آدھار’’جیو‘‘ کے لئے اُپہار

 حز ب اقتداربھاجپا اپوزیشن کانگریس کی اُن تمام پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جن کی کبھی وہ بطور حزب ِاختلاف بڑھ چڑھ کر مخالفت کیاکرتی تھی، خواہ یہ آدھار کارڈ کا معاملہ ہو، جی ایس ٹی ہو،غیر ملکی سرمایہ کاری ہو،منریگا ہویا کہ کوئی اور فلاحی اسکیم۔کبھی کبھی تو یہ ہوا کہ مودی راج نے نام بدل دیا مگر اسکیم کانگریسی ہی رکھی۔جی ایس ٹی اورآدھار کارڈ ، یہاں تک کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی مخالفت میں زیادہ آواز گجرات ہی سے آئی تھی جس کے حکومتی سربراہ نریندر مودی تھے ۔ انہوں نے ان تمام چیزوں کی جم کر مخالفت کی تھی اور اپنے یاگار جملہ بازیوںسے بھی نوازا تھا ۔ یہ اب بھی ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ اقتدار میں آتے ہی۱۸۰؍ڈگری کا ٹرن لیتے ہوئے وہی سب قبول کر لیا جو یوپی اے نے اسکیموں کی صورت وضع کیا تھا اور عالم یہ کہ دو ہاتھ اور دو قدم آگے بڑھ کر وہی سارے کام کرنے لگے جس کا کریڈٹ کا نگریس کو جاتا ہے۔اس کا سیدھا یہ مطلب ہوا کہ کانگریس کی پالیسیوں کی مخالفت بس مخالفت برائے مخالفت تھی، حقیقت سے ان کا کوئی واسطہ نہیں تھا اور یہ کہ یہ صرف اقتدار حاصل کرنے کے آزمودہ حربے  تھے۔رواں ماہ میں کئی ایسے عدالتی فیصلے ہوئے،جو بہت دنوں سے معرضِ التوامیں تھے اور متنازع نوعیت کے تھے ۔اب اس کاکوئی تعلق موجودہ چیف جسٹس کی سبکدوشی سے ہے یا نہیں،کچھ کہا نہیں جا سکتا۔یادرہے۲؍اکتوبر کو جسٹس دیپک مشرا سبکدوش ہو جائیں گے۔ یہ تو بعد میں پتہ چلے گا کہ ملک نے ان فیصلوں کو کس حد تک قبول کیاہے۔آدھار کارڈ کے استعمال پر جو فیصلہ آیا ہے وہ مودی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے،بھلے ہی وہ کتنی بغلیں بجالیں لیکن سچ یہی ہے کہ اس فیصلے سے مودی سرکار کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔فیصلے کی رُو سے بنک اور نجی ادارے مثلاً موبائل کمپنیاںاب آدھار کارڈ کا مطالبہ نہیں کر سکتیں۔مودی حکومت چاہتی تھیں کہ خاص طور پر موبائل کمپنیوں کو یہ سہولت دی جائے ۔ کہا جاتا ہے ا س سے ایک مخصوص کمپنی کو فائدہ پہنچانا مقصود تھا۔اس مر کزی حکومت اتنا بڑا رِسک لینے کیلئے تیار ہو گئی کہ اپنے شہریوں کی پرائیویسی (نجی معلومات) سے کھلواڑ کرنے تک سے باز نہ رہی۔
مکیش امبانی کے ’’جیو لانچ‘‘ کو یاد کریں۔اگرچہ یہ ٹیلی کمیونکیشن کمپنی ریلائنس کے بانی آنجہانی دھیرو بھائی امبانی کے ۸۳؍ویں جنم دن پر شروع کی گئی تھی لیکن باضابطہ طور پر لوگوں کو جیو کا کنکشن ۵؍ستمبر ۲۰۱۶ء سے ملنا شروع ہوا اور وہ بھی ۳؍ماہ مفت۔بعد میں مزید۳؍ماہ کی توسیع بھی کی گئی۔نوٹ بندی کی تاریخ بھی یاد رکھیں ، ۸؍نومبر۲۰۱۶ء۔نوٹ بندی اور جیو کی شروعات میں لنک تو ہے جسے مناسب طور پر ماہرِ اقتصادیات واضح کر سکیں گے۔یوپی اے یعنی کانگریس کے دور میں آدھار کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی،لوگوں کے کارڈ بن رہے تھے اور انہیں ایک نمبر دیا جا رہا تھا لیکن مودی کی حکومت نے ’’آدھار ایکٹ ۲۰۱۶‘‘ کے نام سے ۱۱؍مارچ ۲۰۱۶ء کوپارلیمنٹ میں مالیاتی بل کے طور پر پاس کیا۔اس پر کوئی بحث مباحثہ نہیں ہوا اور قانون بن گیا۔اسی لئے جسٹس چندرچوڈ نے اس بل کو’ ’فراڈ‘‘ سے موسوم کیا ہے،یعنی حکومت نے آدھار ایکٹ لاکر اپنے شہریوں کے ساتھ بقول ان کے فراڈ کیا ہے۔یہ بیان یا فیصلہ قابل غور ہے اور گہرے توجہ کا متقاضی ہے۔ 
