اُردو کی آغوشِ محبت سے بھاگنے والو

مادری زبان کو توہم دغا دئے جا رہے ہیں مگر رابطے کی زبان یعنی اردو بھی سے ہم بڑی تیزی سے دور بھاگ ر ہے ہیں۔ ہماری ریاست تین خطوں پر مشتمل ہے اور ان تین خطوں میں اور بھی زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں۔ لیکن اردو ان سب زبانوں اور بولیوں کے بولنے والوں کی ایک ایسی زبان ہے ۔ جو اُن کو ایک دھاگے میں پرونے کا کام کرتی ہے۔ پہاڑی بولنے والے اپنی زبان کو کامیابی  دلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یونیورسٹی سطح تک وہ اس پہاڑی کو پڑھانے میں کامیاب ہوگئے۔ ڈوگری بھی جموں میں پیچھے نہیں ہے۔ لداخی بھی اپنی زبان کو ترقی دینے کے لئے میدان میں کود پڑے ہیں ۔ اگر پیچھے ہے تو اردو ہے ۔
 اردو آئین ہند کے آٹھوین شیڈول میں بھی درج ہے اور ہندوستان کی جدید زبانوں میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ ہماری ریاست میں اس زبان کو سرکاری حیثیت حاصل ہے پھر بھی تا ہنوزیہ اپنے حقیقی مقام ومنزلت سے محروم ہے ۔یوں تو سرکاری زبان ہونے کی وجہ سے اس زبان کو ہر دفتر اور ہر محکمہ میں بولا جانا چاہیے لیکن عملی دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ محکمہ پولیس میں کسی حد تک،عدالتوں اور محکمہ مال میں کہیں کہیں اردو کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ جموںمیں اس زبان کوکچھ زیادہ ہی سوتیلے پن کا سامنا ہے اور یہاں اردو دُور دُور تک بھی نظر نہیں آتی ۔ سرکاری محکموں بازاروں اور دوسری جگہوں پر تو ہندی زبان کواہمیت دی جاتی ہے۔
 اردو کوئی چھوٹی موٹی زبان نہیں، اس میں ہر وہ چیز موجود ہے جو ایک کامیاب زبان میں لازماً ہونا چاہئے۔ شاعری ، نظم، نثر ، ناول ، ڈرامہ اور دوسری تمام اصناف اس زبان میں کماحقہ موجود ہیں ۔ اگر کمی ہے تو اس کے قدر دانوں کی کمی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ زبان تعصب کا شکار بھی ہوتی رہی ہے۔ اسی زبان میں تو جموںو کشمیر کا تاریخی سرمایہ موجود ہے ۔مذہبی اعتبار سے تو یہ زبان مالا مال ہونے کے سبب درجہ اول پر ہے۔ علم اور ادب کے تمام شعبوں سے متعلق ہر قسم کی معلومات اس زبان کی میراث ہیں لیکن پتہ نہیں کس یہ بدقسمتی اور بدنگاہی کا شکار ہو گئی ہے۔ حالانکہ یہ زبان تمام تفرقات اور تقسیمات سے ماوراء سب لوگوں کی خیرخواہ اور شریں وسیلہ ٔ اظہار ہے۔ ہندو ہوں یا مسلمان ، سکھ ہوں یا بودھ یا عیسائی ،اس زبان نے تو ہر کسی کو وجد آفریں شوق سے گلے لگا  دیا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ یہ زبان تو ہر مذہب ، ہر فرقے ، ہر مسلک ، ہر شعبے کی بے لوث خدمت کرتی چلی آ رہی ہے۔ لیکن اردو کی  ترقی وترویج کی طرف کسی کی توجہ جاتی ہے نہ اسے وہ تکریم وتوقیردی جارہی ہے جو اس کے شایان ِ شان ہے ۔اردو غزل سے لوگ فرحت اور خوشی حاصل تو کرتے ہیں لیکن اس کی آبیاری کے لئے کوئی سنجیدگی نہیںدکھارہا ۔ سب زبانی خرچ سے کام چلا رہے ہیں۔ کوئی عملی کام زمینی سطح پر نہیں کیا جا رہا ہے۔ 
ایک سرکاری حکم نامے میں سرکاری دفتروں کے سائن بورڑ اردو میں لکھنا قرار پایا تھا لیکن یہ حکم نامہ بھی حکم نواب تا در نواب ہی رہا۔ جموں و کشمیر بینک کے بہت سے کاغذات پر اردوکے حروف دیکھے جاتے تھے ۔ اب بینک کاغذات سے اردو اس طرح سے غائب ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگھ ۔اب تو ان کے سائن بورڑ وں پر کہیں بھی کوئی اردو حرف نظر نہیں آتا ۔ 
