ااس میں شک نہیں کہ اردو فکشن قرہ العین حیدر کے کارناموں کے بغیر ادھورا ہے۔عینی آپا یعنی قرۃ العین کا خاندان نہٹور اترپردیش کا تھا مگر ان کی پیدائش علی گڑھ میں ۲۰ جنوری ۱۹۲۸کو ہوئی۔ایران کی مشہور شاعرہ قرۃ العین طاہر ہ کے نام پر والد سجاد حیدر نے ان کا نام قرہ العین حیدر رکھا۔لکھئنو یونیورسٹی کے ازا بیلا تھوبرن کالج سے گریجویشن کے بعد ۱۹۴۷میں پاکستان اور انگلینڈ رہنے چلی گئیں۔۱۹۶۰میں ہندوستان آگئیں اور پھر ممبئی میں قیام کے بعد آخر تک نوئیڈا میں قیام رہا۔انھوں نے شادی نہیں کی۔ملان کندیر اور گیبرئیل مارکیز ان کے معاصر ین ہیں ،جن سے ان کا موازنہ کیا جاتا ہے اور مانا جاتا ہے کہ ان کا ادب زمان ومکان کی قید سے ماوراہے۔عینی آپا کسی ازم ،تنظیم یا انجمن سے ہر گز وابستہ نہیں رہیں، جن کی در پردہ حمایت انھیں ادبی شناخت دلانے میں معاون ہوتی ،لیکن اس کے باوجود انھوں نے خود کو اس مقام پر فائز کرالیا جہاں پہنچنے کی بڑے بڑے ادیبوں کی تمنا ہوا کرتی ہے۔اس سے مفر نہیں کہ عینی آپا نے اردو فکشن کو جو بلندی اور وسیع النظری عطا کی ،اسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔اگر چہ انھوں نے اپنے عہد کے نقادوں کو کبھی ویسی اہمیت نہیں دی جیسی کہ ہمارے دیگر ادیب دیا کرتے ہیں۔اس کے باوجود شہرت ہمیشہ ان کے قدم چومتی رہی۔انھوں نے جو کچھ لکھا ذہنی حرکت،فکری یکسوئی اور کمال ذمہ داری کے ساتھ لکھا۔ان کی تحریرات کا مطالعہ کیا جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ انھوں نے اپنے ناولوں کے کرداروں کو کسی مخصوص قوم،قبیلہ ،رنگ ونسل ،مذہب اور تہذیب سے وابستہ نہیں کیا بلکہ انھیں کچھ اس قدر آفاقی اقدار کا ترجمان بنانے کی کوشش کی جو کہ اردو ادب کے شہکار بن گئے۔حتیٰ کہ ان کے کردار وں کی ذہنیت ،عالمی تفکرات پر ان کی گہری نظراور ان سب سے بڑھ کر عالمی اقدار کا پاس لحاظ اور اسی قسم کے دیگر مثبت رویوں نے انھیں عالمی ادب میں منفرد شناخت عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے تما م کردار و موضوعات آج بھی موضوع بحث ہیں اور کل بھی زندو جاوید رہیں گے۔
قرہ العین حیدر اپنے عہد کے ایک اعلی خاندان میں پیدا ہوئیںجو اپنی مثال آپ تھا۔ اگر وہ ایک طرف سجاد حیدر یلدرم کی نور نظر تھیں تو دوسری جانب انھیں ایسی مادرانہ شفقت کے زیر سایہ پروان چڑھنے کا موقع ملا جو آزادی نسوان کےحصول کے لئے جد وجہدکا ایک معروف نام تھیں۔یہی وجہ ہے کہ عینی آپا اپنی گونا گو ںخصوصیات کے باوجود اپنے ہم عصروں میں ہمیشہ ممتاز رہیں۔وہ جدید طرز زندگی کی برکتوں سے آشنا تھیں تو آزاد خیالی اور دیگر مثبت پہلوئوں سے بھی اکتساب فیض کرتی رہیں۔انھیں اس زمانے میں وہ تمام حقوق حاصل تھے جو ہمارے یہاں عورتوں کو شاذ ونادر ہی نصیب ہوا کرتے تھے بلکہ وہ ان سے واقف بھی نہیں ہوتی تھیں۔ ان کا اعتراف ہے کہ انھوں نے اپنے والد محترم کے دوست مشتاق احمد زاہدی کی ہمت افزائی کی بدولت فکشن نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔ قرۃ العین حیدرایک صاحب طرز فکشن نگار ہیں ان کے ناولوں کی فہرست طویل تو نہیں لیکن وقیع ضرور ہے۔ان کے ناولوں میں جو چند ناول شہرہ آفاق کہلائے ان میں’ سفنیئہ دل،‘ ’میرے بھی صنم خانے ‘،آخر شب کے ہم سفر ’، کارجہاں دراز ہے ‘اور ’آگ کا دریا ‘نہایت اہم اور قابل ذکر ہیں۔قرۃالعین حیدرایک ایسی ناول نگار ہیں جنہوں نے اپنے بیشتر ناولوں کے لئے بیشتر عنوانات اشعار سے اخد کیے ہیں۔مثلا فیض احمد فیض ؔ کا یہ خوبصورت
شعر: ؎
’آخرشب کے ہم سفر ‘فیض نہ جانے کیا ہوئے
رہ گئی کس جگہ صبا ،صبح کدھر نکل گئی
یا اقبالؔ کا یہ شعر: ؎
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
’کار جہاں دراز ہے ‘اب میرا انتظار کر
اسی طرح سفنیئہ دل ، اور میرے بھی صنم خانے ،دنیائے شعر و ادب سے ماخوذ ہیں اور اہل نقد ونظر ان تمام مآخذ سے بخوبی آشنا بھی ہے لیکن قرۃ العین حیدر کا شہر آفاق ناول ’’آگ کا دریا ‘‘اس سے مستشنی ہے۔اگر چہ یہ عنوان یعنی آگ کا دریا ذہن کو اردو کے مشہور شعر کی طرف توجہ مبذول کرتا ہے: ؎
یہ عشق نہیں آسان ،بس اتنا سمجھ لیجئے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
لیکن یہ شعر ناول آگ کا دریا کے عنوان کا ماخذ نہیں ہے بلکہ اس عنوان کا ماخذ کوئی مخصوص اور متعین طور پر ہے ہی نہیںہے کیونکہ اس عنوان کے پس منظر کا پھیلائوشعور کی رو کی تکنیک کی زمین سے لے کر فلسفہ الہیات کو آسمانوں تک پھیلا ہوا ہے۔جس کے درمیان میں کتنی ہی معتدبہ کڑیاں بھی ہیںجو اس زمین کو آسمانوں سے جوڑتی ہیں۔قرۃ العین حیدر کی یہ وہ تخلیقات ہیں جنہوں نے اردو ناول میں نئی جہتوں اور نئی سمتوں کا اضافہ کیا۔قرۃ العین حیدرنے اردو کو جن امکانات و تجربات ،جس انفرادیت اور جس تعمیق و وسعت سے آشنا کرایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔تکنیکی طور پر اردو ناول نگاری میں عرصہ دراز سے ایک خلا ء چلا آرہا تھا اس خلا ءکو پور ا کرنے کا اعزاز قرۃ العین حیدرہی کو پہنچتا ہے۔یوروپین ناول نگار ی میں علم نفسیایت کی ترقی کے زیر اثر ناول نگار ی کی ایک نئی تکنیک کا آغاز ہوا جس کو انگریزی میں ’’اسٹریم آف
کانشنس ‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اردو میں جس کا ترجمہ ’’شعور کی رو ‘‘کے نام سے کیا گیا ہے۔اس میں مشہورماہر نفسیات فرائذ ،ینگ،ایڈلروغیرہ کی نفسیاتی دریافتوں اور تجربوں کا اثر کار فرما نظر آتا ہے۔ان حالات کے زیر اثر ایک نئی ادبی فضا قائم ہوئی جس میں پہلااقدام ایک یوریین خاتون ’’ڈورتھی رچڑسن ‘‘کے نام سے جاتا ہے، جن کی اولیت کو ایک دوسری خاتون ناول نگار ’’ورجینا وولف‘‘نے پایہ تکمیل تک پہنچتا۔مردوں میں شعور کی رو کی تکنیک کا سب سے مکمل استعمال ’’جمیس جوائس ‘‘نے کیا لیکن ایک طرح سے اس نفسیاتی انداز تحریر کی بنیاد ان سب سے پہلے ’’لارنس اسٹرن‘‘کے یہاں پائی جاتی ہے۔اردو میں اس تکنیک کو معراج کمال تک پہنچانے کا اعزاز قرۃ العین حیدکو پہنچاتا ہے۔عینی آپا نے کم بیش چھ دہائی پر محیط اپنی ادبی زندگی میں اردو کی تقریبا سبھی اہم تحریکات و رجحانات کا مشاہدہ کیا اور تجزیہ بھی کیا تھا لیکن یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انھوں نے کس قدر ان کا اثر قبول کیا اور کیا بھی یا نہیں۔وہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے متاثر ہوکر شہکار افسانے اور ناول لکھنے کا مادہ رکھتی ہیں۔انہوںمعتدد تراجم کیے جو آج بھی ہمارے ادبی سرمائے میں گوہر نایاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔قرۃالعین حیدر کی زندگی نشیب وفراز سے بھری ہوئی تھی، خواہ وہ ہجرت پاکستان کے وقت کی ہو یا اس کے بعد۔شاید اس نشیب وفراز نے بھی ان کی تحریروں کو اس قدر وسیع منظر نامہ عطا کیا تھا۔ جس میں فلسفہ ،تاریخ ،مذہب اور عمرانیات سبھی کچھ سمویا ہوا معلوم ہوتا ہے۔انکی تمام تخلیقات میں نسائی فکر بالکل نئی جہت سے آشنا ہوتی نظر آتی ہے۔مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنے والی ،آزاد اور خود مختا ر لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے میں ان کا زوایہ نظر متاثر ہوتا ہے ،وہ خود معترف ہیں کہ:’’جب میں خود ایک خاتون ہوں تو اس کے بارے میں زیادہ جانکاری سے لکھوں گی،انسانی رشتوں یعنی ہیومن ریلیشن شپ ،روز مرہ زندگی کے مشاہدات ،ان کی باریک بینی ،جذبات کی کارفرمائی یہ سب چیزیں خواتین کے لئے علیحدہ کائنات تخلیق کرتی ہیں۔وہ بجا طور پر مانتی تھیں کہ خواہ عورت کسی حد تک liberate کیوں نہ ہوجائے وہ کسی روپ (ماں،بہن،بیٹی،بیوی)میں زندگی گزارے اسے مرد کا مطیع و فر مانبردار تو رہنا ہی ہے‘‘الغرض اردو فکشن کی یہ ملکہ ۲۱اگست ۲۰۰۷کو نوئیڈا میں ابدی نیند سو گئی۔عینی آپاآج بیشک ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کے کارنامے روشن مینار کی طرح ہماری رہنمائی کررہے اور کرتے رہیں گے:
آنے والی نسلیں ہم کو بھول سکیں ناممکن ہے
نقش قدم کے مٹتے مٹتے راہ گزر بن جائیں گے
رابطہ :رعناواری سرینگر
رابطہ نمبر9697330636