آج کا سسرال اتنا ظالم کیوں؟

عصر حاضر میں سسرال والے ایک بہو پر خدمت کے نام پر اس قدر استحصال کرتے ہیں جو انسانیت کے ساتھ ساتھ شر عی طور بھی جائزنہیںہے۔حالانکہ اسلامی نقطہ نظر سے بہو پر سسرال والوں کی خدمت لازم نہیں ہے ہاں اب اگر اخلاقی طور پر اپنے سسرــ،ساس،دیور،نند اور گھر کے باقی افراد کی دیکھ بال کریں تویہ اُس کی مہربانی ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑا کرم ہوگا لیکن اس کے باوجود بہو سے ایک تو باندی کی طرح گھر کے سارے کام لئے جاتے ہیں اور دوسری طرف حقوق کے مطالبے کے نام پر اُس پر جس قدر ظلم واستحصال کیاجاتا ہے جو ناقابل برداشت اوروحشیانہ عمل ہے۔سسرال والے بجائے اس کے کہ ایک بہوکے کام کی حوصلہ افزائی کریںاُلٹا اُس پر خوامخواہ تنقید کرنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے ایک بہو ہی نہیں بلکہ اُ س کے پیٹ میں پل رہا بچہ بھی نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔اس طرح  سے وہ چوری چھپ کے دیواروں کے ساتھ لگ کر خون کے آنسو بہا دیتی ہے جن کو سننے والا سوائے ا ﷲکے کوئی نہیں ہوتا۔ ساس کی اپنی سگی بیٹی کا معمولی درد اُس کی راتوں کی نیند تک حرام کر دیتی ہے لیکن بدقسمتی سے اپنی بہو پر درد پر درد دے کر وہ اپنے اس فعل سے بعض تو کیا اس کا گمان تک بھی نہیں کرتی ہے۔ ایک ساس جس طریقے سے اپنی لاڈلی بیٹی سے پیش آتی ہے ،اُسے اپنے پیار کا اظہار کرتی ہے ،اُس کے دُکھ کو اپنا دُکھ سمجھ کر اُسمیں برابر کی شریک ہوجاتی ہے ٹھیک اِسی طرح اگر یہ رویہ بہو کے ساتھ بھی روا رکھا جائے تو دُنیا ہی میں جنت کے گھر کا نظارہ مل جاتا۔ باوجود اسکے اُسے اپنی نوکرانی سمجھتی ہے اور اسے اپنے حقوق جتا دیتی ہے حالانکہ بیوی پر اُس کے خاوند کے علاوہ کسی کے حقوق نہیںہے۔ آج کے سسرال والے اتنے ظالم بن گئے ہیں اور بیٹیوں کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے گھروں کے گھر تباہ و برباد ہوگئے ہیں ۔ کسی جنگل،مکان،دوکان، وغیرہ کے اندر آگ لگ جائے تو ممکن ہے کہ اُسے پانی لگا کر بُجھایا جاسکتا ہے لیکن سسرال والوں کا اُن کی بہو پر ظلم وتشدد ایک ایسی آگ ہے جو پورے معاشرے کو راکھ کے ڈھیر بنا دیتی ہے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے ’’حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیںکہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اﷲ تعلی جن گھر والوں کو نرمی کی توفیق دیتے ہیں انہیں نرمی کے ذریعے نفع پہنچاتے ہیں اور جن گھر والوں کو نرمی سے محروم رکھتے ہیں انہیں اس کے ذریعے نقصان پہنچاتے ہیں‘‘( بیہقی،مشکوت)حوالہ منتخب احادیث صفحہ نمبر ۴۵۷
 موجودہ سماج کے سسرال والے اتنے بے ضمیربن گئے ہیں کہ ایک بہوکے حقوق پامال کرتے کرتے اتنے سنگ دل بن جاتے ہیں کہ کبھی انہیں اپنی غلطی کا احساس تک بھی نہیں ہوتا۔صحابہؓ کے زمانے میں جب کوئی کسی کی بیٹی کو بہو بنا کر اپنے گھرلے آتا تو ایسا ماحول اور معاشرہ بنا تے تھے کہ بیٹی کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ باپ کے گھر میں ہے یا میکے میں۔ لیکن آج کا ماحول اس قدر خرابی کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے کہ جس طرح زمانے جہالیت میں بیٹیوں کو درگور کیا جاتا تھا تو ٹھیک اُسی طرح آج کے سسرال والوں نے بھی دوسروں کی بیٹیوں کو بھی زندہ درگور کرنے کا بیڑا اُٹھا یا ہوا ہے۔یہاںتک نوبت آگئی ہے کہ اگر بہو نے بیٹے کے بجائے بیٹی کو جنم دیا ہے تو اُسی وقت سے سسرال والوں کی طرف سے طلاق کی دھمکیاں سننے کو ملتی ہیں۔
آخر کار کون اس درد کو محسوس کرتاہے جس درد میں ہماری بہو بیٹیاں اس وقت جوجھ رہی ہیں  بڑی بے رحمی ا ور بے د ردی سے اپنی جان گنواں بیٹھتی ہیںہمارا سماج سب چپ چھاپ بیٹھے اس ظلم کا تماشا دیکھتا ہے۔حالانکہ کل کو قیامت کے دن ہمیںاﷲکے سامنے کھڑا ہو کر اس کاحساب دینا  پڑے گا اور ظلم پر چپ رہنے والے بھی برابر کے شریک ہیں۔ حدیث میں آیا ہے : ’’حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ایک درخت مسلمانوں کو تکلیف دیتا تھا ۔ایک شخص نے آکر اسے کاٹ دیا تو وہ (اس عمل کی وجہ سے) جنت میں داخل ہوگیا‘‘( مسلم )حوالہ منتخب احادیث صفحہ نمبر ۴۴۲
المختصر یہ ہے کہ اس میں بعض اوقات بہو اور سسرال والے کہیں نہ کہیں دونوں برابر کے شریک ہوتے ہیں اور دونوں کو چاہئے کہ اپنے اخلاق کو درست کریں ۔یہی ایک واحد راستہ ہے جس کے ذریعے سے گھر کے حالات ہی نہیں بلکہ پورے قوم کے حالات بدل سکتے ہیں ۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا،عزت کرنا ،درگذر کرنا،پردہ کرنا وغیرہ آجکل کے معاشرہ میں کہیں بھی نہیں ملتا۔یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ میاں بیوی ،اولااور والدین ،ہمسا یہ ا ور ہمسایہ،نند اور بہو، ساس اور بہو وغیرہ کے اختلافات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔اس لئے بہو کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے سسرال والوں کی قدر کرے اور یہ نہ سوچے کہ میرے اوپر میرے شوہر کے سوا کسی اور کے حقوق نہیں ہیں ۔وہ صحیح ہے ! لیکن اخلاقیات و انسانیت کا تقاضہ ہے کہ اسے سسرال والوں کی خدمت کرنی چاہئے بلکہ وہ اپنے والدین کی طرح سسر اور ساس کی عزت کرے ،اُن کے ساتھ اخلاق سے پیش آئے اوراپنے اندر قوت برداشت کا مادہ بڑھائے تاکہ وہ اپنے گھر کو جنت بنا سکے ۔یہ سب تبھی ممکن ہے جب ہم گھر کے سارے ماحول کو اخلاقیات سے ہمکنار کر یں گے ۔ اس طرح سے اللہ کے فضل سے ہمارے گھروں کے فتنوں کے ساتھ ساتھ دلوں کے میل بھی دھل جائیں گے ۔
ای میل۔[email protected]