آتما

ایک عرصہ بعد میرے دل میں مچھلی پکڑ نے کے شوق نے انگڑائی لی اور پوری تیاری کر کے میں صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی خوشی میں جھومتے ہوئے دریا کنارے اپنی پسندیدہ جگہ پر پہنچ گیا۔صبح کی صاف وشفاف ہوائیں ،پرندوں کے سریلے نغمے اور دور دور تک تنہائی ہی تنہائی،ہر چیز میں اللہ کے وجود کا ظہور نمایاں دکھائی دیتا تھا ۔کچھ دیر تک ادھر اُدھر کا جائیزہ لینے اور اس دل موہ لینے والے پر سوز ماحول سے لطف اندوز ہونے کے بعدمیں نے کانٹا دریا میںڈال دیا اورمچھلی پھنسنے کے انتظار میں سرور کی کیفیت میںخاموشی سے ایک چنار کے قد آور درخت کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھ گیا ۔کچھ دیر بعد ہی دریا کے پانیوں پر تیرتی ہوئی ایک کشتی آگئی ،جس میں ایک اکیلی خاتون، جو چہرے بشر ے باوقا رلگ رہی تھی، سوارتھی ،میرے نزدیک پہنچ کر اس نے کشتی روکی اور کشتی سے اُتر تے ہوئے گویا ہوئی۔۔۔۔
’’ ارے کیوں اپنا وقت ضایع کر رہے ہو ؟‘‘                                 
’’کیوں۔۔۔۔۔۔؟‘‘ 
’’اس دریا میں اب مچھلیاں کہاں ،اِسے تو آپ لوگوں نے بانجھ بنادیا ہے‘‘ ۔
اس نے سرد لہجے میں کہا اورمجھ سے تھوڑی دوری پر بیٹھ کر اُداسی کی حالت میںخلامیں گھورنے لگی ۔میں نے اس کی بات پر زیادہ توجہ نہیں دی لیکن اس کی آمد سے خوش ضرور ہوا کیوں کہ اس سنسان جگہ پر کوئی آتا جاتا بھی نہیں تھا ۔
’’کام کیا کر رہے ہو؟‘‘
کچھ لمحوں بعد اس نے پوچھا ۔
’’کہانی کار ہوں اور کہانیاں لکھ کر اُنہیں کہانیوں کے بازار میں سجاتا ہوں‘‘ ۔
میں نے مختصر سا جواب دیا اور توجہ سے کانٹے کی طرف دیکھنے لگا کیوں کہ کوئی شئے دیرے سے کانٹے کو کھینچنے لگی تھی۔
’’ہا ۔۔۔ہا ۔۔۔ہا ۔۔۔۔۔‘‘
کچھ لمحوں بعد دفعتاًنسوانی آواز میں زور زور سے کھلکھلاکر ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں ۔
’’آگئی بے چاری‘‘ ۔
خاتون نے اداس لہجے میں کہا ۔
’’کون آگئی ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’زخمی آتما‘‘ ۔
’’آتما۔۔۔۔۔۔؟‘‘ 
آتما کا نام سن کر میرے پورے وجود میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی اور میں نے یہاں سے جانے کا ارادہ کرکیا ۔
’’ہاں ۔۔۔۔۔۔ تمہیں معلوم نہیں کہ سالہا سال سے جہلم کے کناروں پر کوئی زخمی آتما گھومتی ہے ،لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ،وہ کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچاتی ہے‘‘۔
میرے چہرے پر خوف کی پرچھائیاں دیکھ کر اس نے کہا تو میری گھبراہٹ کسی حد تک دور ہوگئی اور میں پھر سے کانٹے کی طرف متوجہ ہوگیا۔
کچھ لمحوں بعد خوب صورت نسوانی آواز میں گانے کی آوازیں آنے لگیں ۔
’’ ماں جی ۔۔۔۔یہ گانے کی آوازیں کہاں سے آرہیں ہیں‘‘ ۔
’’ارےبولانا ۔۔۔۔۔۔آتما ۔۔۔۔۔‘‘۔
’’لیکن یہ تو حبہ خاتون کا کلام ہے ‘‘۔
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔۔حبہ خاتوں اسی دریا پر آکر اپنا دکھڑا سنایاکرتی تھی ۔۔۔۔۔ للؔ عارفہ کے واکھ یہیں گنگنائے جاتے تھے ۔۔۔۔۔۔ رسولؔ میر اپنی محبوبائوں کی شکایت اسی دریا سے کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔ ۔ مہجورؔ اسی وتستاکی آغوش میں بیٹھ کر اپنے ہجر کی داستانیں دہراتا تھا ۔۔۔۔۔۔ آزادؔ اپنے پیار کے نغمے اسی دریاکی گود میں بیٹھ کر تر تیب دیتا تھا ۔۔۔۔۔۔ ’بہارستان شاہی‘ بھی یہیں ایک ڈونگے میں لکھی گئی تھی ۔اسی دریاکی مجلس میں بیٹھ کر رشیوں ،منیوںنے تپسیا کی، صوفیوں نے وضائف دہر ائے ،کوئیوں نے کویتائیںکہیں اور شعرا نے دل کے تاروں کو چھیڑنے والے رسیلے نغنے تخلیق کئے ۔۔۔۔۔۔ بہت سے کہانی کار ،شعراء اور مصوّر یہاں آکر لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے خدا داد فن کا مظاہرہ بھی کرتے رہے‘‘ ۔
