آتا ہے ابھی دیکھئےکیا کیا مرے آگے

 اپنے ملک کشمیر میں، کہتے ہیں ، بھلے ہی روٹی کپڑا اور مکان نہ ہو لیکن افواہ سازی اور دھمال ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر زندگانی ہیچ ہے بھائی۔افواہ تو نائی کی دوکان اور ہریسے کی خوشبو سے اُبھرتی ہے،  پھر اہل کاشمر کیا کیا کہانیاں گڑھتے ہیں توبہ توبہ ۔ جب سے انڈیا ڈیجیٹل کی سولی چڑھ گیا تب سے تو افواہ سازی میں نیا جوش اور ولولہ رچ بس گیا۔ابھی صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیلی راجدھانی کا ا علان کر ہی دیا تھا بلکہ حکم نامے کی سیاہی خشک بھی نہ ہوئی تھی کہ افواہ پھیلی ٹرمپ کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے ۔مانا کہ بعض ماہرین نے اس بات کا اندیشہ پہلے بھی ظاہر کیا تھا لیکن اہل کاشمر نے اس کا ثبوت ڈیجیٹل موڑ میں سامنے رکھ دیا۔ٹرمپ کو ہاتھ میں بلا لئے نجانے کیا کیا توڑتے دکھایا گیا۔ ایسا ویڈیو دیکھکر لگتا ہے کہ ٹرمپ نے ملک کشمیر کا ٹاس پٹاس فورس جوائن کردیا ہے اور اند ھا دھند پولیس ڈنڈے کی مانند بلا چلا رہا ہے ۔کسی کا سر پھوڑ رہا ہے ، کہیں کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ رہے ہیں ، ٹی وی چکنا چور ہو رہا ہے ، کمپیوٹر کی کرچیاں پھیل رہی ہیں ۔ دروغ بر گردن راوی جس نے ڈیجیٹل ثبوت کے ساتھ ٹرمپ کا میڈیکل ریکارڈ پیش کیا اور یہ بھی وہ ملک کشمیر کے ٹاس پٹاس فورس میں نوکری پا گیا ہے۔خیر افواہ سازی تو عوام کرتے ہیں لیکن دھمال کا انتظام سرکار کرتی ہے ۔سرکار بھلے ہل والوں کی ہو یا قلم دوات والوں کی دھمال تو دھمال ہے ۔اس میں اچھلم کودم ضروری ہے ۔ بانوئے کشمیر تو اوڑھنی پھیلا کر التجا کرتی ہے کہ بھائی لوگواپنی بھاجی کی عزت رکھو اور پنچایت ممبر ی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو۔کسے نہیں معلوم الیکشن میں اچھل کود سب سے مزیدار ہوتی ہے۔گاڑی ہے ، چائے کھانا ہے بلکہ ناٹا بتہ ہے ۔ پھر سنا ہے کہ روز کے چار پانچ سو تو ہیں ہی۔وہ جو بات پھیلائی گئی تھی کہ سنگ بازی کے بھی چار پانچ سو روزانہ ملتے ہیں اسلئے تمام آزادی نوازوں کو دلی بلا بلا کر ہاتھ میں ہتھکڑی پائوں میں بیڑی ڈالی گئی تو پھر بھلا ان پر الزام بے سود ہوگا۔ایسے میں قلم کنول مخلوط سرکار نے دھمال کا  آزمایا طریقہ نکال لیا۔رائے شماری سے تو سرکار یں ڈرتی ہیں لیکن پنچایت انتخاب کا بہانہ اچھا ڈھونڈ ا ۔ دھمال کا تازہ ترین پیک پنچایت الیکشن کی صورت میںبانوئے کشمیر نے متعارف کرایا یعنی اس فریش دھمال کی برانڈ ایمبیسیڈر میڈم بنی۔