اُمیدوں کے چراغ روشن رکھیں‎ عزم واستقلال

ندیم احمد میر

ہم جس دور میں جی رہے ہیں یہ کئی لحاظ سے کٹھن ہے۔اس دور کے مایوس کن حالات میں جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے وہ’’اُمید‘‘ ہے۔ان ناموافق حالات میں ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ ہم اپنے دلوں میں اُمید کی شمع فروزاں رکھیں کیونکہ اُمید زندگی ہے،اُمید پر ہی دنیا قائم ہے اور اُمید انسان کو ثابت قدم بناتی ہے۔اُمید کی بدولت ہی انسان اپنے ماضی سے درس لیتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔یہ اُمید ہی ہے جس کا سہارا لے کر انسان اپنی زندگی میں بڑے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کر کے اور زیادہ متحرک ہو جاتا ہے۔یہ امید ہی ہے جو کہ ایک انسان کو دعوتِ دین کی راہ میں درپیش مشکلات کا پامردی اور خوشدلی کے ساتھ سامنا کرنا سکھاتی ہے اور اپنا فوکس اپنے اصل مقصد و نصب العین پر بنائے رکھنے کی دعوت دیتی ہے۔یہ اُمید ہی ہے جو کہ ایک انسان کو انفرادیت ترک کرنے اور اجتماعیت کا خوگر بنانے کی ترغیب دیتی ہے کیونکہ انفرادیت پورے معاشرے کے لیے انتہائی تباہ کن اور نقصان دہ ہے۔انسانی وجود کے اندر بلند عزائم اُمید کے ذریعے ہی معرضِ وجود میں آتے ہیں اور پھر یہی عزائم مضبوط پہاڑ کی شکل اختیار کر کے طوفانوں کے بالمقابل اپنی جگہ مضبوطی سے جمے رہتے ہیں۔

انسان کی زندگی کی سفینہ کو ہر دم طوفانوں سے واسطہ پڑتا ہے اور طوفانوں کے بھنور میں پھنسی ہوئی کشتی کو ہم اُمید کے ذریعے ہی کنارا لگا سگتے ہیں۔اُمید سورج کی مانند ہے،جیسے جیسے ہم اس کی طرف بڑھیں گے تو ہمارے بوجھ(مصیبت)کا سایہ بھی کم ہوتا جائے گا۔قوی اُمید کے ذریعے ہی ایک انسان دریاؤں کا رخ موڑنے،پہاڑوں کو چیر لگانے اور آسمانوں کی بلندیوں کو چھونے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ایک انسان کو جب اُمید کا سپورٹ ہو تو وہ ایک دشوار گزار گھاٹی کو بھی پار کر سکتا ہے۔انسان کو اگر زندگی کے معمولات میں اُمید ہم رکاب رہے تو مشکل اور بھاری کام بھی اس کے لیے آسان ہو جاتے ہیں لیکن اس کے برعکس اگر مایوسی کی چادر نے اسے لپیٹ لیا ہو تو آسان ترین کام مشکل اور قریب الحصول مقاصد بھی اسے ناممکن نظر آتے ہیں۔سچ میں اُمید ایک انسان کی زندگی میں حیرت انگیز کرشمے دکھاتی ہے۔اس حوالے سے اختر حسین عزمی لکھتے ہیں کہ:

’’وہ کیا چیز ہے جو ایک مریض کو کڑوی کسیلی دوائیں خوشی خوشی پینے پر آمادہ کرتی ہے؟وہ کونسی طاقت ہے جو ایک کسان کو منوں اناج اپنے ہاتھوں گھر سے اٹھا کر کھیت میں بیج کی صورت دبا دینے پر مجبور کرتی ہے؟وہ کون سا داعیہ ہے جو ایک طالب علم کو رات کا آرام اور دن کے دل پسند مشاغل ترک کر کے پڑھائی کے خشک اور بیزار کن کام کے لیے مستعد کرتا ہے؟مریض کے لیے صحت یابی کی امید،کسان کے لیے اچھی فصل کی آس اور طالب علم کے لیے تعلیمی کامیابی کی توقع ہی وہ داعیہ ہے جو ان کے نخل تمنا کو سرسبز و شاداب رکھتا ہے۔یہ امید ہے جو ان کی زندگی کی تاریک راہوں کو قندیل رہبانی کی مانند روشن کرتی ہے۔امید،کامل انسان کو چست اور چست کو سرگرم عمل بنا دیتی ہے۔امید انسان میں عمل کا داعیہ ہی پیدا نہیں کرتی بلکہ مداومت عمل پر بھی اسے ابھارتی رہتی ہے۔یہ علمی ترقیات،یہ ایجادات و اکتشافات کے ہنگامے،یہ آمد و رفت کے طاقتور اور تیز رفتار وسائل اور رسل و رسائل اور ابلاغ کے حیرت انگیز ذرائع،یہ عظیم الشان تمدن اور پُرشکوہ ادارے،امید ہی کے کرشمے اور مظاہر ہیں۔‘‘(ماہنامہ ذکریٰ جولائی٢٠٠١،ص ٣٨)
انسان جب مصمّم ارادہ کر کے صراطِ مستقیم پر چلنے کا عہد کرتا ہے،ایک مقصدِ جلیل کی آبیاری کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے،اپنے دن رات،چلنا دوڑنا،گرنا اٹھنا سب کچھ اس کے حصول کی نظر کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو جاتا ہے،تو پلک جھپکتے ہی اس کے اوپر مصائب و مشکلات کی بارش برسنے لگتی ہے اور غم و مایوسی کے بادل اس کے سر پر منڈلانے لگتے ہیں۔ان نامساعد حالات میں اگر یہ بندہ خدا منزلِ مقصود کو پہنچنے کا متمنی ہو تو اس کے لیے لازم ہے کہ ایک طرف’’صبر جمیل‘‘ کا دامن اس کے ہاتھ سے نہ چھوٹے،راہِ حق پر یہ آگے ہی بڑھتا چلا جائے اور دوسری طرف یہ اُمید کا آستانہ بن کر مایوسی کی گھٹاٹوپ رات کو اپنے’’داغِ جگر‘‘ سے روشن کرے۔اسے لوگوں کے لیے صبح کے ستارے کی مانند بننا ہوگا،جو ڈوب تو جاتا ہے،لیکن انسانیت کو ایک نئی صبح کا پیغام دے کر چلا جاتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے بھی ذیل کے اشعار میں یہی پُرامید پیغام ہر ایک شب کے مسافر کو دے دیا ہے؎

مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
مِری سرشت میں ہے پاکی و دُرخشانی
تُو اے مسافرِ شب! خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نُورانی
اسلام ایک انسان کو قدم قدم پر مکمل رہنمائی کرتا ہے۔اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو ایک انسان کو ناسازگار حالات کے بالمقابل گھٹنے ٹیک دینے کے بجائے انہیں تیز رفتاری میں تبدیل کرنے کی پُرزور دعوت دیتا ہے۔اسلام یہ نہیں چاہتا ہے کہ انسان ایک راستہ بند ہونے پر خواہ مخواہ مایوس ہو کر ذہنی تناؤ اور اضطراب کی حالت میں پڑ جائے بلکہ وہ اسے دوسرے راستے تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔اسلام اپنے ماننے والوں میں یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ان کی نظر مقصود پر ٹکی ہوئی ہو اور وہ ممکنات پر ارتکاز کرنے والے ہوں،لیکن جو باتیں ان کے دائرہ امکان سے پرے ہیں،ان کے سلسلے میں خوف اور اندیشے کا شکار ہو جانا،اس کا رونا رونے میں وقت ضائع کرنا اور اپنے قویٰ کو موہوم اندیشوں کا شکار ہو کر ناکارہ کر دینا،یہ مذموم صفات ان کے شایانِ شان نہیں ہوتی ہیں۔ماضی کے نوحے اور مسقبل کے اندیشوں سے زیادہ انہیں حال کے عمل پر فوکس کرنا چاہیے۔مایوسی و ناامیدی ہمارے سماج،ہمارے اداروں،ہماری قیادتوں،ہماری جماعتوں اور تنظیموں اور افراد سب کو بے حِس کر دیتی ہے۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ایک قوم کے لیے اُمید ایک بہت بڑی طاقت اور قوت محرکہ ہوتی ہے جبکہ مایوسی و ناامیدی اس کے لیے سب سے بڑی تباہی ہوتی ہے۔اس حوالے سے سید سعادت اللّٰہ حسینی لکھتے ہیں کہ:

’’جو طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہیں،اُن کا اصل ہدف یہی ہے کہ مسلمان مایوسی اور ناامید ہو جائیں۔کسی قوم کے لیے سب سے بڑی تباہی مایوسی و ناامیدی ہے۔سخت حالات کی عمر مختصر ہوتی ہے لیکن اگر پست ہمتی اور خوف کی نفسیات عام ہو جائے تو اس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔یہ نفسیات زندگی کی امنگ چھین لیتی ہے۔خود اعتمادی کو مجروح کرتی ہے۔آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے حوصلوں کو ختم کرتی ہے۔خوف اور ناامیدی عام ہو جائے تو سیاسی و سماجی جدوجہد تو دور کی بات ہے،معاشی و تعلیمی ترقی کے محرکات بھی کمزور ہو جاتے ہیں۔افراد کی طرح اجتماعی گروہوں کے لیے بھی امید اور اعتماد ایک بڑی اہم طاقت اور قوت محرکہ ہوتی ہے۔اگر امید کی لو روشن رہے تو بڑی سے بڑی ناکامی اور بھیانک سے بھیانک سانحہ بھی قوموں کی کمر نہیں توڑ سکتا۔وہ اپنی خاکستر میں بھی امید کی چنگاریوں کو بچائے رکھتے ہیں اور مناسب وقت پر مثبت تبدیلی کا ایک ہلکا سا جھونکا ان چنگاریوں کو بھڑکا کر شعلہ بنا دیتا ہے۔اس کے برخلاف اگر امید و یقین کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو سائے اور واہمے بھی دہشت طاری کرنے لگتے ہیں۔ہوا کے جھونکے سے بھی تباہ کن آندھی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ایسی قوموں کو مارنے کے لیے کسی دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی۔اندیشوں اور واہموں کی شکار ہوکر وہ اپنی موت آپ مرجاتی ہیں۔‘‘(مسلم امت:منزل اور راستہ،ص ٤٨۔٤٩)۔۔۔۔(جاری)
رابطہ۔8082130273
[email protected]