آج انسان رزق کی تلاش میں لیل ونہارسرگرداں رہتاہے ۔کسی کےمقدرمیں رزق کم توکسی کےمقدرمیں زیادہ ۔لیکن جس کےمقدرمیں زیادہ ہے، وہ بھی شکوہ کرتاہے، جس کےمقدرمیں تین یادووقت کی روٹی توہےپروہ بھی شکوہ کرتاہے کہ مجھے رزق کم دیاگیاہے، میرے اخراجات کیسے نکلیں گے،اہل وعیال بال بچوں کی پرورش کیسے ممکن ہوگی وغیرہ۔ اِسی سوچ وفکرمیں انسان اپنےمالکِ حقیقی کی ناشکری پراُترآتاہے۔ سوچناچاہئے کہ اللہ تعالیٰ نےاگر ہمیں مالدارنہیں بنایا، دنیاوی جاہ وجلال نہیں دیامگرہمارے ہاتھ پیر، دل و دماغ ،عقل و فہم، سمجھ بوجھ جسمانی خوبصورتی وتوانائی، صحت وتندرست جسم جیسی عظیم دولت سے نوازاہے۔ یقیناًصحت وتندرستی اللہ رب العزت کی عطاکردہ عظیم دولت ہے۔ اگر یہ دولت برقراررہی توہماری ظاہری دولت بھی برقرار رہےگی۔ اگرصحت وتندرستی وتوانائی جیسی عظیم دولت ختم ہوگئی تو پھر مالداری اور جاہ و حشمت کس کام کی؟ اب غورطلب امریہ ہےکہ جتنی دولت تھی، وہ تمام دولت لمحوں میں ختم ہوجائےگی ۔اب ہمارے پاس بچاکیا؟ فانی دنیاکی فانی اشیاءبروقت حاصل نہ ہونےکی صورت میں رب العالمین کی ناشکری نہ کریں بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دین کی خاطراسلام کی خاطردی گئی قربانیوں کویادفرمالیں تویقیناً ناشکری سے اپنی زبان محفوظ رہےگی۔ صحابہ کرام کی قربانیاں تاریخ کے صفحات پرثبت ہوچکی ہیں ۔بخاری شریف کتاب المغازی باب غزوة سیف البحرمیں پتے کھا کرگزارا کرنے والی فوج کاتذکرہ موجودہے اور اُسی فوج کوپتوں والی فوج بھی کہاجاتاہے۔ اللہ پاک پارہ نمبر 4 سورہ ال عمران آیت نمبر139میں فرماتے ہیں’’اور سستی نہ کرو اور غم نہ کھاؤ، تم ہی غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو‘‘۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساحل کی طرف ایک لشکر بھیجااوراس لشکر کاامیرحضرت ابو عبیدہ بن جراح کو بنایا،یہ لشکرتین سوافراد پر مشتمل تھااورخودمیں بھی ان میں شامل تھا ،ہم لوگوں کوقافلہ قریش کی گھاٹ میں روانہ کیاگیاتھا ۔ابھی ہم لوگ راستے ہی میں تھےکہ ہماراتوشہ ختم ہوگیا۔ اسلامی لشکرکے امیرحضرت ابوعبیدہ نےحکم دیاکہ لشکرکےتمام افراداپنااپناتوشہ ایک جگہ جمع کردیں ۔ان کے حکم کےمطابق سب توشہ جمع کیاگیا ،کھجوروں کےدوتھیلے ہوئے ۔روزانہ تھوڑا تھوڑاتوشہ ہمیں ملتاتھا۔جب وہ بھی ختم ہوگیاتوسب کوایک ایک کھجوردیاجاتاتھا۔ حضرت وہب بن کیسان نے پوچھا:ایک کھجورسے کیاہوتاہوگا؟ حضرت جابربولے جب وہ بھی ختم ہوگیاتو اس کی قدروقیمت ہمیں معلوم ہوئی اورپھروہ وقت بھی آیاکہ جب ہمیں سخت بھوک لگی اورکھانے کوکچھ نہ رہاتوہم پتےکھاکروقت گزارنےلگے، اسی لئےہماری فوج کانام پتوں والی فوج پڑگیاتھا، جب ہم سمندرکےکنارے پہنچےتوسمندرنے ہمارے لیےایک چھوٹےپہاڑکےبرابرایک مچھلی باہرپھینک دی، اس سےپہلے ہم نے اتنی بڑی مچھلی کبھی دیکھی نہیں تھی، اُس مچھلی کوعنبرکہاجاتا ہے ۔امیرلشکر حضرت ابوعبیدہ نےاس کوکھانےکاحکم دیا توفوج کےسارے افرادمسلسل پندرہ دنوں تک یااٹھارہ دنوں تک اس مچھلی کوکھاتےرہےاور اس کی چربی بدن پرملتے رہے، یہاں تک کہ ہمارے جسم پھرسے پہلی حالت پر آگئے۔آگےحدیث یوں ہے ترجمہ ۔’’جب ہم لوگ مدینہ منورہ واپس لوٹےاور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےاس مچھلی کاتذکرہ کیاتوآپؐ نےفرمایا:اس مچھلی کوکھاؤ ،یہ روزی ہے جو اللہ تعالیٰ نے عطافرمایاہے۔اگرتمہارے پاس اُس مچھلی کاکچھ حصہ بچاہواہے تو ہمیں بھی کھلاؤ، کچھ لوگوں نے حضورؐکی خدمت میں اس مچھلی کاکچھ حصہ پیش کیا تو آپؐ نےبھی اس کوتناول فرمایا‘‘ ۔یہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں ،جنہوں نے بھوک و پیاس کو برداشت کرکے پتوں پراپناگزاراکرکے دین ِ اسلام کو پھیلایا ہے اورآخر تک زباں پرشکوہ وشکایت آنے نہ دیا۔ یقیناًاللہ رزاق ہے، ہمارے گمانوں سےزیادہ ہمیں عطاکرتاہے۔ ہمیں چاہیے کہ نا شکری نہ کریں بلکہ ہمیشہ شکرگزاربندہ بن کررہیں۔ اس لیے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک سورہ بقرہ آیت نمبر153میں ارشادفرمایا۔’’تم مجھے یادکرو میں تمھارا چرچاکروں گااورمیراحق مانواور ناشکری نہ کرو‘‘۔
) رابطہ۔9886402786 )