اُداس لمحے

لوگ جسے بچپن کہتے ہیں ہمارے لئے وہ احساس اور جذبات کا وہ سمندر تھا جہاں سوائے گہرائی کے اور کچھ بھی نہیں۔ آج بھی خیالوں میں ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے کسی ندی کے کنارے دوڈتے ، لہراتے بل کھاتے دور تک نکل جاتے ہیں  خیالوں میں کبھی ہنستی اور کبھی روتی رہتی ہوں۔ من ہی من میں ان لمحوں کو یاد کرتے ہوئے عماو کا مسکراتا چہرہ دیکھتی اور وہ نہ بھولنے والا پل جب عماد میری چوٹی کھینچ کر مجھے تنگ کرتا۔ خیام برف کے گولے عماد پر پھینکتا اور ہم دونوں دور  تک اُس کے  پیچھے دوڑتے اور اُس کو پکڑ کر برف پر گھسیٹتے ہوئے ہنستے کھیلتے کب گھر پہنچ جاتے پتا ہی نہیں چلتاتھا۔
سب ہماری دوستی کی مثال دیتے اور اس پر رشک کرتے یہ ہمارے لئے دوستی نہیں روح کا رشتہ تھا۔ ہم دور سے ہی ایک دوسرے کے چہرے سے من کی باتیں پڑھ لیتے تھے۔  اگر دوستی یہی ہوتی ہے تو لاجواب ہوتی ہے؟ کھانا، اسکول جانا ،اسکول کا ہوم ورک، گھر کا کام، کھیل کود ان سب کے علاوہ لڑائی جھگڑے، ایک دوسرے کے کپڑے چھپانا، ہوم ورک کے پنے کاٹ دینا، برے برے پرینک کرنا یہ ہمارے روز کا معمول تھا۔
وقت اور زمانے کو کس کی خوشی نصیب ہوئی ہے۔ جو ہماری ہوتی۔ دکھا دیا اس نے کہ وقت اور زمانہ بس ان کا ہوتا ہے جو اسے خرید لیتے ہیں۔ ہمارے لئے تو بس پل کی خوشیاں اور عمر بھر کا غم تھا۔ کافی دنوں سے عماد کے چہرے پر مسکراہٹ غائب سی ہوگئی تھی۔ وہ گم سم رہتا۔ من ہی من میں سوچتا رہتا، آنکھیں اندر کی اور دھنستی سستی کا اعلان کرتی ہوئیں۔  پڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا تھا اور نہ ٹھیک طرح سے کھا پی رہا تھا۔ مجھے اور خیام کو اب عماد کی کمی بری طرح کھٹکنے لگی تھی، شاید اس لئے کہ وہ اب اسکول بھی نہیں آتا تھا اور ہم سے دور دور رہنے لگا تھا۔ ہمیں اسکی فکر ہونے لگی تھی۔ میں نے اور خیّام نے اس سے کئی بار پوچھنے کی کوشش کی لیکن وہ ہر بار بات ڈال دیتا اور بنا کچھ کہے نکل جاتا۔ میں نے اور خیّام نے یہ طے کرلیا کہ عماد کی اس خاموشی کے پیچھے راز کیا ہے؟ اسکا پتا لگانا ہوگا کیوں وہ ہر وقت خاموش اور ڑرا ڈرا سا رہتا ہے؟ کیوں اسکول نہیں آتا؟ کیوں اب اس کی مسکراہٹ اُداسی میں تبدیل ہوگئی ؟ میں اور خیام ایک بار موقع ملتے ہی عمر کے پیچھے پیچھے چوری چھپے نکل گئے۔ عمر بستی سے دور ندی کے کنارے ایک چھوٹے سے میدان میں، جہاں بہت سارے لڑکے باتیں کررہے تھے، پہنچ گیا اور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا اور کافی دیر تک باتیں کرتا رہا۔ اس کے بعد ایک لڑکے نے جیب سے بہت ساری چیزیں نکالیں اور عمر کے ہاتھ میں دیں پھر وہ ایک جگہ بیٹھ گئے اور یہ چیزیں کھولنے لگے۔ پتہ چلا وہ سب مل کے Drugs لے رہے تھے۔ عمر کو یہ سب کرتے دیکھ میری سانسیں رک گئیں۔ خیام کے چہرے کے سو رنگ بدلے۔ اُس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ عماد یہ سب کچھ کرنے لگے گا۔ یہ سب خیام کے جذبات سے باہر تھا اور معصومیت میں وہ یہ سب دیکھ کر بنا سوچے سمجھے عماد کے پاس گیا اور بنا کچھ کہے زور کا تھپڑ مارا اس کے زرد گال پر ایسا رسید کیا کہ گال رنگ کا ہوگیا۔ ہم غصے میں لال پیلے اُس کے گھر کی طرف جانے لگے لیکن میں نے خیام کو روک لیا، وہ شائد اس لئے کیونکہ ہم عماد کو خود سمجھاناچاہتے تھے۔ اس حادثے کے بعد بہت باہر عماد سے ملے لیکن اس نے ایک بار بھی وجہ نہیں بتائی کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ ہم نے عمر کو کئی بار ان لڑکوں سے ملتے ہوئے دیکھا اور اسے ہر بار روکنے کی کوشش کی لیکن وہ تھا کہ ہماری بات مانتا ہی نہیں تھا اس طرح دن ہفتوں اور ہفتے  مہینوں میں گزرتے گئے۔ اس طرح ہماری دوستی کمزور ہونے لگی۔ میں اور خیام اب عماد کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستے تھے۔ ایک دن خبر ملی کی عماد بہت بیمار ہے۔