بہت سے قارئین جیو کا کنکشن لینے کیلئے جیو کے کسی دکان پر گئے ہوں گے۔یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ووڈافون،ایئر ٹیل،آئیڈیاوغیرہ کی طرح جیو کا کوئی باضابطہ اسٹور نہیں ہے۔مکیش امبانی نے اعلیٰ پیمانے پر ایک ایسا انفراسٹرکچر تیار کیا کہ اس طرح کے اسٹورز کی ضرورت ہی نہ پڑے اورایک پان کی ٹپری(گُمٹی) سے بھی جیو کا کنکشن لیا جا سکے۔اس میں ہماری مودی سرکار نے ان کی خوب مدد کی۔جیو کے افتتاح کے دوسرے دن ملک کے تمام اخبارات کے صفحۂ اول پر مودی جی خود جیو کا اشتہار کرتے نظر آئے ہی،ساتھ ہی انہوں نے صرف اور صرف جیو کی خاطر راستے ہموار کئے تاکہ’’ ڈیجٹیل انڈیا ‘‘کی آڑ میں وہ حکومتی مدد فراہم کر سکیں۔جیو کا کنکشن لینے کیلئے کسی طرح کا کوئی کاغذ یعنی دستاویز نہیں لگتا تھا، سوائے آدھار کارڈ کے۔آپ آدھار کارڈ لے کر جاتے تھے اور دکان والا بائیو میٹرک کر دیتا تھا اور اُسی وقت سِم کارڈ دے دیتا تھا اور چند ساعت میں فون کام کرنا شروع کر دیتا تھا۔نہ کوئی تصویر دینی پڑتی تھی نہ ہی کوئی رہائشی پروف اور نہ ہی کوئی دستخط۔کتنا آسان تھا اور آج بھی سہل الحصول ہے جیو کنکشن ۔ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ حکوت نے تمام شہریوں کے ڈاٹا جیو یعنی ریلائنس ( مکیش امبانی )کو سونپ دیئے تھے جبھی تو وہ کراس ویری فکیشن کر پاتے تھے اور نمبر الاٹ کر دیتے تھے۔اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک شخص مکیش امبانی کو فائدہ پہنچانے کیلئے مودی جی نے آدھار کے تعلق سے کیا کیا نہیں کیا۔باقی ان کے تمام جوازات اب پھیکے اور معدوم سے لگتے ہیں کہ اس سے پیپر لیس کام کو بڑھاوا ملے گا،کام جلدی ہوگا وغیرہ وغیرہ لیکن ایک شہری کی نجی معلومات کا کیا جس کوانہوں نے ایک نجی ادارے کو سونپ دیا؟آج بھی دوسرے ٹیلی آپریٹرس پرانے طریقوں پر ہی کاربند ہیں۔وہ تو حکومت نے اتنا شور مچایا کہ موبائل سے آدھار کو لِنک کرنا ضروری ہے اور اس طرح کتنی ہی آخری تاریخیں آئیں اور لوگو ں کو ڈرا دھمکا گئیں۔لوگوں نے جا کر اپنے آدھار سے اپنے فون کو لنک کر لیا اور یہی حالت بنک کے ساتھ بھی ہوئی ۔اب عدالت عظمیٰ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرائیوٹ ادارے ڈاٹا کو تباہ کر دیں ،کیاا یسا ممکن ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ وہ ادارے اپنے پاس پہلے ہی الگ سے فائل میں محفوظ کر لئے ہوں گے اور یہ کہنا کہ متاثرہ افراد اپنا ڈاٹا واپس لے سکتے ہیں،کچھ عجیب معلوم پڑتا ہے۔
