آرام طلب ’’مبصرین ‘‘سے دو باتیں

آرام دہ کرسیوں پر بیٹھنے والے ہمارے دانشوروں ،صحافیوں ،تجزیہ نگاروں اور سیاستدانوں کو ہی اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ دو غیر متوازن بندوقوں کی تصادم آرائی میں کشمیری قوم کو تباہ کاریوں ،ہلاکتوں اور ظلم و ستم کے مہیب دور سے گزرنا پڑتا ہے  ۔ روز اپنے چہیتوں کے جنازے اٹھانے پڑتے ہیں ،گھروں اور املاک کو ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل ہونے کا اعصاب شکن منظر دیکھنا پڑتا ہے ، اپنے پیاروں سے اظہار عقیدت کے ’’جرم ‘‘ میں بینائی سے محرومی ، ٹارچر ،جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیںاور پھر جاں بحق ہوئے عسکریت پسندوں کے لواحقین کو اس پورے عرصہ میں انتقام گیری اور مظالم کے ایک لرزہ خیز سلسلہ کو بھی جھیلنا پڑتا ہے ۔ بندوق اٹھانے والے کشمیری اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔وہ اس راستہ کا انتخاب کرنے سے پہلے سو بار سوچ چکے ہیں کہ وہ موت کے تعاقب میں موت کو گلے لگانے جارہے ہیں اور ان کی زندگی کی سانسیں گنی جاچکی ہیں۔سوال یہ ہے کہ وہ اپنے گھر کی تمام آسائشیں ، اپنے کیرئر ،اپنی ڈگریاں ،اپنی خوشحال اور آسودہ زندگی کی پُر لطف بہاریں چھوڑ کر کیوں یہ نوجوان اپنا کفن کندھوں پر اٹھائے بے خانماں زندگی گزارنے کو ترجیح دے رہے ہیں؟ یہاں ہمارے بعض قوم کے غم خوار ،جو خود کو سقراط کے ہم پلہ سمجھتے ہیں ،حریت لیڈر شپ اور سینٹمنٹ کی حامی سیول سوسائٹی کو اس کیلئے ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ان کی نظر میں جو بیانیہ روز مزاحمت کے حق میں دیا جارہا ہے اور جس طرح جنازہ جلوس میں حریت تقریروں اور تعزیتی مجالس میں شرکت کرکے اس جذبہ کو ابھارتی ہے ،اس کی وجہ سے ملی ٹینسی کو فروغ مل رہا ہے ۔ان کی نظر میں ملی ٹنٹوں کو جو عوامی مقبولیت مل رہی ہے ،وہ’’ کرب کی عظمت‘‘(Glorification of Pain)ہے جو ملی ٹنٹوں کی ہلاکتوں پر عوامی سطح پر دیکھنے کو ملتی ہے ۔اب تو حریت لیڈر شپ سے براہ راست مخاطب ہوکر کہا جاتا ہے کہ کشمیری نوجوانوں کو ہلاکت کی راہ پر چلنے سے روکیں تاکہ وہ زندہ رہیں اور ان کے غصے کو مثبت انداز میں اور صحیح سمت دیکر تعمیری طور استعمال کرنے کی کوشش کی جائے ۔دوسری طرف بعض اور دانشور حریت پر پھبتیاں کستے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی جمع پونچی میں ہلاکتوں پر واویلا کرنے کے بغیر اورکچھ نہیں ہے۔وہ کشمیری عوام کو بھی نہیں چھوڑتے اور اُن کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف لوگ رائے شماری کا مطالبہ کرتے ہیں ،دوسری طرف اپنے بچوں کا مستقبل سسٹم کے ساتھ وابستہ کرنے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف ہیں۔تیسری طرف نئے شکاری پرانا جال لے کر کہتے ہیں کہ یاتو سارے لوگ مکمل طور الیکشن کا بائیکاٹ کریں ،تب تو بات بنے ورنہ چاہے ایک فیصد یا دس فیصد لوگ بھی چنائو میں شمولیت کریں ،وہی پرانے کورپٹ لوگ جیت جاتے ہیں ،ہم عوام کی محض خدمت کرنے کیلئے آئے ہیں اور رشوت سے پاک انتظامیہ اور عوامی مشکلات کے ازالہ کیلئے چناوی عمل میں شریک ہوکر اس مقصد کی تکمیل چاہتے ہیں ،ہمیں نوجوانوں کی ہلاکتوں کا غم ستارہا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تنازعہ کشمیر کو حل کرنے میں اپنا رول ادا کریں۔
