ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی
ڈاکٹر محمدا سد اللہ اردو کے ادبی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ۔ انھیں معاصر اردو ادب کے ایک اہم نام کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ان کی تقریباً ایک درجن کتابیں شائع ہو کر منظرِ عام پرآ چکی ہیں اور مشاہیرِ ادب سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں ۔وہ بیک وقت اردو ، مراٹھی دونوں زبانوں پر پوری قدرت رکھتے ہیں ۔انھوں نے بہت سی مراٹھی کتابوں کا ترجمہ کیا ہے ۔ ادبِ اطفال پر بھی ان کی پوری دسترس ہے ، انھوں نے ادبِ اطفال میں بھی، اردو کو کئی کتابیں دی ہیں۔ وہ نثر نگار بھی ہیں اور شاعر بھی ۔مہاراشٹر ساہتیہ اردو اکادیمی (ممبئی) ،بہار اردو اکادیمی ( پٹنہ )، اتر پر د یش اردو اکادیمی (لکھنو) ، مغربی بنگال اردو اکادیمی (کولکاتہ ) اور کئی دیگر اداروں سے بہت سے انعامات و اعزازات بھی حاصل کر چکے ہیں ۔
زیرِ تبصرہ کتاب’’ انشائیہ کی روایت ۔مشرق و مغرب کے تناظر میں‘‘ ایک اہم تحقیقی اور تنقیدی کتاب ہے جس میں انھوں نے اردو انشائیہ نگاری کے خد و خال ، فکر وفن اور اس کے بتدریج ارتقا پر بھی روشنی ڈالی ہے اور مغربی انشائیہ نگاری پر بھی بحث کی ہے ۔ یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (نئی دہلی ) کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔ اردو انشائیہ نگاری کی روایت اور تاریخ پر یہ ایک اہم کتاب کی حیثیت اختیار کر گئی ہے ۔اس کتاب میں مصنف کے پیش لفظ اور پروفیسر مناظر عاشق ہر گانوی کے گفتنی کے علاوہ پوری کتاب کو چھے ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
پہلے باب انشائیہ کیا ہے؟ میں لفظ انشائیہ کی تعریف بحیثیت ایک صنف ِ ادب ، اصطلاح، ہئیت، فکر و فن اور زبان و بیان وغیرہ پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔دوسرے باب مغرب میں انشائیہ نگاری کی روایت میں اس صنف کے بتدریج ارتقا اور بعض اہم انشائیہ نگاروں جیسے مانتین، بیکن ، ابراہم کاولے ، رچرڈ سٹیل ،جوزف ایڈیسن ،ولیم ہزلٹ ،جانسن، جوناتھن سوفٹ،چارلس لیمب، گولڈ اسمتھ ، آ ر ایل اسٹیونسن ،جی کے چسٹرسن ،تھامس ڈی کوئینسی ،ای وی لوکس ،رابرٹ لِنڈ اور الفا آف دی پلو وغیرہ جیسے مغربی انشائیہ نگاروں کی انشائیہ نگاری پر مختصر مگر جامع روشنی ڈالی گئی ہے۔تیسرے باب میں اردو میں انشائیہ کے اولین نقوش کے تحت سر سید خان ، خطوط غالب ،ماسٹر را م چندر ،عہدِ سر سید میں انشائیہ نگاری اور سر سید کے معاصر انشائیہ نگاروں جیسے محمد حسین آ زاد ،الطاف حسین حالی،مولوی نذیر احمد ، نواب محسن الملک ،مولوی ذکا اللہ ،عبدالحلیم شرر ،وحیدالدین سلیم اور پنڈت رتن ناتھ سر شار کی انشائیہ نگاری کا جائزہ کیا گیا ہے ۔چوتھے باب میں بیسویں صدی میں انشائیہ نگاری میں بیسویں صدی کے اہم اردو انشائیہ نگاروں جیسے میر ناصر علی، نیاز فتح پوری ،سجاد حیدر یلدرم ، منشی پریم چند ، مولوی عزیز مرزا ،سید احمد دہلوی ، مولانا خلیق دہلوی ، سلطان حیدر جوش ، مہدی افادی ، سجاد انصاری ، فلک پیما، مولانا ابوالکلام آ زاد ، خواجہ حسن نظامی ،فرحت اللہ بیگ ، رشید احمد صدیقی ، پطرس بخاری ، کرشن چندر ،اکبر علی قاصد، مشتاق احمد یوسفی ،مجتبیٰ حسین وغیرہ کے انشائیوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔پانچویں باب میں عصری انشائیہ میں وزیر آ غا ، دائود رہبر ،غلام جیلانی اصغر،مشتاق قمر ، انور سدید ، جمیل آ ذر ، ممتاز مفتی ،جاوید صدیقی ،نظیر صدیقی ،مشکور حسین یاد ،سلیم آ غا قزلباش ،کامل القادری ، احمد جمال پاشا، رام لعل نابھوی ، محمد اسد اللہ ،حامد برگی ، محمد اقبال انجم ،مشرف احمد ، راجہ ریاض الرحمٰن ، شمیم ترمذی ، جان کاشمیری ،بشیر سیفی ،محمد اسلام تبسم ،محمد یونس بٹ اور ناصر عباس نیر وغیرہ کی انشائیہ نگاری کی اہمیت پر بڑے خوبصورت انداز سے گفتگو کی گئی ہے ۔آ خری بات کے تحت اس وسیع اور گہرے مطالعے کا ماحصل پیش کیا گیا ہے ۔ڈاکٹر محمد اسداللہ عصر حاضر کے ایک اچھے انشائیہ نگار ہیں۔ اردو انشائیہ نگاری کی روایت ،فکر و فن ، خد و خال اور اس کے بتدریج ارتقا اور تاریخ پر ان کی گہری نظر بھی ہے ، اس لئے ان کی یہ تنقیدی کتاب ’’انشائیہ کی روایت ۔مشرق و مغرب کے تناظر میں‘‘ اپنے موضوع اور فن پر ایک اہم کتاب کی حیثیت اختیار کر گئی ہے ، اس کی ادبی اہمیت و افادیت مسلم ہے ۔
رابطہ 9579591149