اس نے بڑے ہی پر جوش اور فلسفیانہ انداز میں کہا اور آنکھیں بند کرکے کچھ سوچنے لگی جب کہ میں گنگ ہو کر رہ گیا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ آخر یہ خاتوں، جسے میں مچھیرن سمجھ بیٹھا تھا ، کون ہے؟ جو اس کے پاس اتنی جانکاری ہے ۔کچھ وقفے کے بعد ہی تیز ہوائیں چلنے لگیں اور دریا سے پانی کی لہریں اٹھنے لگیں۔جس کے ساتھ ہی مجھے لگا کہ کوئی بھاری چیز میرے سر سے ٹکرائی اور میرا سر بہت بھاری ہوگیا۔۔
’’ماں جی ۔۔۔۔۔۔ ماں جی ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
میں دونوں ہاتھوں میں اپنا سر پکڑ کر خاتون کو پکا رنے لگا۔
’’یہ اب نہیں بولے گی بیٹا ‘‘۔
ایک شفقت بھری نسوانی آواز میرے سماعتوں سے ٹکرائی ۔
’’کیوں نہیں بولے گی ؟‘‘
میں نے آنکھیں کھولتے ہوئے ادھر اُدھر دیکھا تووہاں کوئی نہیں تھا اور وہ خاتون بے سدھ پڑی تھی ۔
’’مجھے اب یہاں سے چلنا چاہئے ،لیکن میرا سر اتنا بھاری کیوں ہو گیا ؟‘‘
’’میرے ہونٹ خشک ہوکر پھڑ پھڑانے لگے اور حفظِ ماتقدم کے طور پر میں دل ہی دل میں اللہ کے پاک کلمات کا ورد کرنے لگا‘‘۔
’’گھبرائو نہیں بیٹا،تمہیں کچھ نہیں ہوا ہے یہ میں تمہارے سر پر سوار ہوں‘‘ ۔
’’کون ہو آپ ؟مجھے جانے دو پلیزـــ۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔
’’شوق سے جائو بیٹا لیکن میری کہانی نہیں لکھوگے ؟‘‘
اس نے درد میں ڈوبے لہجے میں کہا ۔
’’آپ کی کہانی،لیکن ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
میں جان چھڑانے کے لئے سوچ میں پڑتے ہوئے سامنے دِکھ رہی پہاڑی کی طرف دیکھنے لگا ۔
’’وہاں کیا دیکھ رہے ہو ؟ اس جگہ کو سلیمان ٹینگ کہتے ہیں ،معلوم ہے کیوں؟‘‘
’’جی نہیںــــ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’توسنو،تب اس فردوس بریں پر پانڈو راج کرتے تھے ،نہیں نہیں یہ راجہ نریندر کے دور کی بات ہے ’’تخت سلیمانی‘‘ اُڑتے اُڑتے آیا اور پورے کشمیر کا چکر لگا نے کے بعد اس جگہ پر بیٹھ گیا اور راجہ نریندر خود چل کر اس تخت پر بیٹھے بزرگ سے ملنے گیا، اسی لئے یہ جگہ سلیمان ٹینگ کے نام سے مشہور ہے ۔اس کے بعد بدھ مت کا دور آیا اور راجہ اشوک تخت پر براجمان ہوگیا ۔بدھ دور یہاں تقریباٍ چودہ سو سال تک رہا ،یہ دور علم و ادب کے حوالے سے سنہری دور رہا ہے ۔اس دور میں یہاں دنیا بھر سے طالب علم آکر تعلیم حاصل کرتے تھے اوراس دور میں یہاں دنیا بھر کے بودھ عالموں کی علمی کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔۔۔۔۔‘َ ۔
’’کہانی تو بڑی دلچسپ ہے‘‘۔
میں دل ہی دل میں سوچنے لگا ۔
’’اس کے بعد کیا ہوا ؟‘‘
میں نے بے تابی سے پوچھا ۔
