اولاد ایک بڑی نعمت ِ خداوندی ہے،جو کہ والدین کے پاس ایک امانت ہوتی ہے۔ اولاد کی مثال پاک زمین جیسی ہے اس میں جو کچھ بویا جائے گا ،وہی اُگ آئے گا ۔اگر نیکی کا بیج بوئیں گے تو اولاد فلاح کی سعادتوں کی حامل ہوگی اور اگر نیکی اور سچائی کا بیج نہ بویا گیا تو اولاد بد بخت ثابت ہوگی۔اس لئے والدین کے فرائض میں اولاد کی تربیت کو اولین درجہ دیا گیا ہے ،کیونکہ اگر والدین اولاد کی تربیت دین اور دنیا کے بہترین سانچےمیں نہیں کرتے ہیں تو ایک نئی نسل بُرباد ہوجاتی ہے۔اسلام میں بھی کہا گیا ہے کہ نیک و صالح اولاد والدین کے لئے صدقے جاریہ ہوتی ہے ۔اس کو صدقۂ جاریہ بنانے کے لئے اس کی تربیت بہت ضروری ہے۔والدین کا اپنی اولاد کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔اس لئے کہا جاتا ہےکہ بچے گلشن کے پھول ہیں،ان کو ہر وقت کاٹ چھانٹ کی ضرورت رہتی ہے۔اگر پودوں کی اچھی طرح سے کانٹ چھانٹ نہ کی جائے تو وہ کانٹے دار درخت بن جاتے ہیں۔اسی طرح بچوں کی مناسب تربیت نہ کی جائے تو وہ رحمت کے بجائے زحمت بن جاتے ہیںاور پھر والدین ہی اُن کو بَد دعائیں دینے لگتے ہیں۔لیکن بد دُعا دینے پہلے کیا کبھی والدین یہ سوچنے کی زحمت گوارا کرلیتے ہیں کہ اُنہیں بگاڑنے میں کس کا ہاتھ ہے۔وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی تربیت میں ہی خامی تھی اور اُن کی ناقص تربیت سے ہی اُن میں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔اس لئے وقت کا تقاضا یہی ہے کہ والدین اپنی اولاد کی تربیت کے لئے ہر پل اُن کی سوچوں کے ساتھ رہیںکیونکہ فی زمانہ بہت ساری ایسی خبریں آئے روز پڑھنے اور سُننے کو مل رہی ہیں،جن سے روح تک کانپ جاتی ہے۔کہیں کوئی والدین جب اپنے بچوں کو کا فی دیر تک ٹی وی دیکھنے یا موبائل فون کے ساتھ گیمزکھیلنے سے منع کرتے ہیں یا ڈانٹتے ہیں تو وہ نہ صرف گھر سے باہر رہ کر دوسری کئی بُرائیوں اور خرابیوں کو اپنا لیتے ہیں بلکہ منشیات کا بھی سہار ا لیتے ہیںاور پھر اپنے والدین کے اعتراض کرنے پر مختلف طریقوں سے اپنی جان تک سے خلاصی کر لیتے ہیں۔ہم سب کے لئے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہےکہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اُس انتشار کا شکار ہوچکاہےجس کی شکل میں انسان خود کو ہلاک کررہا ہے۔حالانکہ خود کشی کرنے کی اسلام میںسخت ممانعت ہے۔بعض اوقات یہ خبریں بھی سامنے آتی ہیں کہ محض کچھ روپیوں کی خاطر بچے اپنوں کی جان لینے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔یہ سب بچوں کی صحیح تربیت نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے،اولاد والدین کے لئے دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے ،اولاد کی پیدائش کے بعد والدین خوشیاں مناتے ہیں،لیکن اس ساتھ شائد یہ بھول جاتے ہیںکہ ان پر یہ فرض ہوگیا ہے کہ وہ اپنے اولاد کی صحیح تربیت کریں۔اولاد کا ذہن ایک سادہ کاغذ کی طرح ہوتا جس پر جیسی تحریر لکھی جائے اسی طرح اُس پر درج ہوجائے گا ۔اس لئےوالدین کو چاہئے کہ بچوں کی بچپن سے ہی دینی تربیت بھی کریں،انہیں بتائیں کہ زندگی میں اُتار و چڑھائو آتے ہیں ،جن میں صبر کرنا ضروری ہےاور زندگی کے ہر فیصلے میں ثابت قدم رہنا بھی لازمی ہوتا ہے۔لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب والدین خود اس سانچے میں اپنی زندگی گزاریں اور اپنی اولاد کی تربیت بھی اِسی نہج پر کریں۔مگر آج ہم سبھی بخوبی دیکھ رہے ہیںکہ زیادہ تر والدین کے پاس اپنی اولاد کی صحیح تربیت کے لئے وقت ہی نہیں ہے۔یہ اور بات ہے کہ والدین اپنی اولاد کے ساتھ بیٹھ کر دنیا بھر ٹی وی سیرئیلس اور فلموں سے لطف اندوز ہونے میں خوشی محسوس کرتے ہیں لیکن اُنہیں دینی تعلیم و تربیت کا درس دینے ، عبادت کرنے اور فلاح و بھلائی کے کاموں سے روشناس کرانے کے لئےاُن کے پاس کوئی وقت نہیں ہے۔یہی وہ سبب ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں زیادہ تر افراد ذہنی تنائو کا شکار ہورہے ہیں،وہ دوسروں سے زیادہ خود سے ہی بیزار ہوگئے ہیں اور اگر اُنہیں کسی بھی چیز کی کمی لگ رہی ہے تو وہ خود کو ختم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود کو سدھاریںاوراپنی اولاد کی تربیت کو دنیا کا سب سے اہم فرض سمجھ کر کریں ۔بات بات پر بچوں کو جھڑکنا ،ان کی باتوں کو نظر انداز کرنا بھی غلط ہے۔ بہتر یہ ہے والدین اپنے بچوں کو اعتماد میں کے کر اُن کے مسائل جائز طریقے سے حل کرنے کی کوشش کریں، ورنہ نتائج خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