سبزار احمد بٹ
آکاش آفس سے آیا تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔
آج آکاش نے آتے ہی ہمیشہ کی طرح چائے کا تقاضا نہیں کیا ۔ نہ ہی مہرین سے کوئی بات کی ۔ سیدھے بیڈ روم میں چلا گیا ۔ اپنا بیگ دوسری طرف پھینک دیا ۔ اور خود بیڈ پر لیٹ گیا ۔ چہرے پر مایوسی چھائی ہوئی تھی، معصوم چہرہ لٹکا ہوا تھا ۔
مہرین حیران تھی کہ ہنستا مسکراتا آکاش آج اس قدر مایوس اور غمگین کیوں؟؟
آکاش کے چہرے کو دیکھ کر ترس آتا تھا ۔ ایسا لگتا تھا جیسے آکاش کا سب کچھ لٹ گیا ہو۔مہرین بھی فوراً بیڈ روم میں داخل ہوئی
آکاش کیا ہوا؟ آپ اتنے پریشان کیوں ہو؟
کچھ نہیں مہرین ۔ مجھے کچھ وقت کے لیے اکیلا چھوڑ دو پلیز….
آکاش آپ کو میری قسم ۔ ہوا کیا کچھ تو کہو؟
مہرین میں جسے اپنی جان کہتا تھا ۔ آج اس نے میری جان ہی نکال دی ۔ آج میرے ایک قریبی دوست نے میری پیٹھ پر وار کیا ہے ۔ میرے اعتماد اور بھروسے کا خون کیا ہے۔ اور آج کسی نے ثابت کر دیا کہ میں بیوقوف ہوں
مجھے اکیلا چھوڑ دو ورنہ میں مر جاؤں گا۔ یہ کہہ کر آکاش نے مہرین کو باہر نکالا اور دروازہ اندر سے بند کر دیا ۔
آکاش کا یہ رویہ دیکھ کر مہرین کا ماتھا ٹھنکا کہ شاید آکاش کو اس کی کرتوتوں کا پتہ چل گیا ۔
مہرین انتہائی خوبصورت لڑکی تھی ۔ جسے اپنے والدین نے حد سے زیادہ چھوٹ دے رکھی تھی ۔ سہیلیوں کے ساتھ گھومنا اور کالج کی مختلف پارٹیوں میں شریک ہونا اور رات دیر گئے تک باہر رہنا اس کی عادت بن چکی تھی ۔ جینز اور ٹاپ میں جب چاہے نکلتی تھی ۔فیشن کے نام پر اپنا حلیہ بگارتی تھی ۔ لیکن گھر والوں نے اسے آزاد خیال لڑکی سمجھ کر کھلی چھوٹ دے رکھی تھی ۔
شادی سے پہلے مختلف لڑکوں سے مہرین کی دوستی تھی اور کالج کے لڑکے اس پر جان چھڑکتے تھے۔ چھڑکتے کیوں نہیں انہیں تو کھیلنے کے لیے جو اتنا اچھا کھلونا ملا تھا ۔سب مہرین کے دیوانے تھے اور وہ خود شانک سے بے پناہ محبت کرتی تھی ۔ اور شانک بھی بظاہر مہرین کو چاہتا تھا ۔ بالآخر مہرین کے والدین نے مہرین کی شادی کرنا چاہی۔ جب اس سے شادی کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے بھلا جھجک کہہ دیا کہ وہ شانک سے محبت کرتی ہے ۔ شادی کرے گی تو شانک سے ۔ شانک تک جب یہ بات پہنچی تو خوش ہونے کے بجائے اس کے چہرے کا رنگ زرد ہوگیا۔ اس نے بہانے بنانے شروع کئے اور شادی سے مکر گیا. دوستوں نے جب پوچھا تو شانک کا جواب یہی تھا
یار ٹائم پاس تک تو ٹھیک ہے لیکن شادی وہ بھی مہرین سے!!!!!