اسی طرح رافیل کے سودے میں بھی مودی جی نے مکیش کے چھوٹے بھائی انل امبانی کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے اور اپوزیشن کا دعویٰ ہے تقریباً ۳۰؍ ہزار کروڑ روپے کا فائدہ پہنچایا گیا ہے یعنی ملکی خزانے کو ۳۰؍ہزار کروڑ روپے کا چونا لگایا گیا۔رافیل کے مقابلے میں بوفورس تو بہت چھوٹا سودا تھا لیکن راجیو گاندھی کے گلے کی ہڈی بن گیا یہاں تک کہ ان کی حکومت چلی گئی۔اس وقت’’ انڈین ایکسپریس‘‘ کے ارون شوری نے اسے منظر عام پر لانے میں ایک اہم رول ادا کیا تھا۔آج اگرچہ وہ مودی کی پالیسیوں کی مخالفت میں آئے دن کچھ نہ کچھ بولتے رہتے ہیں لیکن افسوس کہ ان کے پاس کوئی اخبار نہیں ہے اور نہ ہی فعال عملہ، ور نہ ناممکن تھا کہ رافیل سودے کا حشر بوفورس سے بھی برا ہوتا۔کانگریس اپنے طور پر کوشش کر رہی ہے لیکن اسے میڈیا کا خاطر خواہ سہارا نہیں مل رہا ہے۔جو بھی نکل کے آیا ہے وہ کانگریس کی اپنی تحقیق اور ریسرچ ہے کہ کس طرح سابق صدر فرانس اولاندو کی ’’گرل فرینڈ‘ ‘کو انیل امبانی کے ریلائنس انٹرٹینمینٹ نے فرانس میں فلم بنانے کے لئے فنڈنگ کی تھی۔وہیں سے تار جڑتے گئے اور پتہ یہ چلا کہ مودی اوراولانڈوکے بیچ جو رافیل جنگی جہازوں کی خریداری کا معاہدہ ہوا تھا، اُس وقت وہاں انل امبانی بھی موجود تھے اور وزیر اعظم ہند نے صرف اور صرف انل امبانی کی ۱۲؍روزپرانی دفاعی کمپنی کو ان کے سامنے پیش کیا تھا ۔مطلب یہ کہ فرانس کے پاس اسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔جب کہ قومی کمپنی ایچ اے ایل جسے دفاعی جہازوں اور دیگر کے بنانے میں نصف صدی سے زیادہ کا تجربہ ہے، اسے یکسر نظرانداز کر دیا گیا اور مبینہ ور یہ کسی اور نے نہیں بلکہ وزیراعظم مودی جی نے کیا تاکہ انل امبانی کو فائدہ مل سکے ۔ یہ اور اس طرح کے بہت سارے الزامات کانگریس کی جانب سے مودی پر عائد کئے جارہے ہیں۔
یہ اور بات ہے کہ شرد پوار نے مودی کی نیت پر شک کرنے پر اپنا اعتراض درج کیا ہے جس سے ہوش مند لوگوں کو یہ شبہ ہونے لگا ہے کہ کہیں شردپوار کی انیل امبانی سے ملاقات تو نہیں ہو گئی ہے۔ طارق انور کی شرد پوار کی پارٹی این سی پی سے علاحدگی ،اس شبہ کو یقین میںبھی بدل رہی ہے۔بی جے پی کا اہم ایجنڈا اپوزیشن کی صفوں میں دراڑ یںپیدا کرنا ہے تاکہ وہ آسانی سے الیکشن جیت سکے ، آہستہ آہستہ اس میں وہ کامیاب بھی ہو رہی ہے۔شرد پوار اورمایاوتی جیسے لوگ اس میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں،اس کے تعلق سے پہلے بھی لکھا جا چکا ہے۔
خیر وزیراعظم مودی جی کی چھپن انچ والی چھاتی کی اصلیت اب ہمارے بے نقاب ہے۔ان کے حامی اور ترجمان کتنا بھی اُن کا دفاع کیوں نہ کرتے پھریں ، یہ بات عام آدمی کے سمجھ میں آنے لگی ہے کہ مودی سرکار میں کس طرح اپنے خاص لوگوں کو وہ فائدہ پہنچا یا جارہاہے ۔ان چہیتوں میں ۲؍ امبانی اور ایک اڈانی سرِ فہرست ہے۔امبانیوں کی باتیںتو آگے آرہی ہیں اور جلد ہی اڈانی کی بھی کھلنے والی ہے کیونکہ اِن ۴؍ برسوں میں بہت کچھ ہوا ہے جو ۷۰؍برسوں میں بھی نہیں ہوا ہے۔ 
 نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں  
رابطہ9833999883