محولہ بیانات کا باریک بینی سے جائزہ لیجئے تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ تو قریب قریب وہی نریٹیو یا بیانیہ ہے جس کا اعادہ روز یہاں بھارتی اور ریاستی حکومتوں اور دوسرے اداروں اور کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے ہورہا ہے ۔اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ریاست جس پُر آشوب دور سے گزر رہی ہے اور ہلاکتوں اور تشدد کا جو سلسلہ یہاں چل پڑا ہے ،اس کیلئے خود کشمیری عوام ذمہ دار ہیں ۔یعنی یہ وہ خاص ’’ضیافت ‘‘ہے جو کشمیری نوجوانوں کے لہو سے تیار کی جارہی ہے اور حریت لیڈران آزمودہ کار آشپازوں کی حیثیت سے سفید اور سبز چوغے پہن کر اس کو سرو(serve)کررہے ہیںاور جب تک وہ خود اس ’’منافع بخش بزنس‘‘سے باز نہ آئیں ، اس ہانڈی پر اس طرح کے دیگچے پکتے رہیں گے ۔جبھی تو اُن سے خون خرابہ روکنے کی فرمائشیں کی جارہی ہیں۔ایک دم سے مظلوم اور بے بس قوم کو مظلومیت کے مقام سے اٹھا کر ظالم کی صف میں کھڑا کرنے ،ظالم کی شناخت دینے اور ظالم کے چہرہ سے اپنا تعارف کرنے کا ’’مقام ِ امتیاز‘‘مرحمت کیاجاتا ہے ۔اس مقام تک لاکھڑا کرکے حریت والوں پر ’’بغاوت‘‘کے مقدمات دائر کرنا ،ریاست کے باہر جیلوں میں انہیں اور انکے حمایتیوں کو سڑانااور زمین تنگ کرانااس عمل کا ایک فطری اقتضاء ہے جو ظلم اور جبر اور لاقانونیت سے عبارت ہے ۔ایسا کرنے میں اصل دست ِ جفا کیش کو مظلوم کی سند ملتی ہے اور وہ تحفظ جان ،تحفظ حاکمیت ،تحفظ آئین اور تحفظ ِریاست کے تمام تر ہتھیاروں سے مسلح ہوکر مجرمانہ بے باکی پر اتر آئے تو دلّی سے سرینگر تک کا بیانیہ اس کی پشت پر کھڑا ہوتا ہے اور جو کچھ وہ کرتاہے ،جائز ہی سمجھا اور ٹھہرایا جاتا ہے ۔
جس نریٹیو یا بیانیہ کے بارے میں کہاجارہا ہے کہ اس سے نوجوان نسل ملی ٹینسی کی راہ پکڑنے کی طرف مائل ہورہی ہے ،آخر اصل میں اس کی حقیقت کیا ہے ؟اس کا صحیح اور بہتر جواب خود وہ نوجوان دیں گے جنہوں نے بندوق کو گلے لگایا اور دوئم ،ان کے ماں باپ ،بہن بھائی جن کے لخت ہائے جگر ان سے چھن گئے ۔کم سن بچوں کے بارے میںیہ تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ وقتی جنون میں آکر بندوق اٹھاگئے مگر جو نوجوان میڈیکل ،انجینئر نگ اورڈاکٹریٹ کی ڈگریاں لیکر کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکل کر اپنے شاندار کیرئر اور مالی منفعتوں کو قربان کرتے ہوئے میدان ِ عسکریت کاانتخاب کرتے ہیں،وہ نہ تو کسی آرم چیئر رائیٹر (Armchair Writer)کے انتباہ سے خائف ہوتے ہیں ،نہ کسی لیڈر کے فنِ خطابت کے اثر میں آکر بندوق اٹھاتے ہیں ۔ایسا ہوتا تو نہ کوئی بندوق سے معانقہ کرتا اور نہ ہی ہمارے سکول ،کالج اور یونیورسٹیاں اور دینی ادارے بندوقوں سے خالی ہوتے۔حقیقت یہ ہے کہ بندوق کی ولادت نہ حیدر پورہ میں ہوتی ہے ،نہ نگین میں اور نہ مائسمہ میں ۔بلکہ یہ ریاستی نا انصافیوں ،عہد شکنیوں،فریب کاریوں اور جبر کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ۔یہ اسی درد کا علامتی اور معصومانہ اظہار ہے جس کے بارے میں یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اس سے عوام میں ہیجان پیدا کیاجاتا ہے اور وہ ’’خود کشی ‘‘پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