اردو کو سرکاری حیثیت حاصل ہے لیکن نہ جانے اس کی ترقی کے لئے سرکار روٹھی کیو ں ہے۔ کوئی بھی سرکاری کام اس زبان میں کیوں نہیں ہوتا ہمارے حکام اس زبان کو استعمال کرنے سے شرم کیوں محسوس کرتے ہیں۔ جبکہ قانونی طور تو یہ زبان بالکل مستحکم ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ اگرکوئی اپنے بچوں سے اِس زبان میں بات کرتا بھی ہے لیکن لکھتے وقت تو جیسے سانپ سونگتا ہے۔ ہمارے بچے تو اب اس حال میں ہے کہ کوئی بھی امتحان اردو اور اردو کے خاطر پاس نہیں کرتا۔ 
آج اُردو زبان کو عالم گیر یت کے تحت فروغ پانے والے یک زبانی کلچر سے شدید مشکلات کا سامنا ہے اور اس کے مستقبل پر ماہرین لسانیات کئی شدید نوعیت کے سوالات اُٹھا رہے ہیں ۔ کوئی بھی زبان ایک نامیاتی وجود کی طر ح پھلتی پھولتی اور شباب و شیب کے مراحل سے گزرتی ہو ئی لسانی تاریخ میں اپنا وجود منواتی ہے ۔ اُردو کے حوالے سے بات کی جائے تو ہندو مسلم تہذیب کی کوکھ سے جنم لینے والی سر زمین پاک و ہند کی یہ نوخیز زبان باہمی امن و آشتی ، اتحاد و یگانگت اور خیر سگالی کی فضائوں میںجنم لیتی ، پھلتی پھولتی اور نشو ونما کے مراحل طے کر تی ہو ئی آج دُنیا کی ایک بڑی زبان کے طور پر عالمی لسانیاتی قبائل کی اگلی صفوں میں اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ 
مسلمان فاتحین جب اس خطے میں آئے تو انھوں نے بھی عمومی بالا دست رویّے اور حاکمانہ حکمت عملی کا مظاہرہ کر تے ہو ئے اپنی مادری زبان یعنی فارسی کو سر کاری سنگھا سن پر جگہ دی اور یوں ہندوستان کے طول و  عرض میں اس کی نشر و اشاعت ہوتی چلی گئی۔ واضح رہے کہ حاکمانہ ذہنیت کا یہ لسانی رویّہ صرف مسلمانوں سے مخصوص نہیں بلکہ یہ طرز عمل قوموں کی مناقشاتی تاریخ کی ایک پختہ روایت ہے ۔ اس ضمن میں مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:
’’جب ایک قوم کسی دوسری قوم پر غلبہ حاصل کر لیتی ہے تو اس کی سب سے پہلی کوشش یہ ہو تی ہے کہ مفتوح قوم کی زبان کو مٹا دے اور اس کے لیے وہ طر ح طر ح کی تدبیریں کر تی ہے کیوں کہ وہ جانتی ہے کہ اگر زبان زندہ ہے تو قوم بھی زندہ ہے اور اگر زبان مر گئی تو قوم بھی مر دہ ہو جائے گی ‘‘۔ 
ہندوستان میں مقتدر طبقے کی زبان کو ہمیشہ پذیرائی حاصل ہو ئی ۔ در باری زبان ہی کو سر کاری زبان کا مقام و مر تبہ ملا۔ مسلمان بادشاہوں نے کبھی اُردو زبان کی طر ف تو جہ نہ دی اور اُن کی در باری ، سر کاری اور دفتری زبان ہمیشہ فارسی ہی رہی ۔ کچھ عر صہ کے لیے جب مغل سلطنت میں اضمحلال آیا تو دکنی ریاستوں میں اُردو کو سر کاری سر پر ستی ضرور ملی مگر اس کے پس منظری محرکات میں بھی خالص اُردو دوستی سے زیادہ مر کز کی مقتدر زبان یعنی فارسی سے سیاسی نو عیت کے مسابقانہ عناد کے عوامل کار فر ما تھے ۔ اس دور میں اُردو زبان نے بڑی سر عت سے علمی ، سائنسی حوالے سے بلوغت کے مراحل طے کیے اور اسی عہد میں تر سیل معنی و مطالب کی ہمہ جہت ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہو نے کا حیران کن عملی مظاہرہ بھی ہوا ۔ پھر نیرنگئی زمانہ سے حالات نے کر وٹ بدلی اور عنان حکومت ایک بدیسی قوم کے ہاتھ لگی ۔ ایک دفعہ پھر وہی لسانی حکمت عملی رو بہ عمل آئی اور اب کی بار فارسی کی گر دن مار کر انگریزی زبان کو سر کاری در بار میں اثر و رسوخ ملا اور یوں اُردو بارِ د گر اپنے جمہوری استحقاق یعنی مقتدرانہ حقوق سے بے نصیب رہی۔ ایک لحاظ سے دیکھا جا ئے تو یہ زبان تقدیر کی دھنی بھی ہے کہ اس کا اکھوا جمہوری تعاملات اور عوامی ضروریات کی شا خ صدرس سے پھوٹا تھا اور اس کی نشو نما میں کسی حاکم کی تیز دست پیوند کا ری کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔ لطف یہ ہے کہ ماہرین لسانیات کے مطابق کسی زبان کی حقیقی تشکیل کا فطری منہاج بھی یہی ہے۔ 
 آج یونیسکو کے ’’ اٹلس آف دا ورلڈ لینگوئجز ان ڈ ینجر آف ڈس اپیرنگ‘‘ کے مطابق دنیا کی چھ ہزار زبانوں میں سے عالم گیریت کی وجہ سے پانچ ہزار زبانیں نا پید ہو نے کو ہیں ۔ فی زمانہ اقوام متحدہ کی چھ سر کاری زبانوں ( انگریزی، فرانسیسی ، جر من عر بی اور ہسپانوی ) ہیں مگر فی الواقعہ 97% اُمور میں انگریزی کا راج ہے۔ گلو بلائزیشن کے اُردو زبان پر بھی نہایت گہرے اثرات مر تب ہو رہے ہیں ۔ اگر چہ اپنے بو لنے والوں کی کثیر تعداد کے پیش نظر اسے معدو میت کا کوئی خطرہ نہیں تا ہم یہ تعداد اس کو مقتدر یا مو ثر حیثیت دلانے میں چنداں کار گر ثابت نہیں ہو رہی ۔ گو یا زبان کی طاقت کا انحصار بو لنے والوں کی تعداد پر نہیں ان کی قوت تفوق  پر ہے ۔ اسی اُصول پر انگریزی چینی پر بالا دستی رکھتی ہے ۔
اکیسویں صدی اُردو کے لیے رو شن امکا نات کی صدی ہے ۔ اس صدی کی شرو عات انجمن فروغ زبان اُردو ، انجمن کے متعارفہ اُردو اطلا عیات کے معیاروں کی تشکیل ، نوری نستعلیق کی تیاری اور نادر ا ایسے ادارے کی تشکیل سے ہوئی ہے یقیناً ان عوامل کے ثمرات نہایت حوصلہ افزا ہوں گے ۔ تاہم اس ضمن کی چند اہم مقتضیات یہ ہیں کہ:
ا۔ ہمیں عالم گیریت کے لسانی چیلنجز کا مقابلہ کر نے کے لیے صوتوں اور مصوتوں کی بنا پر نئے حروف تہجی بھی متعارف کروانے چا ئیں ۔ 
۲۔ نئے الفاظ کے ادغام کے سلسلے میں ہمارا طرز ِ عمل مدا فعتی یا مزاحمتی کے بجائے مفاہمتی ہو نا چایئے اور نووارد الفاظ کے ہجے ، املا اور طوالت جیسے اُمور تکنیکی منصوبہ بندی سے سر انجام دینے چا ہیں۔ 
۳۔ ہر مضمون کے متعلقہ ماہرین اُردو اصطلاحات سازی کی ساخت پر داخت کریں اور ان کی تر ویج و اشاعت حکومتی سرپر ستی میں جا ری رکھیں ۔ 
ٍ۴۔ مختلف زبانوں کے با ہمی تعامل سے لسانی اَ خذ و انجذاب کا عمل ایک فطری اَمر ہے ۔ خاص طور پر کمزور لسانی ساخت کی حامِل زبان پر طاقت ور زبانوں کی لسانی یلغار کو نہیں رو کا جا سکتا ۔ تاریخ شا ہد ہے کہ کبھی فارسی نے بھی اردو پر ایسی ہی یلغار کی تھی ۔ نتیجتاً امیر خسرو اور رجب علی بیگ سرور کا فارسی آمیز اسلوب سامنے آیا ۔ آج اگرچہ اردو کمزور زبان نہیں ہے تا ہم اَب بھی دیگر زبانوں کے ساتھ اِس کے باہمی لسانی تعامل اور اَخذ و انجذاب کے عمل پر کوئی پہرہ نہیں بٹھایا جا سکتا تاہم اتنی احتیاط ضروری ہے کہ زبان کے مجموعی مزاج پر کوئی حرف نہ آئے ۔ 
اس اَمر کو مدّ نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ لسانی نشو و نما اور ارتقا کا تعلق علمی تر ویج و تر قی کے ساتھ منسلک ہے ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہر عہد کے نئے علمی موضوعات ہی نئی لسانی تشکیلات کا تقاضا کر تے ہیں تا کہ زبان کے اظہار و ابلاغ کی صلاحیت میں اضافہ ہو ۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر شعبہ حیات میں علمی تر قی لسانی نمو پذیری کا باعث بنتی ہے ۔ علمی لحاظ سے طاقتور قوموں کی زبان کے طاقت ور ہو نے کا راز بھی اِسی اَمر میں پوشیدہ ہے ۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ قوم اپنی علمی معرکہ آرائیوں کو اپنی زبان میں پیش کر نے کا عزم کر لیتی ہے، تو زبان کے دامن میں خود بخود وسعت اور کشاددگی پیدا ہو نا شروع ہو جاتی ہے ۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ بدیسی زبان کے انتداب سے خود کو آزاد کرتے ہو ئے اپنی زبان پر تفاخر کی روایت کو مستحکم کیا جائے اور اُردو کے شان دار اور تابناک مستقبل کو یقینی بنایا جا ئے ۔
