آسام میں شہریت کا معاملہ تقریبا گزشتہ 38برسوں سے انتہائی سنگین رہا ہے اور غیر ملکی کے نام پر وہاں کے لوگوں کو پریشان کیا جاتا رہا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ اس پس منظر میںماضی میں مسلم کش فسادات کے درجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں ہزاروں لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں اورکروڑوں کی جائیداد یں برباد ہو چکی ہیں۔ آسام کی تاریخ گواہ ہے کہ غیر ملکی اور خاص کر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام لگا کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ۔اس سلسلے میں ۱۹۸۳ میں ہوئے ’’نیلی Nellieنسل کشی ‘‘کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔اس میں تقریباً ۳ ہزار لوگوں کو محض ۶گھنٹے میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اس نسل کشی کو انجام دینے والوں کے خلاف آج تک کوئی کاروائی نہیں ہو ئی۔ ملک میں جس طرح سیاسی، سماجی،معاشی اور تعلیمی صورت حال کروٹ لے رہی ہے اور اربابِ اقتدار ہی فرقہ پرستی، تعصب، تنگ نظری ، اقلیتوں اور خاص طور پرجس طرح مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے پر آمادۂ پیکار ہیں ، اگر اس رجحان پر فوری طور کنٹرول نہ پایا گیا تو یہ ملک کیلئے نہایت خطرناک ہوگا۔ نسلی امتیاز کایہ سلسلہ جس طرح ہندوستان میں پھل پھول رہا ہے اور اکثریتی فرقہ کے ذہن میں جس قدر زہر گھول دیا گیا ہے وہ مسلمانوں کے لئے تباہ کن تو ہے ہی لیکن ملک کے لئے بھی کم تباہی لانے والا نہیں ۔ پورے ملک میں مسلمانوں کے لئے میانمار جیسے حالات بنانے کی جو مذموم کوشش کی جارہی ہیں ، آسام میں اس پر عمل شروع کیاگیا ہے ۔ا س وقت ملک میں فرقہ پرستوں کو اس قدر چھوٹ حاصل ہوگئی ہے کہ وہ جب اور جہاں چاہتے ہیں مسلمانوں پر علی الخصوص حملے کردیتے ہیں، مسلم خواتین سے چھیڑ خانی سے لے کر عزت ریزی تک سے گریز نہیں کیا جا تا۔ سردست آسام کے مسلمانوں کی حالت زار بہت ہی تشویش کا باعث ہے۔ جب سے ریاست میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی مسلمان پریشان کرنے کیلئے طرح طرح کے حیلے بہانے تراشے جارہے ہیں۔ کل تک مسلمانوں کو بنگلہ دیشی کہہ کر جینا حرام کیا جارہا تھا لیکن اب قومی شہری رجسٹر متعارف کرنے کا دوسرا راستہ اختیار کیا گیاہے۔ واضح رہے کہ آسام کی حقیقی آبادی اور بنگلہ دیشیوں کے درمیان فرق کرنے کے لئے قومی شہری رجسٹر کا فارمولہ وضع کیا گیا اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ آسام میں مسلمانوں کو اپن شہریت ثابت کرنے کے لئے16؍دستاویزات کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ان میں سے پنچایت سرٹیفکٹ بھی شامل ہے۔ پنچایت کی سرٹیفکٹ اس لڑکی کو دی جاتی ہے جو شادی کرکے دوسرے گاؤں یا علاقہ میں جاتی ہے تاکہ یہ نہ کہا جاسکے کہ یہ بنگلہ دیشی ہے اور اسی کو روکنے کے لئے پنچایت سرٹیفکٹ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ شہریت کو ثابت کرنے کے لئے آسام میں ایک ٹریبونل بھی ہے۔ یہ معاملہ شروع ہوا تھا منورہ بیگم کے کیس سے ۔ منورہ بیگم کی سرٹیفکیٹ کو ٹریبونل نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ اس کو گوہاٹی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا کیا۔ گوہاٹی ہائی کورٹ نے بھی ٹریبونل کے فیصلے کو باقی رکھا اور پنچایت کی سرٹیفکیٹ تسلیم نہیں کیا، جب کہ پنجایت کی سرٹیفکیٹ دستاویزات کی فہرست میں 13؍ویں نمبر پر ہے۔ اس فیصلے کی زد میں تقریباَ 48لاکھ خواتین آگئی تھیںجن کی شہریت ٹریبونل کے حکم نامے سے مسترد ہوجاتی ہے۔ سب سے بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ پولیس نے اس فیصلے کو بہانہ بناکر دھرپکڑ شروع کردی۔ پولیس رات کے دوران بغیر کسی لیڈی پولیس کے گھر پر دھاوا بولتے اور دروازہ توڑ کر چن چن کر کم عمر خواتین کو گرفتار کرکے ڈیٹینشن کیمپ میں چھوڑ دیتی تھی۔ یہ گرفتاریاں غیر قانونی ہوتی ہیں کیونکہ سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق کسی خاتون کو رات کے وقت گرفتار نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر یہ بہت ضروری ہو تو لیڈی پولیس ساتھ میں ہونا ضروری ہے۔ آسام میں اس قاعدے قانون کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ معاملہ کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان خواتین کو مبینہ طور عادی مجرموں کے ساتھ رکھا جاتا ہے جیسا کہ جمعیتہ علمائے ہند نے الزام لگایا تھا۔ آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر اور آسام سے رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے اس بارے میں بتایا تھا کہ میں ڈٹینشن کیمپ میں جانے کے لئے اجازت چاہی تو مجھے یہ کہہ کر منع کردیا گیا کہ اس کے لئے وزارت داخلہ سے اجازت لینی ہوگی۔ میں نے وزارت داخلہ کو اس سلسلے میں خط لکھا لیکن طویل عرصہ بیت جانے کے باوجود اب تک اس کا کوئی جواب نہیں آیا ۔ ڈٹینشن کیمپ قید مسلم خواتین کے ساتھ کیا ہورہاہے، باوثوق ذرائع سے اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ کہا جاتاہے کہ ڈٹینشن کیمپ میں تقریباً دس ہزار کے قریب خواتین نظربند ہیں۔ کہنے کو گوہاٹی ہائی کوررٹ کا یہ فیصلہ ہندو خواتین پربھی نافذ ہوتا ہے لیکن نشانہ صرف مسلمانوں کو بنایا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ نے آسام میں لاکھوں لوگوں کی شہریت سے متعلق ایک انتہائی اہم کیس میں تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے تقریباً 48 لاکھ لوگوں بالخصوص شادی شدہ عورتوں کی شہریت پر لٹکتی تلوار سے راحت دے دی ۔ جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس نریمن پر مشتمل عدالت عظمیٰ کی دو رکنی بنچ نے 28 ؍فروری 2017 کوگوہاٹی ہائی کورٹ کےاس فیصلہ کو رد کر دیا جس سے آسام میں نیشنل رجسٹر فار سیٹیزن (این آر سی) میں اندراج کے لئے پنچایت سر ٹیفکیٹ کو ناقابل قبول قرار دیا گیا تھا۔جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس نریمن پر مشتمل عدالت عظمی کی دو رکنی بنچ نے 28 فروری 2017 کوگوہاٹی ہائی کورٹ کے ذریعہ دئے گئے اس فیصلہ کو رد کر دیا جس کی وجہ سے آسام میں نیشنل رجسٹر فار سیٹیزن (این آر سی) میں اندراج کے لئے پنچایت سر ٹیفکیٹ کو ناقابل قبول قرار دیا گیا تھا۔گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ سے تقریباً 48 لاکھ لوگ جنہوں نے پنچایت سرٹیفکیٹ کو معاون دستاویز کے طور صرف یہ ثابت کر نے کے لئے جمع کیا تھا کہ وہ فلاں کی بیٹی یا بیٹا ہے اور شادی یا کسی اور وجہ سے فلاں گاؤں سے فلاں گاؤں منتقل ہوکر رہائش پذیر ہوگئے۔معاملہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جمعیۃ علمائے ہند کی اپیل پر جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس نریمن پر مشتمل عدالت عظمیٰ کی دو رکنی بنچ نے 28 فروری 2017 کوگوہاٹی ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو رد کر دیا جس سے آسام میں نیشنل رجسٹر فار سیٹیزن (این آر سی) میں اندراج کے لئے پنچایت سر ٹیفکیٹ کو ناقابل قبول قرار دیا گیا تھا۔جمعیتہ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی ، جنرل سکریٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی اور صوبہ آسام کے صدر ورکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل قاسمی نے اسے انصاف کی جیت اور تاریخی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے لاکھوں لوگوں کی شہریت کے تحفظ کا ضامن قرار دیا ہے۔