۔ نہیں نہیں!!!! میں ایسا نہیں کر سکتا ۔ اس کا چال چلن تو آپ سب کو معلوم ہے ۔ کل معاشرے کو کون سا منہ دکھاؤں گا؟؟
خیر مہرین سمجھ گئ کہ شانک اس کے ساتھ ٹائم پاس کرتا تھا اب اس نے شادی کا فیصلہ اپنے والدین پر چھوڑ دیا ۔
تقریباً ایک مہینے کے بعد باپ نے مہرین اور اس کی ماں کو بھلایا ۔
مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے ۔
کہیئے کیا کہنا ہے
دراصل جلالدین اپنے پوتے آکاش کا رشتہ لے کر آیا تھا۔ لڑکا نہایت شریف ہے صوم الصواۃ کا پابند ہے اور ڈی ۔ سی ۔ آفس میں بطور ہیڈ کلرک کام کرتا ہے ۔ مہرین کی ماں نے ہاں کر دی اور دونوں میاں بیوی مہرین کی طرف دیکھنے لگے۔
میری طرف کیا دیکھ رہیں ہیں اگر آپ دونوں کا فیصلہ یہی ہے تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے
اس طرح سے مہرین اور آکاش کا رشتہ طے پایا ۔ شادی کے ایک سال تک سب کچھ ٹھیک چلتا تھا ۔ مہرین نے بھی اپنے چال چلن اور پہناوے میں کچھ کچھ تبدیلی لائی ۔ آکاش نے مہرین کو کسی قسم کی کمی محسوس نہیں ہونے دے ۔ مہرین بیمار ہوتی تو آکاش رات رات بھر جاگتا تھا۔شاید ایک ماں بھی اپنی بیٹی کا اس طرح خیال نہیں رکھتی جس طرح آکاش مہرین کا رکھتا تھا ۔ آکاش چونکہ شریف النفس انسان تھا اس لئے کبھی مہرین سے اس کے ماضی کے بارے میں نہیں پوچھا ۔ اور کبھی کسی چیز سے یا کہیں جانے سے نہیں روکا۔ لیکن کہتے نا حد سے زیادہ آزادی بھی ٹھیک نہیں ہوتی ۔
ایک دن مہرین اور آکاش بیٹھے تھے اتوار کا دن تھا آکاش کی چھٹی تھی ۔ دونوں باتیں کرتے تھے کہ اتنے میں مہرین کا فون بجا۔
ہلو!!! ہلو!!!!
وعلیکم السلام ۔آپ کون؟؟؟
اوو شیزہ !!!!! آج کیسے یاد کیا ؟
نہیں نہیں ۔ میں نہیں آسکتی ہوں ۔اب میں شادی شدہ ہوں.
نہیں اب کہاں ممکن ہے ۔ میں تمہیں شام کو فون کرتی ہوں ۔ یہ کہہ کر مہرین نے فون رکھ دیا
مہرین کون تھا ؟
میرے کالج کی ایک سہیلی شیزہ تھی
کیا کہہ رہی تھی؟
کالج کی سہیلیوں نے پہلگام کی سیر کا پروگرام بنایا ہے۔ یہ چاہتی ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ جاؤں لیکن میں نے صاف انکار کر دیا ۔
کیون کیا انکار تم نے؟؟
بھلا میں نے تمہیں کبھی روکا ہے؟
مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے
یہ لوگ پیار سے بلاتے ہیں تو جاؤ ۔
مہرین بے حد خوش ہوئی اور اسی وقت شیزہ کو فون کر کے بتایا کہ اُسے پہلگام جانے کی اجازت مل گی ۔
چند دن بعد مہرین اپنی سہیلیوں کے ساتھ پہلگام پہنچی ۔ جہاں شانک پہلی سے ہی مہرین کا انتظار کرتا تھا ۔ بلکہ شانک کے ہی کہنے پر شیزہ نے مہرین کو پہلگام بلایا تھا۔
حالانکہ مہرین کو اب بہت ہی نیک، شریف اور دیندار شوہر ملا تھا۔اسے اب پرانی عادات سے توبہ کر لینی چاہیے تھی ۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ عادتیں بڑی مشکل سے پیچھا چھوڑتی ہیں ۔ مہرین کے دل میں پہلی محبت پھر سے جاگ اٹھی ۔ اسے یاد ہی نہیں رہا کہ شانک نے اسے کتنا بڑا دھوکہ دیا، خیر دونوں نے لمبی ملاقات کے بعد ایک دوسرے سے گلے شکوے کئے اور ایک دوسرے کو فون نمبر دے دئیے اس کے بعد مہرین شانک سے فون پر باتیں کرتی رہی اور کئ بار شیزہ کے کہنے پر چوری چھپے شانک سے ملنے بھی گئی ۔ اس طرح سے مہرین آکاش کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی ۔ آکاش جب کبھی پوچھتا تھا مہرین اتنی لمبی بات کس سے ہو رہی ہے تو مہرین شیزہ کا نام لیتی تھی کہ یہ شیزہ ہے ۔
ایک دو بار آکاش نے خود بھی فون چیک کیا تو وہاں شیزہ کا نمبر دیکھا تو آکاش شرمندہ ہوا اور اس کا سارا شک دور ہوگیا۔
آج جب آکاش آفس پہنچا تو اس کے ایک جگری دوست اور کلیگ نے کہا
آکاش ایک بات پوچھوں؟ برا تو نہیں مانو گے؟
نہیں یار میں برا کیوں مانوں گا؟
یار آکاش تمہاری بیوی…….
ہاں ہاں رک کیوں گئے؟؟ کہو کیا بات ہے؟
تمہاری بیوی تمہیں دھوکہ دے رہی ہے ۔
میں نے اسے پرسوں ایک لڑکے (شانک) کے ساتھ پارک میں دیکھا.
