گزشتہ دنوں حکومت نے اعلان کیا کہ ملک میں 60فیصد سے زائد اہل آبادی کی مکمل کووڈ ٹیکہ کاری ہوچکی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ18سال سے اوپر والی آبادی کی نصف سے زیادہ تعداد کو کورونا ویکسین کی دونوں خوراکیں دی جاچکی ہیں۔یقینی طورپر یہ ایک اہم سنگ میل ہے اور اس پر ہمیں خوشی کا اظہار کرنا چاہئے تاہم یہ قطعی اطمینان کا موقعہ نہیں ہے کیونکہ پہلے تو عمر اس کے زمرہ کے لوگوں کی باقی بچی پچاس فیصد آبادی کی ٹیکہ کاری مکمل نہیںہوچکی ہے وہیں15سال سے کم عمر کے نوجوانوں اور بچوں کیلئے کورونا سے تحفظ کا کوئی بندو بست تاحال نہیں کیاگیا ہے جبکہ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ اومیکرون نامی کورونا وائرس کی ایک اور قسم ملک میں دستک دے چکی ہے اور اس وائرس کے بارے میںیہ بتایا جارہا ہے کہ یہ پرانے اقسام سے زیادہ خطرناک ہے اور اس سے اس وائرس میں مبتلا ہونے کے امکانات تیس فیصد زیادہ ہیں جبکہ بچوں پر یہ زیادہ حملہ آور ہورہا ہے ۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے ملکی اور مقامی سطح پر کورونا کے معاملات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو تشویش کا باعث بناہوا ہے ۔حکومت نے دوبارہ تیاریاں کرنا شروع کردی ہیں اور اب ہسپتالوں میں ایک بار پھر کورونا وارڈوں کا قیام عمل میں لاکر آکسیجن کا مناسب بندبست کیاجارہا ہے۔حکومتی تیاریوں سے لگ رہا ہے کہ حالات اتنے خوشگوار نہیں ہیں۔ کورونا وائرس پر تاحال ہونے والا تحقیقی عمل ہمار ے لئے چشم کشا ہونا چاہئے کیونکہ جموںوکشمیر سمیت ملک میں جہاں18سال سے زائد عمر کے لوگوںکی نصف آبادی کی ٹیکہ کاری مکمل ہونا باقی ہے وہیں 15سال سے کم عمر کے لوگ ،جو ملک کی آبادی کا35فیصد بنتے ہیں،بالکل ہی ابھی تک حالات اور اس وائرس کے رحم و کرم پر ہیں۔ظاہر ہے کہ آبادی کے اس زمرہ میں ہمارے بچے اور نوجوان آتے ہیں تو اللہ نہ کرے کہ اگر آبادی کا یہ حصہ کورونا کی لپیٹ میں آتا ہے تو ایک بھیانک صورتحال پیدا ہوسکتی ہے اور یوں کورونا وائرس ایک بار پھر ہماری کمیونٹی میں گہرائی تک سرایت کرسکتا ہے ۔مانا کہ فی الوقت کورونا کی تیسری لہر زیادہ خطرناک ہے تاہم یہ کوئی مستقل عمل نہیںہے اور ہمیں ہر طرح کی صورتحال کیلئے تیار رہنا چاہئے ۔بلا شبہ موجودہ تیسر ی لہر کے دوران ہسپتا ل میں کورونا مریضوں کے داخلوں کی شرح انتہائی کم ہے اور بیشتر مریض گھروں میں ہی ٹھیک ہوجاتے ہیں تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ صورتحال ایسی ہی رہ سکتی ہے۔
عقلمندی اسی میں ہے کہ ہم کورونا سے لڑنے کیلئے خود کو تیار کریں اور اس کیلئے سب سے بڑی تیاری یہی ہے کہ ہم سب کووڈویکسین کی خوراک لیں تاکہ ہم اپنی حفاظت کا مکمل بندو بست کرسکیں۔ایسا نہ ہو کہ ہم اس وقت ویکسین سے دور بھاگیں اور پھر اس وائرس کا شکار ہوجائیں۔دیکھنے میں آیا ہے کہ جن لوگوں نے ویکسین لی ہے ،اُن پر اومیکرون کی یہ لہر زیادہ اثر انداز نہیں ہورہی ہے ۔ اسی لئے ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اولین فرصت میں کورونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لیں اور اپنے ساتھ اپنے سبھی اہل خانہ کو بھی یہ ٹیکے لگوائیں تاکہ پوری کمیونٹی میں صد فیصد کووڈ ٹیکہ کاری کا ہدف یقینی بنایا جاسکے ۔یہاں سرکار پر بھی یہ ذمہ اری عائد ہوتی ہے کہ وہ جہاں15سال سے اوپر کی عمر کے سبھی لوگوں کیلئے ویکسین کا بندو بست کرے وہیں 15 برس سے نیچے ہمار ی نوخیز پود کی حفاظت کا بھی بندو بست کیاجائے ۔ظاہر ہے کہ ہم اپنی اس وسیع آبادی کو تحفظ کے بغیر نہیں چھوڑ سکتے ہیں اور ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ یہ ویکسین آبادی کے اس حصہ تک بھی پہنچے کیونکہ اس میں بچوں اور کم سن لڑکوںکی کثرت ہے جو ہمارا کل ہیں اور اس سماج کا مستقبل اسی پود سے وابستہ ہے ۔انہیں ویکسین کے بغیر چھوڑ کر ہم اس آبادی کو خطرے سے دوچار کررہے ہیں اور پہلی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جہاں ہم نوجوانوں اور بزرگوںکی ٹیکہ کاری یقینی بنارہے ہیںوہیں ہم کمسن لڑکوں اور ان بچوں کی ٹیکہ کاری بھی یقینی بنائیں تاکہ پوری آبادی کی ٹیکہ کاری کا حقیقی ہدف حاصل کیاجاسکے جس کے بعد ہمیں کورونا سے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہوگی اور ہم اپنے معمولات حسب سابق جاری رکھ سکتے ہیں۔اُس وقت تک ہمیں چاہئے کہ ہم احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں اور اپنے معمولات کی ادائیگی کے دوران تمام احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا رہیں کیونکہ یہ نظر نہ آنے والا دشمن کبھی بھی ہم پر غالب آسکتا ہے اور ہمیں خبر تک نہ ہوگی ۔اسی لئے بہتر ہے کہ پوری آبادی کی صد فیصد ٹیکہ کاری تک کورونا مناسب برتائو کے ساتھ ہی زندگی گزاریں اوراپنے آپ کو محدود رہی رکھیں اور غیر ضروری طور بھیڑ بھاڑ کا حصہ نہ بنیں کیونکہ جتنا ہم محدود رہیں گے،اُتنا ہی محفوظ رہیں گے۔