چیف انجینئر کا بیٹا ندیم خطیب امریکہ میں تعلیم حاصل کرچکا تھا۔یہاں زمین سے فلک تک آزادی کے ھق میں جو نغمے گونج اٹھتے ہیںاور جن سے ’’ہیجانی ‘‘ماحول برپا ہوتا ہے ،ا س سے وہ کافی دور دیارِ غیر میں تھااور ہاں ، جیسا کہ پروپگنڈاکیاجاتا ہے ،سوشل میڈیا کے کسی سحر میں وہ نہیں آچکا تھامگر محکومیت کا نہ ختم ہونے والا احساس اتنا شدید تھا کہ بے قراری کا علاج ڈھونڈنے کیلئے تمام دوسری ترجیحات پر لات ماردی ۔درد سرحدوں کو نہیں مانتا اور درد جب حد سے زیادہ بڑھتا ہے تو حصار توڑ کر چیخنے چلانے پر آتا ہے اور موت کے خوف سے بے پرواہ تن تنہا اور بے سروسامان نکل پڑتا ہے ۔عبدالمنان وانی کوئی گنوار ( lumpen)نہیں تھا،وہ کسی دشت ِ جنون کا مجنون نہیں تھا۔وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا ایک پی ایچ ڈی سکالر تھا۔اُس نے اپنی جسد ِ خاکی سینٹمنٹ سے وفا نبھانے کی علامت کے طور پر چھوڑ دی ۔اُس نے موت کو گلے لگنے سے پہلے اپنا نوحہ خود لکھا اور کہا کہ جو لوگ ملی ٹنٹ کے جنازہ جلوس میں عوام کی بڑی تعداد میں شمولیت کو ’’گلو ری فکیشن آف پین‘‘(Glorification of pain)سے تعبیر کرتے ہیں ،’’ہم ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم محکوم کے درد کی تقدیس کے حامی نہیں ہیں‘‘۔( Globalkashmir.net)۔کشمیریونیورسٹی کے پروفیسر،جو لاکھوں کی نوکری کا رزق اپنے والدین اور بال بچوں کو عزت و شہرت کے تمام پائیدانوں پر چڑھ کر کھلاتا تھا،کو کیا میں سمجھانے کی پوزیشن میں ہوں کہ جس راستے کو اس نے چن لیا ہے ،وہ پاسبان ِ عقل کے کے نزدیک ’’خود کشی‘‘کی’’ مجنونانہ حرکت ‘‘ہے اور کوئی میرواعظ صاحب اٹھے اور اُسے پکڑ کے گھر بھیج دے۔
بندوق جس نے بھی اٹھائی ،اُس نے پاکستان ،حریت یا گھروالوں سے پوچھ کر نہیں اٹھائی ۔اندر غصہ اور بیزاری کا کوئی لاوا ہے جو ان کو یہ انتہائی قدم اٹھانے پر آمادہ کرتا ہے ۔یہ لاوا سسٹم کی رعونت اور کبر و غرور سے اتنا سخت ہوچکا ہے کہ اور کوئی ’’تعمیری‘‘اور ’’مثبت‘‘راستہ ان کو نظر نہیں آتاکہ اپنی صلاحیتیں اور توانائیاںوہاں صرف کریں ۔بے شک ہم اسے زندگی سے مایوسی ،فرسٹریشن کا نام دیں ،مگر وہ اسے عین ِ مقصود حیات سمجھتے ہیں۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ جب تصادم کے دوران بندوق چھوڑ کر ’’گھر واپسی ‘‘کا آپشن ان کو دیا جاتا ہے تو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے وہ اس طرح کے اپروچ اور سوچ کو پائے حقارت سے ٹھکراتے ہیں او ر اپنے جنازہ جلوسوں اور مزاروں سے اپنے ’’خیر خواہوں‘‘کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ
شکو ہ ظلمت ِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے جاتے  
        (فراز )
(باقی باقی)
………………….
 بشکریہ ہفت روزہ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر