی حالات اور اخلاقی گراوٹوں کے پھیر چکر سے بالکل نابلد تھی۔ بہر حال اس ننھی کلی کے ساتھ پیش آمدہ المیے اور جگر سوز واقعہ کو اس زاویۂ نگاہ سے دیکھا جاناچاہیے کہ وہ ایک مسلم بچی تھی جب کہ جموں میں بے نو امسلم کمیونٹی کو اُس وقت سے برابر ہراسانیوں سے پالا پڑا ہوا ہے جب سے ریاست میں بھاجپا نے اقتدار سنبھالا۔ اور تو اور ایک موقع پر ریاست کے کابینی وزیر چوہدری لال سنگھ نے بر سر اعلان جموی گوجروں کے ایک وفد کو سنتالیس نہ بھولنے کی چتاؤنی تک دی وہاں آصفہ جیسی بے یارو مددگار بچی کے ساتھ ایسا دلدوزواقعات کا پیش آنا کوئی ناممکن العمل بات نہیں ۔ اب ساری نگاہیں حکومت پر ٹکی ہوئی ہیں کہ آصفہ کے قاتل کو پھانسی کے پھندے پہ لٹکاتی ہے کہ نہیں ۔
ای میل [email protected]