ہم تو سرکار پر تنقید بھی نہیں کر سکتے کہ وہ جو اسلام آباد والی پارلیمان سیٹ خالی پڑی ہے، اس کا کیا ہوا ۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس کا امیدوار ایڈجسٹ ہو گیا کہ اسے سیاسی نوکری حاصل ہو ہی گئی پھر بھلا سیٹ کا کیا؟پھر جو رشتہ دار نے کرسی چھوڑی اس کے لئے تو وقف بورڈ کی وائس چیرمین کی نشست پہلے ہی انتظاری موڑ میں ڈال دی گئی ہے یعنی سانپ بھی مرا لاٹھی بھی نہ ٹوٹی ۔لاٹھی ٹوٹنی بھی نہ چاہئے کہ یہی تو عقل نما ہے اور اہل کاشمر کو اسی کے ذریعے راہ راست پر ہانکا جاتا ہے اور جب لاٹھی ٹوٹتی ہے تو غریب کشمیری کے جسم پر بلکہ وہاں رنگ برنگے نشانات ابھر آتے ہیں تاکہ دور سے ہی پہچان میں آ جائے کہ تو ملک کشمیر کا پشتینی باشندہ ہے جس کے حقوق کے محافظ کبھی ہل والے بنتے ہیں اور کبھی قلم بردار ۔حالانکہ ہر بار اسے دار ہی چڑھایا جاتا ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ قلم بردار سرکار کو اہل کاشمر کی صحت کی فکر ہے جبھی تو موسم سرما یعنی چلہ خورد اور چلہ بچہ میں الیکشن کی تیاری ہے ۔کانگڑی سے نجات ملے گی، سیاسی اچھل کو دمیں خون کا دورہ تیز ہوگا ، چربی میں اضافہ کم ہوگا اور جو اچھل کود میں حصہ نہ لیں ان کے لئے ایک دوسرے پر وار کرنے کا ہتھیار ساتھ رہے گا کیونکہ کونڈل ہے کانگڑی کا قومی نشان ہمارا۔
ہتھیاروں کی بات چلی تو قلم کنول سرکار نے اپنے طور بھی نیا میزائل چلایا ، اس کا نام ایس آر او ۵۲۵ ہے اور یہ حال حال ہی محکمہ جنرل ایڈمنسٹریشن میں تیار ہوا ہے ۔اس کا لانچنگ پیڈ جموں سیکٹریٹ ہے اور اس کی لانچنگ کا مشاہدہ سیاسی اور انتظامی صاحبان اقتدار نے کیا ۔اس کا ہدف ملازمین کا قلم ، زبان اور ہاتھ ہے کہ جس نے جو چلایا میزایل وہیں نشانہ بنائے گا ۔کیونکہ ملازمین کی زبان قلم پر بھی افسپا کا نفاذ عملایا گیا۔
سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ 
ہر ایک کی زبان پر تالہ چڑھا دو 
الیکشن کی آمد آمد ہو تو کئی کام نکل ہی جاتے ہیں ۔الیکشن ٹائم میں کام دروازے سے ، کھڑکی سے، روشن دانوں سے حتیٰ کہ سیاسی کواڑ کھول کر نکل آتے ہیں ۔اور سیاستدان بھی ان کے آڑے آکر راستہ نہیں روکتے بلکہ بابل کی دعائیں دے دیکر چہل قدمی کے لئے شاباشی دیتے ہیں ، کیونکہ اس میں اہل سیاست کے تماشے کے لئے ڈگڈگی کا سامان پیدا ہوتا ہے۔اسی مہینے جو الیکشن کا اعلان کر نا تھا تو ساٹھ ہزار یومیہ کارکنان کی مستقلی کی بات چلی اور کچھ اس زور سے چلی کہ عوام الناس حیران رہ گئے۔