یہ کیا کہہ رہے ہو آپ؟
ضرور آپ کی آنکھوں کو دھوکہ ہوا ہے
نہیں یار دھوکہ تو تمہیں ہوا ہے ۔ تمہاری بیوی تمہاری سادگی کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے
اور ہاں وہ شانک سے فون پر باتیں بھی کرتی ہے اس نے شیزہ کے نام سے شانک کا نمبر فون میں محفوظ کیا ہے ۔
اب آکاش کی سمجھ میں کچھ کچھ آنے لگا ۔یہ سن کر آکاش کی جیسے کمر ہی ٹوٹ گئ ۔ اپنے آپ سے پوچھنے لگا۔ آخر میرے پیار میں کیا کمی رہ گئی جو مہرین نے مجھ سے اتنا بڑا دھوکہ کیا ؟
آج جب گھر لوٹا تو درد اور مایوسی آنکھوں سے ٹپک رہی تھی ۔ مہرین نے جب آکاش کے سامنے کھانا لایا تو اس نے یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ مجھے بھوک نہیں ہے
بھوک کیسے نہیں ہے ۔ آپ نے تو صج ایک کپ چائے پیا ہے ۔
نہیں میری جان دھوکہ کھانے کے بعد کسی چیز کی بھوک نہیں رہتی ۔
آکاش کہ بہکی بہکی باتوں سے مہرین سمجھ گئی کہ آکاش کیا کہنا چاہتا ہے
مہرین کو آج پہلی بار اپنے کئے پر پشتاوا ہورہا تھا ۔ سر جھکائے بیٹھی تھی ۔ آج پہلی بار اسے اپنا ضمیر ملامت کر رہا تھا اور آکاش سے نظریں نہیں ملا پارہی تھی ۔ حالانکہ آکاش نے ابھی صاف طور پر کچھ بھی نہیں کہا تھا ۔ خیر دونوں سو تو گئے لیکن نیند کوسوں دور تھی ۔
آکاش کے من بھی بس ایک ہی سوال تھا کہ اس کے پیار میں کیا کمی رہ گئی جو مہرین نے اس کی پیٹ میں چھرا گھونٹ دیا ؟؟
لیکن مہرین کے دماغ میں کئے سوالات تھے اس کا ضمیر اسے پوچھ رہا تھا کہ
شانک نے عین وقت پر اسے دھوکہ دیا۔ پھر بھی وہ شانک سے پیار کرنے لگی؟ آکاش نے اسے اتنا پیار دیا اور کبھی بھی ماضی کے بارے میں نہیں پوچھا ۔ اس نے آنکھ بند کر کے مہرین پر بھروسہ کیا اور میں نے اسے کو دھوکہ دیا۔ آخر کیوں؟؟
آکاش نے مجھے اتنی عزت دی کہ مہرانی بنا کے رکھا لیکن میں نے پھر بھی شانک کے ہاتھوں کا کھلونا بننا پسند کیا۔
کیوں؟؟
کچھ دیر تک مہرین انتظار کرتی رہی کہ شاید آکاش اس سے کچھ پوچھ لے اور وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر کے آکاش سے معافی مانگ لے۔ لیکن جب آکاش نے کچھ بھی نہیں کہا تو رات کے ایک بجے مہرین اٹھیں اپنے دونوں ہاتھوں پر چہرہ رکھا اور بڑے پیار سے آکاش کے نورانی چہرے کو دیکھنے لگی ۔کلیجہ پھٹنے کو آیا۔ اور آنکھوں سے آنسوؤں جاری ہو گئے ۔ آنسو آکاش کے چہرے پر پڑے اور آکاش کی آنکھ کھلی…..
کیا ہوا؟؟؟ اتنی رات کو کیا کر رہی ہو؟؟ سو جاؤ
میرے سرتاج میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں
سو. جاؤ مہرین مجھے بھی سونے دو صبح پوچھ لینا ۔ میں بہت تھکا ہوا ہوں
نہیں آکاش تمہیں میری قسم ۔…..
ہاں ہاں پوچھو کیا پوچھنا ہے؟؟
آکاش اگر کسی شخص نے کسی پر مکمل بھروسہ کیا ہو۔ اسے بے پناہ آزادی اور عزت دی ہو اور وہ دھوکہ دے دے تو کیا اس شخص کو معاف کیا جا سکتا ہے؟؟؟؟
مہرین کس نے بھروسہ کیا؟ کس نے دھوکہ دیا؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا….
رات ہو چکی ہے سو جاؤ صبح بات کریں گے
نہیں آکاش تمہیں میری قسم ۔ کیا بھروسہ توڑنے والے پر پھر سے بھروسہ کیا جاسکتا یے؟؟؟
مہرین بھروسہ او ۔ ٹی ۔ پی کی طرح ہوتا ہے جو بس ایک ہی بار کام آتا ہے۔ ایک بار کسی نے بھروسے کو ٹھیس پہنچائی تو پھر سے اس شخص پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہر گز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ او ۔ ٹی ۔ پی دوسری بار کام نہیں آتا۔
یہ کہہ کر آکاش نے کروٹ بدلی اور سوگیا
مہرین کی نیند کوسوں دور چلی گئی اور اسے اپنے آپ سے نفرت سی ہو گی
���
اویل نورآباد ،کولگام، کشمیر موبائل نمبر؛7006372174