سبزار احمد بٹ
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔اسلام ایک مکمل دستور ہے ۔عبادات، معاشرت، تجارت، شادی بیاہ، ازدواجی زندگی غرض زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہے جہاں اسلام ہماری رہنمائی نہ کرتا ہو ۔چھوٹے سے چھوٹے کام سے لیکر بڑے سے بڑے کام تک اسلام میں مکمل اصول مرتب کئے ہوئے ہیں اور یہ ایک فطری دین ہے، یہ اصول کہیں پر بھی عقل و شعور سے نہیں ٹکراتے۔اسلام کے نہ ماننے والے بھی عقلی اور شعوری طور پر ان اصولوں کے قائل ہیں۔ایک مسلمان کو کیسے خوشی اور کیسے غم کا اظہار کرنا ہے ،ان باتوں کے لیے بھی واضح اور جامع اصول مرتب کئے گئے ہیں۔ دونوں صورتوں میں اعتدال سے کام لینے کی تلقین کی گئی ہے، کسی غم یا مصیبت کے وقت صبر و تحمیل سے کام لینا چاہئے اور اس بات کا پختہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔اور یہ بھی یقین ہونا چاہئے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔اس لیے کسی دکھ یا مصیبت کے وقت نا امیدی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ اسی طرح سے خوشی کے موقع پر بھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے کہ انسان تکبر کا شکار ہو جائے اور اللہ کو ناراض کر بیٹھے ۔خوشی کے وقت بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور یہی گمان کرنا چاہئے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔لہٰذا اس پر اِترانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
عیدالفطر اور عیدالاضحی مسلمانوں کے دو اہم تہوار ہیں اور ان دونوں تہواروں کے پیچھے ایک مکمل دلیل ہے۔دونوں تہوار جہاں سادگی اور متانت سے منانے کی تلقین کی گئی ہے وہیں اللہ کا شکر ادا کرنے، ایک دوسرے کو مبارکباد دینے، غریبوں اور مسکینوں کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔لیکن افسوس صد افسوس ان دونوں مقدس دنوں پر قوم کے بچوں اور نوجوانوں کو آتش بازیاں کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جو کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ آتش بازی کرنا، پٹاخے پھوڑنا سراسر ایک غیر اسلامی، غیر شعوری اور غیر انسانی فعل ہے۔آگ ویسے بھی انسان کا ازلی دشمن ہے اور یہ شیطان کا ٹھکانہ ہے۔اللہ نے آگ سے جہنم بنائی ہے جہاں اللہ کے نافرمان بندوں کو اللہ سزا دے گا۔آگ سے سزا دینے کا حق بھی اللہ نے اپنے سوا کسی کو نہیں دیا ہے۔آگ سے مستفید ہونا تو ٹھیک ہے لیکن غیر ضروری طور پر آگ اور اس سے بنی ہوئی چیزوں سے انسان کو دور ہی رہنا چاہئے ۔آجکل کے بچے آتش بازی اور پٹاخے جلانے کے عمل کی اپنا مشغلہ قرار دیتے ہیں لیکن ایسے مشغلے کا کیا فائدہ ہے ،جس سے دوسروں کو خواہ مخواہ تکلیف پہنچے۔ہم ایک خیر خواہ امت میں سے ہیں ہمارا کام دوسروں کو سہولیت اور آرام پہنچانا ہے تکلیف نہیں ۔آتش بازی سے گھروں میں بیٹھےبزرگ، بیمار، طالب علم اور معصوم بچے دہَل جاتے ہیں اور انہیں ذہنی کوفت ہوتی ہے۔ اس طرح سے ہمارا یہ مشغلہ دوسروں کی تکلیف کا باعث بن جاتا ہے اور ہم گناہ کے مرتکب ہوجاتے ہیں، اتنا ہی نہیں آتش بازی سے راہ گیروں کو بھی سخت تکلیف پہنچتی ہے اور کبھی کبھی آتش بازی سے آگ جیسی ہولناک وارداتیں رونما ہوتی ہیں اور پل بھر میں بستیوں کی بستیاں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوجاتی ہیں بلکہ کسی کے اپاہج ہونے اور جان چلی جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ آتش بازی اور پٹاخے پھوڑنے سے قوت سماعت پر بھی برا اثر پڑتا ہے، اس طرح سے ہماری معمولی سی بھول کے لیے بہت بڑا حادثہ پیش آسکتا ہے اور ہمیں عمر بھر پچھتانا پڑ سکتا ہے۔ بقولِ شاعر؎
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی اور صدیوں نے سزا پائی
