پیر زادہ شاہد صابر
یہ ایک مسلمہ حقيقت ہے کہ اسلام تمام عالمی مذاہب میں سے اپنی ایک انفرادی شناخت اور بے مثال تاریخ رکھتا ہے ۔ ہمارے مسلم اکابر و اسلاف نے اپنے محکم یقین ،پیہم عمل ،روحانی قوت اور مجاہدانہ خصوصیت کی بِنا پر بعض ایسے معرکے سر کئےہیں جن پر نہ صرف مسلمان قوم نازاں ہے بلکہ دیگر اقوام ِ عالم بھی انگشت بداندان ہیں۔ ہمارے اسلاف اپنی عالی ہمت ،خوداری ،غیرت مندی اور اخلاقی اقدار کی بِنا پر پوری دنیا پر غالب تھے لیکن عصر نو کا مسلم اسلاف کی ان تمام تر تعلیمات و اوصاف سے بے رُخی و اجتنابیت اختیار کر چکا ہے ،چنانچہ قوم کی اس غفلت ،ناآشنائی اور بے حسی کا یہ المیہ اقبال جیسے مفکر ،مصلحِ قوم اور حساس مغز شاعر کے لیے بھی باعثِ تشویش اور الم ہے ۔
میں کہ میری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ
میری تمام سر گزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو
(ذوق و شوق)
یہ ایک فطری عمل ہے کہ جو افراد یا اقوام اپنی مٹی ،اصلیت یا اسلاف سے بے رخی و بے وفائی اختیار کر لیتی ہیں ،وہ زمانے اور وقت کی تیز گامی اور بے رحم گردش کا شکار ہو کر آلام و مصائب کے بھنور میں دھنس جاتی ہیں۔؎
وہ شخص با عمل تھا مگر ضد پہ اڑ گیا
اپنوں سے دور رہ کے مصیبت میں پڑ گیا
مٹی سے اپنی جو بھی وفائیں نہ کر سکا
وہ شجر آندھیوں میں جڑوں سے اکھڑ گیا
اقبال کے مجموعی افکار اور شعری تخلیقات کا ایک اچھا خاصہ حصّہ اسی اسلافی تعلیمات کی غمگساری پر مبنی ہے۔اقبال کے مطابق عصرِ نو کا مسلم اسلاف کی ان تمام تر تعلیمات و اقدارکے بر عکس افعال کو انجام دے کر نہ صرف اسلامی عقائد کی روایت سے انخراف کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات اپنی لا علمی اور کٹ حجتی کے سبب احکامِ الٰہی کے خلاف بھی تیغ بکف کھڑا ہو جاتا ہے۔مغربیت اور مادیت پسندی نے اس کے دائرہ افکار کو محدود کر دیا ہے۔ یہ کسی بھی شعبے میں اسلاف سے کوئی بھی نسبت نہیں رکھتا ہے۔ نظم “جوابِ شکوہ” میں اقبال نے ان نقاط کا بیان کر کے کہیں نہ کہیں بین السطور اس زیاں پر اپنی بے قراری و تشویش کو بھی ظاہر کیا ہے۔؎
�حیدری فقر ہے نہ دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے
�تم ہو آپس میں غضبناک وہ آپس میں رحیم
تم خطا کار و خطا بین و خطا پوش و کریم
�خود کشی شیوہ تمہارا ,وہ غیور و خودار
تم اخوت سے گریزاں وہ اخوت پہ نثار
� بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف مد فن تم ہو
قوم کا اسلافی اقدار سے بے رُخی اور غفلت کا المیہ اقبال کی تشویش کو اُس وقت انتہا تک پہنچا دیتا ہے ،جب انھیں نہ صرف قوم کے عام افراد بلکہ با شعور واعظ ،مبلغ و ائمہ حضرات بھی ا سلافی اقدار اور خلافت وغیرہ کے تصّور سے کوسوں دُور نظر آتے ہیں ۔چنا نچہ ان افراد کی یہ کھوکھلاہٹ اور نا استواری ملتِ بیضا کے لیے ایک پنپتا ہوا خطرہ ہے۔
�کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بد گماں حرم سے
کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوِ دلنوازی
� یہ بتانِ عصرِ حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ , نہ تراشِ آزرانہ
� واعظہ قومِ کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذان روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
� قوم کیا چیز ہے قوم کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ دو رکعت کے امام
�شکایت ہے مجھے یا ربّ خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
اقبال تو مسلم قوم کی اس غفلت اور اسلافی اقدار و تعلیمات کے فقدان پر نالاں تھے لیکن عصرِ نو کے مسلم بالخوص نوجوان کا مغربی تہذیب اور رسم و رواج کا فریفتہ و مقلد ہونا اقبال کی تشویش کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ وہ قوم کے نوجوان کی اے بے سود اور ایمان سلب تقلید پربے حد رنجیدہ ہیں ،چنانچہ اپنی شعری تخلیقت میں جا بہ جا مغربی تہذیب اور رسم و رواج کے منفی نقاط کی نشاندہی کرتے ہیں تاکہ ملت کا فرد اس ظاہری شکر اور حقیقی زہرِ ہلاہل سے دور رہ سکے۔
�تیرے صوفے ہیں افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی
�لے گئے تثلیث کے فر زند میراثِ خلیل
�کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
�دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے
�تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
اقبا ل قوم کے اس زیاں پر تن تنہا غمگین ہیں لیکن محرم و راز داں نہ ملنے کی صورت میں نظم” ہلال عید “میں چاند سے مخاطب ہو کر اپنے دردِ نہاں کو بیاں کرتے ہیں۔ اقبال قوم کی اس زبوں حالی کا واحد علاج اسلافی اقدار و تعلیمات کی باز یابی ہی کو قرار دیتے ہیں ۔ وہ قوم کی اس بے حسی اور زیاں کے ازالے کے لیے خدا تعالیٰ سے ہی دست بہ دُعا ہیں۔؎
� اقبال کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا
�ا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
�میں بلبلِ نالاں ہوں اک اجڑے گلستان کا
تا ثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے
�رگِ تاک منتظر ہے تیری بارشِ کرم کی
کہ عجم کے مے کدوں نہ رہی مے مغانہ
( ڈولی پورہ ترہگام کپوارہ، رابطہ۔6006190705)
<[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