آسام کے مسلمانوں کی شہریت کا 1985 آسام اکارڈ Accord کے تحت حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے چند ماہ قبل جمعیتہ علمائے ہند نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کیا تھاکہ شہریت کی آڑ میں آسام میں مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ بند کیا جائے۔موصوف نے کہا تھاکہ جمعیتہ کا موقف ہے کہ ملک میں غیر ملکیوں کی شناخت کرکےا نہیں نکال باہر کیا جائے لیکن آسامی مسلمانوں کو اس کی آڑ میں ہرگز پریشان نہ کیا جائے جیسا کہ ان دنوں آسام میں ہورہا ہے ۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ یہ انسانیت کا مسئلہ ہے اور اسے منصفانہ طریقہ سے حل نہیں کیاگیا توانسانی بحران کا مسئلہ درپیش ہوجائے گا۔ رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے بھی اسے ایک سازش قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ قومی شہری رجسٹرNCRکا کام تقریباً مکمل ہوگیا ہے اور اس کے تحت تقریباَ ایک کروڑ مسلمانوں کو آسام سے نکالنے کی تیاریاں کی گئی ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ آسام میں 1978سے 1985 کے درمیان آل آسام اسٹوڈنٹس سمیت کچھ تنظیموں کی جانب سے پہلے غیر آسامیوں کاپھر غیر ملکیوں اور خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف زبردست تحریک چلی۔ چلتے چلتے بعد میں یہ مسلم مخالف تحریک میں تبدیل ہو گئی ۔ اس کا اختتام 1985 میں Assam Accord کے وجود میں آنے کے ساتھ ہوا۔Assam Accord اُس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی موجودگی میں مرکزی حکومت، آسام حکومت اور تحریک چلانے والے لیڈروں کے درمیان باہمی رضامندی سے ہوا تھا اور آسام میں سرگرم وقت کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں نے اسے قبول کیا تھا۔ اس کے مطابق ۲۵؍ مارچ 1971کٹ آف ڈیٹ کو بنیاد مان کر اس سےقبل آسام میں بس جانے والوں کو ہندوستانی شہری تسلیم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد وزیر اعظم راجیو گاندھی نے پارلیمنٹ میں ایک ترمیمی بل کے ذریعہ Citizenship Act مجریہ -1955 section 6-A داخل کر کے اسے منظوری دی تھی ۔ اس وقت اس پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس، بی جے پی، لیفٹ اور تمام غیر سیاسی جماعتوں وسماجی تنظیموں نے بھی اسے قبول کیا تھامگر2009 میں اور پھر 2012 میںآسام سنمیلیٹا مہا سنگھ سمیت مختلف فرقہ پرست تنظیموں نے سپریم کورٹ میں 274/2009 and PIL No 562/2012 PIL Noفائل کر دیا او ر25 مارچ 1971 کی بجائے 1951 کے ووٹر لسٹ کو بنیاد بناکر آسام میں شہریت کا کٹ آف ڈیٹ تسلیم کرو انے کی پُرزور وکالت کی ۔ نیز Assam Accord کی قانونی حیثیت اور پارلیمنٹ کے ذریعہ Citizenship Act -1955 میںSection 6-A کے اندراج کو بھی چیلنج کیا۔اس وجہ سے آسام کے لاکھوں لوگوں بلکہ ہر تیسرے شخص کی شہریت پر خطرہ منڈلانے لگا۔ حالات کی نزاکت کے پیش نظر جمعیۃ علما ء ہند نے ان تنظیموں کے موقف کے خلاف اور Assaam Accord کی تائید میں سپریم کورٹ میں فوراًپٹیشن داخل کیا۔ بعد ازاں آل آسام مایناریٹی اسٹو ڈینٹس اورسیٹیزن رائٹ پریزرویشن کمیٹی( سی آر پی سی) نامی تنظیموں نے بھی جمعیۃ علماء ہند کے موقف کے ساتھ ہم آہنگی ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کر کےآسام ایکارڈ کادفاع کیا ۔ سردست سپریم کورٹ میں ایک طرف تقریبا 14تنظیمیں مقد مہ لڑرہی ہیں تاکہ لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کیا جائے جب کہ دوسری طرف اس کے دفاع میں صرف تین تنظیمیں میدان عمل میںہیں 🙁 ۱) جمعیۃ علماء ہند(۲) آل آسام مایناریٹی اسٹوڈینٹس(آمسو) (۳) سیٹیزن رائٹ پریزرویشن کمیٹی (سی آر پی سی) نامی تنظیمیں۔واضح رہے کہ آسام میں شہریت سے متعلق یہ مقدمہ پہلے سپریم کورٹ کے ڈویژن بنچ کے پاس تھا جس نے Assam Accord سے متعلق ۱۳؍ سوالات کئے تھے اور اس کا دفاع کر نے والے فریقوں کو اس کا جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔بعد میںیہ سارے مقدمات سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل ایک آئینی بنچ کے حوالہ کر دیا گیا۔ یکم مئی 2017کو جمعیۃ علماء ہند نے اپنے سینئر وکلا ء کی ٹیم کے ذریعہ تیار شدہ ان 13سوالات کے جوابات اور ضروری دستاویز سپریم کورٹ میں آئینی بنچ کے سامنے جمع کر دیاتھا۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ آسام کی سابقہ ترون گگوئی حکومت اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے محض اپنے سیاسی مفاد کی خاطر اس کو لٹکاتی رہی ۔ سابقہ ریاستی سرکاروں کے آسامی مسلمانوں کے استحصال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے آسام میں ’’بارڈر پولس ڈیپارٹمنٹ ‘‘بناکر اسے اس بات کا مکمل اختیا دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دے کر گرفتار کر یں۔ اب تک ہزاروں بے قصور لوگ اس ڈپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔مزید بر آں اس ڈپارٹمنٹ کو آ ر ٹی آئی ایکٹ کے دائرہ کار سے باہر رکھ کر اس کے ظلم و ستم پر پر دہ ڈالنا ہے۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ حکومت کا دوہرا پیمانہ دیکھئے کہ ایک طرف تو حکومت ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کر چکی ہے جس کے پاس ہوتے ہی لاکھوں غیر ملکی ہندو پناہ گزینوں کو ہندوستانی شہریت مل جائے گی ، جب کہ دوسری طرف ہندوستان کے لاکھوں حقیقی شہری مسلمان ہونے کے ’’جرم ‘‘ میں ہندوستانی شہریت سے محروم ہوجائیں گے ۔ انصاف کا یہ دوہرا پیمانہ جمہوریت کے لئے انتہائی خطر ناک ہے ۔اسی طرح گوہاٹی ہائی کورٹ کے 28فروری 2017کو دئے گئے پنچایت سیکرٹری کے ذریعہ جاری شدہ سرٹیفکیٹ کو کالعدم قرارد دینے والے فیصلہ کے خلاف بھی جمعیۃ علما ء ہند کی عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت کا آغاز ہوگیا جس سے تقریبا 48لاکھ لوگوں خاص کر عورتوں کی شہریت متاثر ہو رہی ہے۔
یہ ساری چیزیں یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ آسام میں کیا ہورہا ہے، کس طرح مسلمانوں کی بنگلہ دیشی شہری کے نام پر شہریت چھین لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دراصل آسام کے مسلمانوں کو روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے حیثیت کر نے کی سازش چل رہی ہے تا کہ ان سے ہندوستانی شہری ہونے کے حقوق چھین لئے جائیں اور ان سے ووٹنگ کا حق بھی سلب کر لیا جائے اور اس کے ساتھ وحشیانہ سلوک روا رکھا جائے ۔آج کل یہی میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ برمی مسلمانوں کو زندہ جلانا، گھر میں آگ لگانا،عبادت گاہوں کو تباہ کرنا، خواتین کی عصمت تار تار کرنا، بچوں کو ذبح کرنا اور اسی طرح کے دیگروحشیانہ جرائم کرنا مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جارہاہے۔ اسی طرح کا بد ترین سلوک بعض بدنام زماں فرقہ پرست جماعتیں مسلمانوں کے ساتھ روارکھنا چاہتی ہیں۔ مسلمانوں پر خاموشی اور غفلت کی دبیز چادر پڑی ہوئی ہے اور کوئی ایک بھی قائد ونیتا موثر انداز میں آسامی مسلمانوں کی حق بات حکومت کے سامنے رکھنے میں دلچسپی نہیں دکھارہا ہے۔ مسلمانوں میں گلی محلے، نکڑچوراہے اور ڈرائنگ روم میں تو اس پر خوب بحثیں ہوتی ہیں لیکن لاکھوں لوگوں کا مسئلہ انصاف کے ساتھ اُجاگر کرنےکے لئے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا جاتا۔ شایدمسلمان چنگیز خاں اور ہلاکوں خاں کے دور میں دوبارہ واپس جاچکے ہیں۔ ہندوستان ایک قابل فخر جمہوری ملک ہے اورمسلمانوں کا جینا مر نا جمہوریت ، بھائی چارےاور گنگا جمنی تہذیب سے مشروط ہے۔ مسلمانوں اور انصاف پسند غیرمسلموں کو آسام کے بحران کے خلاف مل کرآواز اٹھانی چاہیے تاکہ کسی کو بھی ہماری جمہوریت کا مذاق اڑانے کا موقع نہ ملے ۔
D-64/10. Abul Fazal Enclave Jamia Nagar Okhla, New Delhi- 110025
9810372335