ان مقدس موقعوں پر اب آتش بازی کا رجحان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ جیسے خدا نخواستہ ان موقعوں پر آتش بازی کی تلقین کی گئی ہو۔اس طرح سے اس عمل سے اسلام کی ساخت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ ہم کس کس سے کہتے پھریں گے کہ آتش بازی جیسا عمل بالکل اسلامی تعلیمات کے منافی اور برعکس عمل ہے۔دراصل اس قوم کے بچے اور نوجوان دوسری قوموں سے مشابہت کرنے لگے ہیں اور انہیں اس بات کا شاید علم نہیں ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو جس قوم کے ساتھ مشابہت کرے گا وہ اسی قوم میں سے اٹھایا جائے گا۔اللہ ہم سب پررحم فرمائے۔سوال یہ ہے کہ اس عمل کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔اس کے لیے بہت سارے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے والدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ بچوں کو اس طرح کا عمل نہ کرنے دیں ۔بچوں کو سمجھائیں کہ ایسا کرنے سے جہاں بہت سارے نقصانات ہیں اور ہاں یہ پیسوں کا زیاں بھی ہے اور اسلام نے فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی کہا ہے۔بچوں کو عیدی دی جانی چاہئے لیکن پھر نظر بھی رکھنی چاہئے کہ بچے یہ پیسہ کہاں صرف
کرتے ہیں۔قوم کے اساتذہ کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے طالب علموں کو مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم بھی دے دیا کریں اور انہیں آتش بازی جیسے غیر انسانی عمل سے ذہنی طور پر دور رہنے کے لیے تیار کریں بلکہ ان میں غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنے کا جذبہ بچپن سے ہی پروان چڑھانے کی کوشش کریں۔ ہم سب جانتے کہ بچے اساتذہ کی بات کو زیادہ مانتے ہیں بہ نسبت کسی اور کی باتوں کے۔ائمہ کرام کا بھی فرض بنتا ہے کہ ان دونوں تہواروں کے پیش تر اس بات کی وضاحت کریں کہ آتش بازی کرنا کتنا بڑا گنا ہے اور اس کے کیا بھیانک اور خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں ۔اس عمل کو معمولی اور بچوں کا مشغلہ جان کر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے بلکہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔گاؤں اور محلوں و قصبوں کے ذی شعور اور ذمہ دار حضرات کو بھی اس عمل کو روکنے کے لیے حکمت عملی تیار کر لینی چاہیے۔ دیکھا جائے تو سب سے بڑی ذمہ داری دکاندار حضرات پر عائد ہوتی ہے، کچھ دکاندار حضرات اپنے ذاتی اور حقیر مقاصد کے لیے اپنی دکانوں پر پٹاخے دستیاب رکھتے ہیں، جس سے یہ غیر انسانی عمل پروان چڑھتا ہے۔اگر دکاندار حضرات تھوڑی سے قربانی دیتے اور یہ پٹاخے اپنی دکانوں پر نہیں رکھتے تو اس عمل کا اگر چہ مکمل طور ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن کم سے کم اس میں کمی ضرور آتی۔میری بات اگر کسی بھی طرح سے بچوں تک پہنچ جاتی ہے تو میں یہی کہنا چاہوں گا کہ پیارے بچو اور قوم کے نوجوانو! آپ کو شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ نے شاہین کا خطاب دیا تھا اور شاہین کو ہرگز یہ شوبا نہیں دیتا کہ وہ آتش بازی جیسا حقیر عمل انجام دے ۔اس سے لوگوں کو خواہ مخواہ تکلیف پہنچتی ہے اور ہمارا دین بھی بدنام ہوجاتا ہے ،اتنا ہی نہیں ہمارے والدین اور اساتذہ کی تربیت پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ہمیں خود بھی ان چیزوں سے دور رہنا چاہئے اور دوسروں کو بھی اس عمل سے دور رہنے کی تلقین کی جانی چاہئے تاکہ ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ہم نے اپنے بچوں کی بہترین تربیت کی ہے۔میں ہرگز یہ نہیں کہتا ہوں کہ قوم کے سبھی بچے آتش بازی کرتے ہیں، نہیں بالکل نہیں ۔لیکن چند ایک کی وجہ سے سب کی ساخت داؤ پر لگ جاتی ہے۔مجھے پوری امید ہے کہ میری قوم کے بچے اس عمل سے اجتناب کریں گے کیونکہ میری قوم کی زمین بنجر نہیں بلکہ زرخیز ہے ،بس تھوڑا سا نم ہونے کی ضرورت ہے۔ بقول شاعر؎
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
[email protected]