ہم عماد سے ملنے اُس کے گھر گئے۔گھر میں اس کی ماں داڑھیں مار مار کو رو رہی تھی اور بس بار بار ایک ہی بات دوہرا رہی تھی کہ اس معصوم بچے  نے کونسا گناہ کیا جو اسے اوپر والا اتنی بڑی سزا دے رہا ہے۔ میرے بچے کو اتنی بڑی بیماری کیسے لگ سکتی۔ میں اور خیام عماد کے کمرے میں گیے جہاں وہ بند آنکھوں سے اپنے جسم کی سانسوں سے  لڑائی لڑ رہا تھا۔ اسے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی۔ ہم نے اس سے بات کرنے کی کوشش تو اس نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے خیام کا ہاتھ پکڑ کر معافی مانگی اور کہا میں مجبور تھا۔ ہم نے پھر سے وجہ پوچھی تو پھر تھوڑا سا مسکرایا اور آنکھیں بند کرکے لمبی خاموشی اختیار کرلی۔ وہ خاموشی ہم دونوں کے لیے کسی خوفناک چیز سے کم نہیں تھی۔ وہ ہمارے دوست عمر کی آخری سانس تھی جو ہمارا انتظار کر رہی تھی، جس نے مجھے اور خیام کو ساری عمر کے لئے اکیلا اور خاموش کر دیا۔ ہماری آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسو ہماری دوستی کی بنیاد کو اپنے ساتھ بہا کر لے جا رہے تھے، ساتھ میں جارہا تھا ہمارا وہ دوست جو کبھی ہماری جان ہوا کرتا تھا۔ اب ہمارے محلے کی گلیاں اداس اداس لگ رہی تھیں۔ وہ برف کا موسم پھیکا پھیکا سا لگ رہا تھا۔نہ کوئی  برف کے گولے کھانے والا رہا اور نہ مارنے والا اور نہ ہی کوئی میری چوٹی کھینچنے والا۔ تنہائی کی چادر میں آٹھوں پہر وقت کے دریچوں سے اپنے ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے مسکراتے خود کو سہلاتے زندگی کے پھینکے لمحوں کو گزارتے جا رہے تھے۔ زندگی بھی نہ جانے کہاں کیا کچھ دے جائے کسے پتہ بس ایک نیا مقصد دے گئی تھی۔ اسی مقصد کے لئے ہماری سانسیں چل رہی تھیں ورنہ کہاں دیتی ہیں یہ سانسیں ساتھ جب کوئی اپنا دور چلا جائے۔ ہم بس اتنا جاننا چاہتے تھے کہ عماد نے یہ راستہ کیوں چُنا۔ کیوں ہمیں وہ لمبی اداسیاں دے کر خود نکل گیا۔ میں اور خیّام اپنی اداسی اور ناامیدی کا سہارا لئے ہوئے عماد کے کمرے میں بہت دنوں کے بعد جارہے تھے۔ عماد کے ہاتھ سے بنائی ہوئی کمرے کی دیوار پر میری اور خیام کی تصویر، جس میں خیام اور عماد مل کے میری دونوں چوٹیاں کھینچ رہے ہیں،دیکھتے ہی چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کا احساس ہوا۔ خیام نے عمر کے کپڑوں کی الماری کھولی اور اس کے کپڑوں میں سے ایک نوٹ بک ملی، جس پر عماد کے ہاتھ کی لکھاوٹ تھی۔ ہم نے اسے پڑھنا شروع کیا، لکھا تھا ”میرے پیارےبھائی خیام اور پیاری بہن زارہ! …….. تم جاننا چاہتے تھے نا میرے مرنے کی وجہ۔ میری دادی اور بہن کے  ایکسیڈنٹ کے بعد میرے باپ نے کبھی میراcare  نہیں کیا اور وہ ہر روز شراب پی کے آتے اور میری ماں اور مجھے مارتے ۔مجھ سے یہ بات برداشت نہیں ہوا اور اسی لئے میں نے یہ راستہ چنا۔ مجھے معاف کر دینا شاید میں بزدل تھا جو حالات کا سامنا نہ کر سکا…….
 
���
 متعلمہ کلاس ہشتم
 رابطہ؛ بونہ گام شوپیان، موبائل نمبر700631688