اُردو زبان کے ساتھ ناروا سلوک کیوں؟

چند روز قبل برسراقتدار جماعت کے ایک سینئر رہنمانے دہرہ دون ریلوے سٹیشن کی دو تصاویر ٹویٹ کیں۔پہلی تصویر میں ریلوے سٹیشن کے سائن بورڈ پر اُردو،ہندی اور انگریزی میں ’’دہرہ دون‘‘ لکھا تھا جبکہ دوسری تصویر میں اسی سائن بورڈ کو تبدیل کرکے اُردو کے بجائے سنسکرت میں ’’دہرہ دون‘ لکھا گیا تھا۔یہ ٹویٹ سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوا اور اخبارات کی زینت بن گیا۔بعد میں حکام نے اس حوالے سے وضاحت کی کہ یہ بات حقیقت سے بعید ہے اور سائن بورڈ میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔اس حوالے سے سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث چھڑ گئی اور راقم الحروف یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ کئی لوگوں نے اس قدم کی سراہنا کرتے ہوئے اُردوکو ’’آتنک وادیوں کی زُبان‘‘ قرار دیا تھا اور کئی نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ اُردو کی حمایت کرنے والے لوگوں کو پاکستان بھیجا جائے۔بات یہی پر ختم نہیں ہوتی۔اس سے قبل بھی امسال ماہ جنوری میںبرسر اقتدار جماعت کے ہی ایک ایم ایل اے نے اُردو زباں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔اُردو کے ساتھ دشمنانہ سلوک روا رکھتے ہوئے اسے آہستہ آہستہ ختم کرنے کی سازشیں تیز ہورہی ہے۔آئے روز اس زبان میں روزگار کے مواقع کم کیے جارہے ہیں۔مرکرزی اہتمام والے علاقے جموں و کشمیر کی ہی بات کی جائے تو یہاں کی تصویر بھی کچھ مختلف نہیں۔اس حوالے سے اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ وادیٔ کشمیر کی عوامی اکثریت ہندی سے نابلد ہے اور یہاں رابطے کی زبان اُردو ہی ہے لیکن اس کے باوجود ہندی زُبان کو یہا ں کی عوام پر تھوپنے کی ایک کڑی کے طور پر پی ایچ ای محکمے کا نام تبدیل کرکے اسے ’’ جل شکتی‘‘ محکمے کے نام سے موسوم کیا گیا۔اس بات کا غالب امکان ہے کہ یہ سلسلہ آگے بھی شد و مد سے جاری و ساری رہے گا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُردو جیسی شیریں اور میٹھی زبان کو سیاست کی بھینٹ کیوں چڑھایا جارہا ہے؟ کیا ایسے اقدامات کے لیے فقط حکومت کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے یا خودہم بھی اس میں ملوث ہے؟۔
 آخر کار اُردو میں ایسا کونسی باغیانہ قوت ہے کہ اس کو سیاست کی نذر کیا جارہا ہے اور اس کے حامیوں کو آتنک وادی تک قرار دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جارہی  ہے۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ ماضی میں جب جب عدل و انصاف کے پرخچے اُرائے گئے،جب جب ظلم کا بازار گرم کیا گیا،جب جب بے قصوروں کا لہو ارزاں ہوا ،تب تب اُردو زبان نے ہی مظلوموں کو آواز عطا کی اورجبر و استبداد کے ایوانوں میں کہرام مچایا۔شائداسی لیے اُردو کو ’’انقلاب کی زُباں‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔بات چاہے فیض احمد فیض ؔ کی ہو،حبیب جالبؔ کی ہو،علامہ قبال کی ہو،ساحرؔ لدھیانوی کی ہو،حسرت موحانی ہو یا کسی اور انقلاب پسند شاعر کی،یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اُردو کو ہی ہمیشہ وسیلۂ اظہار بنایا گیا۔ بطورِ نمونہ حبیب جالبؔ کے چند اشعار قارئین کی نذر کیے جارہے ہیں تاکہ سند رہے   ؎
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہوں زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو،جہل کی رات کو 
میں نہیں مانتا ،میں نہیں مانتا
 بے انصافی،جبر و استبداد،خبیث الفسی ،تشدد اور مظالم کا بازار مستقبل قریب میں بھی گرم ہوگا تو مجھے قوی اُمید ہے کہ اُردو کا سحر ہی ہوگا جو اُس ظلمت کدے کو اپنی انقلابی روشنی اور نور سے منور کرے گا ۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اُردو کو دہشت گرد اور قوم مخالف زبان قرار دیا جائے۔ جہاں تک اُردو پر سیاست کرنے یا اسے مسلمانوں سے منسوب کرنے کی بات ہے تو اس کے دفاع میںشائد اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ اُردو افسانہ نگاری اور ناول نگاری کے دو چوٹی کے نام پریم چند اور کرشن چندر مسلمان نہیں تھے،برج نارائن چکبستؔ جیسے بلند پایہ شاعر مسلماں نہیں تھے۔ اُردو ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب کا نام ہے جس نے اپنے وسیع دامن ِ آغوش میں دُنیا کے کئی مذاہب اور کئی نقافتوں کو پناہ دی۔ہاں اس بات سے بھی کوئی انکاری نہیں کہ زیادہ تر مسلمانوں نے ہی اس زباں سے استفادہ کیا چنانچہ آج ہمارا بیشتردینی لٹریچر اسی زبان میں موجود ہے۔ لیکن اس قدر وسیع اور کشادہ دامن زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دینا سراسر نا انصافی ہے۔اپنے ذاتی مقاصد کے لیے اسے سیاست کی بھینٹ چڑھانا شرمناک فعل ہے جس سے اجتناب ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔
 جہاں ایک طرف اُردو زباں غیروں کے نشانے پر ہے، وہیں اپنے بھی اس کا دامن تار تار کرنے میں کسی قدر پیچھے نہیں ۔اُردو کا نام سُنتے ہی ہمارے بعض نام نہاد دانشوران کے چہروں پر ناگواری کے آثار نمودار ہوتے ہیں۔اسے ایک دقیانوسی زبان قرار دینے والے غیر نہیں بلکہ ہم خود ہی ہیں۔ہمارے تعلیمی اداروں خاص کر نجی اسکولوں سے اس کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔زمانۂ جدید کے نونہالوں کو اُردو بولنے میں شرم آتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اُردو کے تئیں ہم نے اُنہیںاحساسِ کمتری کا شکار بنایا ہے۔ صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو طالب علم بورڈ امتحانات میں کئی کئی مرتبہ ناکام ہو،اُردو اسی کے سر پر سوار کی جاتی ہے۔ذہین طلباء کو اُردو کا انتخاب کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔اُردو صحافت کے نام پر کثافت کو فروغ دیا جارہا ہے، معیار کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا جارہا۔اس سے بڑا المیہ ہمارے لیے اور کیا ہوسکتا ہے؟ 
آج جہاں ایک جانب اپنوں اور بے گانوں کی جانب سے اُردو زباں کے ساتھ بلا کا بھید بھاؤ روا ہے، وہیں اس بات سے انکار بھی ممکن نہیں کہ خدانخواستہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے علمی اور ثقافتی ورثے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔اس ضمن میں جتنی جلد ی بیدار ہوکر اس کی حفاظت کے لیے اقدامات کئے جائیں، اُتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہوگا اور اس کی حفاظت کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے اپنے گھروں میںرائج کیا جائے اور اپنے بچوں میں اس زباں کے تئیں احساسِ کمتری  پیدا کرنے کے بجائے اُن کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔مزید برآں اُردو کتابوں،اخباروں اور رسالوں کو خرید کر اُن کا مطالعہ کرنا بھی وقت کا ناگزیز تقاضہ ہے۔
رابطہ :برپورہ ،پلوامہ
ای میل [email protected]