ارے بھائی جمہوری تماشے میں اس قدر تیز و طرار فائل چلتی ہے کہ سب دیکھتے رہ جاتے ہیں۔مانا کہ پہلے نیم مستقل ملازم اس بات کا رونا روتے ہیں کہ ان کے نام کب لاٹری نکلے گی اور پڑھے لکھے بیروزگار بھی اس امید میں کہ کچھ قرعہ فال ان کے نام بھی نکلے اور وہ نیم خواندہ یا بالکل ہی نا خواندہ یومیہ ورکروں کی طرح خوشی منائیں گے ۔کسی دل جلے اعلیٰ خواندہ امیدوار نے کیا پتے کی بات بتائی کہ آج کل نیم خواندہ افراد کا ہی بول بالا ہے اسی لئے تو بقول اس کے یہ لوگ اس الیکشن لاٹری کا فائدہ تین پشتوں تک لینے کے اہل ہوں گے۔
خیر راہ راست کی جو بات چلی تو دلی دربار کے مذاکرات کار یاد آئے جنہوں نے کپوارہ سے بار ہمولہ تک اعلان کیا کہ میں راہ راست پر ہوں ۔اس پر ہمیں سابق سکورٹی ایڈوایزر کی بات یاد آئی کہ ملک کشمیر میں سفیدوں کے سوا کوئی چیز سیدھی نہیں پھر بھلا اپنے دنیش بابو کو کیسے کوئی چیز سیدھی دکھائی دی ۔ہو نہ ہو ملاقات کرنے والے وہی ہوں جو ٹی وی پر آنے کے لئے یا اعلیٰ افسر سے بالمشافہ بات کرنے کے لئے اپنا ہاتھ ، گردن لمبی کر دیں یا یہ کہ اپناضمیر بھی چھوٹا کردیں جبھی تو راستہ صاف اور سیدھا دکھتا ہے کہ ملنے والے کوئی الٹی بات نہیں کرتے۔ بس چائے کی ٹھنڈی پیالی پی کر پیٹھ تھپتھپاتے ہیں ، چہرہ سرخ کردیتے ہیں ، دل کو اندر ہی اندر اُڑتے گھوڑے پر سوار کرتے ہیں،پھر باچھیں کھلتی ہیں ،اور باہر نکل کر کھسیانی بلی کھمبا نوچیں کے مصداق  پورے پائوں زمین پر نہیں رکھ پاتے کہ کہیں بوجھ سے زمین ہل ڈھل نہ جائے۔
فلمی ہیرو نے کب کا یہ مسلٔہ حل کردیا تھا کہ تم کو مرچی لگی تو میں کیا کروں ۔اب کی بار پنجاب کے ایک میگزین کے سر ورق پر جو تصویر اُبھری تو پنڈتوں کے خود ساختہ نمایندے اور بھاجپا ایم ایل اے کے مرچیں لگیں ۔کچھ تو صحافت کا مچھلی بازار بھی گرم ہوگیا ۔سب نے مل کر اپنی محسوس کردہ تپش کا اظہار کیا کہ سرورق کی تصویر زخم کرید رہی ہے ۔پچھواڑے میں آگ لگا رہی ہے ۔ٹی وی اسکرین پر اعلان کرنے پہنچے کہ بھائی لوگو! یہ آگ بجھائو اور ادھر میگزین کا مدیر بھی ڈھیٹ ہے کہ ہم تو لوگوں کی آواز ہیں ۔وہی آواز عوام تک پہنچاتے ہیں ۔ اسی لئے برہان وانی کی تصویر سرورق پرچھاپ دی، پھر بھلا کسی کے مرچی لگیں یا انسانی گوشت کی جلتی بو محسوس ہو۔