’’راجہ رام دیو کے بعد راجہ للتا دتیہ بھی بڑا راجہ گزرا ہے ۔ ارے ہاں یہاں میری کئی بیٹیوں نے بھی راج پاٹھ چلایا ہے ۔ رانی جشو متی ،پھر دید رانی اور پھر کوٹہ رانی یہاں کے شاہی تخت پر براجمان رہیں۔ رنچن شا ہ یہاں کا راجہ بنا اور اسی دوران حضرت بلبل شاہ ؒ نے بھی وارد کشمیر ہو کر دین اسلام کے بیج بونا شروع کئے اور دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ راجہ رنچن شاہ بھی ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔سلاطین شہمیری ارض وطن کے وہ خوش قسمت بادشاہ گزرے ہیں جن کے دور میں حضرت میر سید علی ہمدانی  ؒ (جہیں عرف عام میں شاہ ہمدان کہتے ہیں) تبلیغ دین کی خاطر کشمیر تشریف لائے۔سلطان شہاب الدین اور سلطان قطب الدین وہ خوش قسمت بادشاہ گزرے ہیں جنہیں شاہ ہمدان ؒسے روبرو ملنے کی سعادت نصیب ہوئی اور حضرت کی خدمت کا موقعہ ملا ہے۔ پھر زین العابدین بڈ شاہ کا یاد گار دور شروع ہوا اور ہر طرف ترقی اور خوشحالی کے مدھر گیت بجنے لگے ۔ یہی وہ بڑا بادشاہ گزرا ہے جو کئی بار سادات کی محفلوں میں آتا جاتا رہا اور اس کے دور میں علمدار کشمیر حضرت شیخ نور الدین نورانی رحمت اللہ کی فیض وبرکات جاری و ساری رہیں۔ میں حبہ خاتون اور یوسف شاہ چک کی محبت کی بھی عینی شاہدہوں ۔مغلوں نے اس بہشت نما وادی پر قبضہ کرکے دھوکے سے یوسف شاہ چک گرفتار کر کے جلا وطن کر دیا ۔اپنے محبوب کی جدائی میں حبہ خاتون کے وہ مدھر مدھر درد بھرے گیت اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں ۔مغلوں کے طویل دور کے بعد افغانی پھر سکھ اس بے نواع قوم کے حکمران بن کر عوام کی چھاتیوں پر مونگ دلتے رہے‘‘ ۔
وہ خاموش ہوگئی تو میں جیسے پھٹ پڑا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’بیٹا یہ ہزاروں سالوں پر محیط بہت لمبی کہانی ہے میں کتنا کہوں گی اور تم کتنا سنو گے ،مختصر الفاظ میں یہ کہوں گی کہ مغلوں کے بعد شاطر انگریز آیا  جس نے ’’بعینامہ امرتسر‘‘ کے تحت کشمیری عوام کو فی کس سات روپیہ کے حساب سے پچھتھرلاکھ نانک شاہی میں ڈوگروں کو بیچ دیا۔ڈوگرہ شاہی کے طویل دور کے بعد اگر چہ ایک نیا دور آگیا لیکن میرا وجود پھر بھی خون کی ندیوں میں غوطہ زن رہااور میں اب بھی بے انصافی کی تپش میں جل رہی ہوں ۔ بہت نڈھال اور تکلیف میں ہوں۔۔۔۔۔‘‘۔
کہتے ہوئے اس کی سسکیاں بندھ گئیں اور وہ خاموش ہوگئی ۔
’’آگے کیا ہوا؟‘‘
میں نے بے تابی سے پوچھا ۔
’’ہر دور میں حالات کے بے رحم تھپیڑوں نے میرے وجود کو بے شمار گہرے گھائو دیئے اور میرے دل اور جسم کا درد بڑھتا ہی گیا‘‘۔ 
’’مگر یہ گھائو کس نے اور کیوںدئے؟‘‘
میں نے حیرانی سے پوچھا ۔ 
’’کچھ اپنوں کی بے اعتنائیاں اور کج ادائیاں۔۔۔۔ کچھ غیروں کے ظلم وستم ۔
’’مطلب ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’مطلب یہ کہ ۔ تم لوگوں نے بھی مجھے نہیں بخشا۔ میری افادیت کونظر انداز کرکے میری نا قدری کی ہے ۔ اپنی عیش کوشی کے سامان کے لئے میرے پاک و صاف وجود کو غلاظت کا ڈھیر بنادیا ہے اور اپنی خود غرضیوں کی وجہ سے میرے سینے کو چھلنی کرکے میرے انگ انگ کو دائو پر لگا دیا ہے‘‘ ۔ 
اس نے کہانی کا رخ موڑتے ہوئے کہا تو میں نے پوچھ لیا ۔
’’پر آپ ہو کون؟‘‘ 
’’میںوتستا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔جسے تم لوگ جہلم اور ویتھ کے نام سے بھی پکارتے ہو ۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ‘‘ ۔
اس نے کہا، جس کے ساتھ ہی ہوا کا ایک لطیف جھونکا مجھ سے ٹکرایا اورمیرا بھاری سر بالکل ہلکا ہوگیا۔ میں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو وہ خاتون، جو میرے سامنے بے ہوش پڑی تھی ،کشتی میں جارہی تھی ۔   
٭٭٭ 
 اجس بانڈی پورہ (193502 ) کشمیر
موبائل نمبر؛9906526432