اَجودھیا سے گراؤنڈ رپورٹ

یہ  ۲۴؍اور ۲۵ ؍نومبر کی درمیانی رات ہے۔ رات کے گیارہ بجے میں اجودھیا پہنچ چکا ہوں،شہر کو دولہن کی طرح سے سجایا گیا ہے،رام بھکتوں کے استقبال اور مبارک باد کے بینرز کے ساتھ ساتھ’’ رام کا مندر ہم بنائیں گے،یہیں بنائیں گے ‘‘جیسے نعرے ہر اور چسپاں نظر آرہے ہیں۔چاروں اور ہزاروں کی تعداد میں پولیس اور خصوصی فورس تعینات ہے،ریلوے اسٹیشن پر ہزاروں کی بھیڑ ہے ،ان میں کچھ کارتک پوجا سے واپس جارہے ہیں ،کچھ نقل مکانی کررہے ہیں تو سینکڑوں لوگ 25؍ نومبر کے پروگرم کے لئے آرہے ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ شہر چھوڑ کر جانے والوں میں کچھ ہندو بھی ہیں، حو حالات معمول میں آنے تک اپنے رشتہ داروں کے یہاں جارہے ہیں،سخت چیکنگ کی جارہی ہے،کہیں سماجی کارکن تو کہیں صحافی بننا پڑ رہا ہے۔شاید شہر میں زیادہ اندر تک اَنٹری نہ ہوسکے ، سیکورٹی فورس اور خفیہ دستے الرٹ ہیں، جواب دینا مشکل ہوگیا ہے۔کوشش یہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں تک پہنچ سکوں ۔ابھی تک جن مسلم بھائیوں سے ملاقات ہوئی ہے وہ ظاہری طور پر بہت مضبوط نظر آرہے ہیں لیکن اندر سے سہمے ہوئے ،البتہ میڈیا نے حد سے زیادہ پروپیگنڈہ کیا ہوا ہے۔
 یہ ایک بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ہندوؤں کے چہرے اور باڈی لینگویج سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے انہوں نے اجودھیا کو فتح کرلیا ہو اور رام مندر بناہی لیا ہو۔کہیں کہیں جتھے کے جتھے نعرے بھی لگارہے ہیں۔’’آج تک ‘‘اور’’ زی نیوز‘‘ کے رپورٹر ہر اور مائک لے کر گھوم رہے ہیں۔میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا ہوں۔پہلی ٹرین کی آمدرات ساڑھے گیارہ بجے کے آس پاس شیوسینکوں سے بھری اسپیشل ٹرین ممبئی سے اُجودھیا ریلوے اسٹیشن پہنچی ہے۔ہزاروں شیو سینک ہاتھوں میں ڈنڈے اور بینر لئے ہوئے اسٹیشن سے ہی فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے باہر نکلے۔ ان کے آنے کے بعد سے ماحول اور کشیدہ ہوگیا ہے۔سیکورٹی اہل کار ہاتھوں میں ٹارچ اور میٹل ڈیڈیکٹر لئے ہوئے یہاں وہاں دوڑ رہے ہیں۔پورا ماحول بھگوا ہوگیا ہے ۔ابھی پان کی دکان پر ایک پجاری ملے، مجھے یہاں دیکھ کر بہت حیران ہوئے .
کہنے لگے: آپ یہاں کیسے؟ وہ میری موجودگی پرشور بھی مچاتے مگر میں نے کہا: بابا میں یہیں کا ہوں۔کہنے لگے میاں! میں نے آپ کو یہاں کبھی دیکھا نہیں، یہاں سے نکلو ،یہ شیو سینا والے کہیں تم کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔
حکومتی انتظامات کا جائزہ
متنازعہ مقام تک پہنچنے کے کئی راستے ہیں جنہیں حکومت نے سیل کردیا ہے ۔صرف ایک راستہ دشرتھ محل کے سامنے سے ہنومان گڑھی ہوتے ہوئے رام لیلا کے درشن کا ہے جس پر چاروں اور ڈرون کیمرے لگائے گئے ہیں۔پولیس،سی آر پی ایف ،پی اے آ ر ایف (یوپی )کے چاق وچوبند اہلکار ہر ایک آدمی کی چیکنگ کررہے ہیں۔ایک شناختی کارڈ جاری کیا گیا ہے جس کے پاس وہ ہوگا، اُسی کو اس راستہ سے جانے دیا جائے گا، بار بار اس کا اعلان کیا جارہا ہے۔یہاں پر مجھے ایک صحافی مل گئے جو یہاں دو روز سے حالات کور کررہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اب تک 20 ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار یہاں آچکے ہیں جن میں سی سی آر.پی.ایف اور پی.اے.سی کی 13 ؍کمپنیاں شامل ہیں ۔نیز اے.ڈی.جے ٹیکنیکل آسوتوش پانڈے اور جھانسی رینج کے ڈی.آئی.جی سبھاش سنگھ بگھیل کو خاص طور تعینات کیا گیا ہے اور اجودھیا کو دو زون میں تقسیم کیا گیا ہے :ایک ریڈ زون جس میں وشو ہندو پریشد کے پروگرام ہونے ہیں۔ دوسرا بلیو زون جس میں شیو سینا کے پروگرام ہونے ہیں۔ان دونوں افسروں کے کاندھوں پر متنازعہ مقام کی حفاظت کی ذمہ داری ہے۔رام للا کے درشن کے لئے 100 میٹر پہلے بیریکیڈنگ کیا گیا ہے،وہیں سے درشن کیا جاسکتا ہے۔پورے شہر و اطراف میں دفعہ 144 نافذ ہے۔ہمیں دشرتھ محل کی اور جانے والے راستہ سے کافی پہلے روک دیا گیا ہے ۔سخت چیکنگ کے بعد موبائل ضبط کرنے کی کوشش کی گئی جو صحافتی کارڈ اور دو چار حوالے دینے سے اس شرط پر واپس کیا گیا ہے کہ ہم فوراً یہاں سے واپس جائیں گے۔
ملت کے خدشات اور برسر موقع حالات:
اجودھیا میں مسلم آبادی تین جگہوں پر رہتی ہے ،اس میں سب سے زیادہ حساس مقام  بابری مسجد سے بالکل متصل رہنے والے مسلمانوں کا ہے۔اجودھیا میں تقریباً آٹھ ہزار مسلمان رہتے ہیں ۔میری ملاقات اسلم پان والے سے ہوئی ان سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ چار ہزار سے زائد مسلم فیض آباد،بارہ بنکی اور لکھنؤ وغیرہ اپنے رشتہ داروں یا جاننے والوں کے یہاں جاچکے ہیں،بہت سارے امن پسند ہندو بھی اجودھیا سے جاچکے ہیں۔ جو ہندو مسلمان ہیں تو وہ غلہ و سامان اکٹھا کرکے اپنے گھروں میں دبک گئے ہیں ۔اسلم نے بتایا کہ ابھی تک تو سب ٹھیک چل رہا ہے پر کل ادھو ٹھاکرے کے آنے بعد کیا ہوگا خدا ہی جانتا ہے۔اسلم نے مجھے بابری مسجد فسادات میں اپنا گھر گنوانے والے سیف القادری کے بیٹے فیصل سے ملنے کا مشورہ دیالیکن میرے آس پاس خفیہ دستے کے لوگ مستقل منڈلا رہے تھے، اس لئے میں نے کسی کو پریشانی میں ڈالنا مناسب نہیں سمجھا۔رات کے تین بج چکے ہیں، میں نے سوچا لگے ہاتھوں دو چار اور لوگوں سے ملاقات کرتا چلوں۔ چائے کی ایک دکان پر پہنچا ،اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کچھ بولنے سے کتراتا رہا۔دو چائے آرڈر کئے اور اس سے دکانداری کا پوچھا تو کہنے گا: جناب! آپ کو یہاں نہیں آنا چاہئے تھا، بہت غلط کیا آپ نے ۔ہم تو اس طرح کے حالات جھیلنے کے عادی ہیں۔میں نے کہا : میں تو یونہی آپ لوگوں کے احوال جاننے کی غرض سے آگیا تھا، ابھی جارہا ہوں۔ میرے اتنا کہتے ہی اس نے اندر کا غبار نکالنا شروع کیا ،بے ترتیب انداز میں اس نے بہت کچھ بتایا اوراخیر میں اس نے اپنا نام حبیب بتایا ۔اس کے دو بھائی شفیق اور کلیم اپنے رشتہ داروں کے یہاں جاچکے ہیں ۔حبیب بھی کل شام تک شاید چلاجائے یا رہے گا، ابھی شش و پنج میں ہے ۔چار بج چکے ہیں ، شور ہے کہ ممبئی سے دوسری ٹرین بھی پہنچنے والی ہے۔
 میرانقطہ نظر:
شیوسینا چونکہ بھیڑ جمع کرکے حکومت اور عدلیہ پر دباؤ بنانا چاہتی ہے تاکہ رام مندر کی تعمیر کے لئے دسمبر پارلیمانی سیشن میں حکومت خصوصی آرڈینینس لائے یا سپریم کورٹ جلد فیصلہ کرے۔تو دوسری طرف بی جے پی کی کوشاںہے کہ رام مندر کا مدعا پورے زور و شور سے اُچھلے اور الیکشن تک گرم رہے لیکن سہرا شیوسینا کے سر پر نہ  بندھے،بلکہ بی جے پی ہی اس کا دولہا بنے، اسی لئے وہ وشو ہندو پریشد کو سپورٹ کررہی ہے اس کے پروگرام کے لئے اجازت بھی دیا گیا ہے۔میڈیا کے ذریعہ زبردست پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،افواہوں کا بازار گرم کیا جارہا ہے،پچاس ہزار کی بھیڑ کو پانچ لاکھ بتایا جارہا ہے ۔ میڈیا اور فرقہ پرست لیڈر اجودھیا آنے والی بھیڑ کو اکسا رہے ہیں،فساد مچانے پر راغب کررہے ہیں،سیکورٹی دستے ابھی تک پوری طرح سے الرٹ نظر آرہے ہیں پر اگلے چار دنوں میں حالات کیا ہونگے ابھی اس پر نظریہ قائم کرنا مشکل ہے ۔ایسے میں جمعتہ العلماء ہند،مسلم پرسنل لاء بورڈ،جماعت اسلامی ہند سمیت سبھی ملّی جماعتوں کو چاہئے کہ ایک مشترکہ وفد لے کر سپریم کورٹ سے رجوع کریں،وزیر داخلہ اور صدر جمہوریہ سے ملاقات کریں اور ان پر اس کا دباؤ بنائیں کہ ہنگامی حالات میں فیض آباد ڈویڑن میں ہائی الرٹ جاری کرکے ہر ایک باشندے کی حفاظت کی ذمہ داری خود ہوم منسٹر لیں اور اس کے لئے سپریم کورٹ فوری آرڈر جاری کرے ۔نیز ملت کو افواہوں سے بچتے ہوئے خصوصی دعا کا اہتمام کرنا ہوگا اور اپنے اپنے علاقوں میں حالات پر پینی نظر رکھنا ہوگی، لاء اینڈ آرڈر کی بحالی کے لئے ایک ذمہ دار شہری اور ایک کامل مؤمن کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔
خصوصی شکریہ :
اجودھیا کے اس سفر کے لئے اس گمنام صحافی کا شکر گزار ہوں جس نے یہاں آنے کی تحریک دی،تنظیم ابنائے مدارس ویلفیئر ایجوکیشنل ٹرسٹ کے ذمہ داران و کارکنان کے علاوہ عزیز دوست محمد کا دل سے شکریہ،جن کے بغیر میری کوئی بساط نہیں۔جمعیتہ العلماء سلطان پور کے جنرل سکریٹری مولانا سراج ہاشمی کا دلی شکرگزار ہوں جنہوں نے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کروائی ۔صبح کے پانچ بج چکے ہیں، یہاں رُکنا اب میرے لئے بالکل مناسب نہیں اور نہ ہی وقت ہے، شیوسینکوں کی آمد کے سلسلہ میں اب اضافہ ہوگیا ہے،بابری مسجد کی زیارت ،شہداء کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے اور اقبال انصاری سے ملاقات کی تمنا دل میں لئے ہوئے اور اجودھیا کے مسلمانوں بلکہ یہاں کے سبھی باشندوں کے لئے امن و آمان کی دعا کرتے ہوئے میں کلکتہ کے سفر کے لئے روانہ ہورہا ہوں۔
رابطہ:ڈائریکٹر دیوبند اسلامک اکیڈمی و چیئرمین تنظیم ابنائے مدارس ویلفیئر ایجوکیشنل ٹرسٹ