وہ جب بھارت ورش کے سر پر سوار ہوئے تھے تو سب کا ساتھ سب کا وکاس کی ڈولک بجاتے پھر رہے تھے ۔پر تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں اسلئے وثوق کے ساتھ کہہ دیا تھا کہ یہ گائے ،گنگا، رام مندر کی ٹولی ہے ۔اب جو تاڑے والوں کی طرف دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ دور کی نظر کتنی مضبوط ہے ان دور اندیشوں کی۔ابھی تک وہ کنول بردار مشٹنڈے اور ان کے ترشول بردار حواری ہی مار کاٹ دیتے تھے پر اب تو  منتخب لیڈر بھی مار کاٹ کی بات کرنے لگے۔تین سال جو گزرے تو کہیں ساتھ اور وکاس نظر نہ آیا بلکہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا زہر پھیلا کر کام کاج کے جسم میں جان لیوا بیماری پیدا کردی ۔گجرات والوں نے جی ایس ٹی کاٹ کر اسمبلی دے دی ۔ اس کا اثر راجستھان پر بھی ہوا۔بی جے پی ایم یل اے گیان دیو آہوجا نے فائنل وارننگ دے ڈالی کہ گایوں کی سمگلنگ میں ملوث ہونے پر موت ہی ملے گی۔
مرکزی وزیر اننت کمار ہیگڑے کو بھی سب کا ساتھ سب کا وکاس نہ بھایا تو سیکولر طاقتوں پر برس پڑا ۔تم لوگوں کا ڈی این اے ہی خراب ہے ۔ہم ہندوتا کے حساب سے آئین میں ترمیم کریں گے ۔ آئین میں ترمیم نہیں بلکہ گجرات کابینہ کی حلف برداری بھی ہندوتا طور طریقے سے ہوئی۔مودی مہاراج پورا کنول بردار لائو لشکر سمیت پہنچے ۔ روپانی کو کرسی پر دوبارہ بٹھایا کہ بھائی بڑی مشکل سے کانٹے کی ٹکر کے بعد ہاتھ لگی ہے، اسے سنبھال کر رکھیو کیونکہ جنتا اب حساب مانگتی ہے ۔اگر ایسے ہی حساب جاری رہا تو ۲۰۱۹ میں کنول کی پتیاں سوکھ جائیں گی ۔جنتا ٹیکس کا ہی نہیں خون کا بھی حساب مانگتی ہے ،جبھی تو بنگالی مزدور افراضل خان کی موت کے بدلے راجستھان سرکار کی امداد کے بدلے انصاف کا تقاضہ کرتے ہیں۔اسی لئے تو پانچ سو لوگوں نے ہجومی امداد کے صدقے سات لاکھ روپے جمع ہوئے ۔وسندرا سرکار کی امداد ٹھکرادی کہ بھیک نہیں انصاف چاہئے۔ مانا کہ بہت جلد انتخابات ہونے والے ہیں کوئی الیکشن تو اقلیتوں کے خون کے بغیر بھی جیتو۔قاتلوں کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لو۔کچھ تو ہمارے غریب لیو ڈورا واسیوں سے سیکھو کہ سورگباشی پنڈت والدین کی بچیوں کو مسلم گائوں نے گود لیا کیونکہ یہ تو ہماری بچیاں ہیں۔
آخر پر یہ دلچسپ خبر کہ پولیس سربراہ نے خاص ایپ کا افتتاح کٹرہ میں کیا تاکہ ویشنو دیوی یاتری اور عام لوگ اپنی شکایات کا ازالہ کرانے کے لئے استعمال کریں۔جناب عالی !اپنا احوال بھی ٹھیک نہیں ،اس لئے عرض یہ ہے کہ اپنے یہاں بھی شکایتوں کا پلندہ ہے ۔ایسے ہی ایپ کی ضرورت ادھر بھی ہے۔کچھ نظر عنایت یہاں بھی ہو جبھی تو بیگناہ وردی پوشوں کے عتاب سے بچے رہیں گے!!
تو نے بتا یا نہیں کہ درد کہاں ہوتا ہے 
اک جگہ ہو تو بتائوں کہ یہاں ہوتا ہے
رابط[email protected]/9419009169