پھول ایک شے ہے۔اس کا نام انسان نے ہی منتخب کیا ہے۔اسی طرح بہت سے ایسے نام ہیں جن کا انتخاب حضرت انسان نے کیا ہے۔کچھ چیزوں کے نام ظاہری اور کچھ چیزوں کے نام باطنی رکھے گئے ہیں۔ اُردو زبان میں جذبات و احساسات کے بھی نام آتے ہیں،یعنی انسان کے ہی منتخب شدہ ناموں میں سے کچھ کو ہم دیکھ سکتے ہیں اور کچھ کو محسوس کرتے ہیں۔اب یہ انسان پر ہی منحصر ہے کہ وہ اِن سب چیزوں کا انتخاب اپنی زندگی میں کیسے کرتا ہے۔جیسا کہ پھول، اسکا انتخاب خوشی ، شادی بیاہ کی مجلس یا پھر رنج و غم کی گھڑی یاکسی کی موت ہونے پرکیا جاتا ہے۔شادی پر کرے تو اِن پھولوں کی مہک سے محبت چھلکتی ہےاوریہ پھول انسان کو پیارے لگتےہیں اور اگر مرنے پر ہھولوں کا انتخاب کرے تو انہی پھولوں سے انسان کو نفرت ہوجاتی ہےاوران کی خوشبو کاٹنے کو دوڑتی ہے۔
آ گ: انسان اگر اپنے لفظوں میں لگائے تو ہر کوئی جھُلس جاتا ہے، کوئی رشتہ نہیں بچتا ہےاور اس آ گ کو حوصلے بڑھانےکے لئے لگائے تو انسان کامیاب ہوتا ہے۔اور اگر اسی آ گ کو چولہے میں لگائے تو یہ آ گ انسان کوکئی فایدے پہنچاتا ہے،خصوصاً پیٹ بھرتا ہے انسان کی۔
مسکراہٹ:انسان خوش ہو تو اس کی خوشی اُس کے لبوں پر مسکراہٹ کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور اگر اُداس ہو تو انسان اِسی مسکراہٹ کو ڈال بناکر اپنی اُداسی کو چھپاتا ہے۔
نفرت: یہ جو نفرت ہے، انسان نے اسکو اپنے ذہن میںبُرا تصور کیا کرے تو بہت بدی لگتی ہے۔ نفرت ہر سطح پر بُری تو نہیں،ہاں! اگر بلا وجہ کسی سے کی جائے تو بہت بُری ہے۔البتہ کسی انسان کے بُرے اخلاق، بُرے برتاؤ ،بُرے رویہ کے تحت ہو تو نفرت بُری نہیں ہے۔کہتےہیں گناہوں سے نفرت ہونی چاہئے،گنہگار سے نہیں۔کیا پتہ آپ کی محبت ا?سکو گناہ کرنے سے روکے۔
مقابلہ: آج کل کاانسان ہر میدان میں ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی میں مصروف ہے۔کسی انسان نےکوئی گاڑی لائی یا اچھا سا گھر بنایا تو دوسرا انسان مقابلے بازی پر آ تا ہے کہ میں اس سے بڑی گاڑی لاؤں ، اسکے گھر سے بھی اچھا گھر بناؤں ۔پھر اس مقابلہ بازی میں اس انسان کا چین وسکون غارت ہوجاتا ہے۔اگر مقابلہ کرنا ہی ہے تو اس طرح کرو کہ فلاں انسان نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے تو میں اُس سے زیادہ فلاحی کام کروں۔کسی غریب کو روٹی کھلائوں،کسی بے گھر کی مدد کروں،اسکو چھوٹا ہی سہی سَر چھپانےکوئی چھت فراہم کروںاور کسی یتیم کا سہارا بنوں۔اگر انسان اسی طرح کے مقابلے کریںتو دوسروں کی زندگی سنورجائے گی اوراپنی اپنی آخرت بھی ۔
مدد: ایک انسان دوسرے انسانوں کےبُرے کاموں میں مدد کرے ،اگرچہ اس میں اسکا کوئی ذاتی فایدہ بھی نہ ہو، مگر اُسے معلوم ہے کہ یہ غلط کر رہا ہے۔آپ صرف مدد کی نیت سے ساتھ دے رہے ہو،تو پھر بھی آپ اسکے گناہوں میں برابر کے شریک ہوںگے اور اگر کسی کمزور ،بے بس ،غریب کی مدد کرو گے تو آپ کے بُرے وقت میں خدا آپ کی مدد کرے گا۔
رسم و رواج: انسان رسم و رواج کے ساتھ چلنا چاہتا ہے۔ٹھیک ہے ساتھ لے کے چلے لیکن جو رسم و رواج عذاب بن گئےہیں۔ ان کو تو نہ اپنائیں۔جب انسان ان بُرے رسموں و رواجوں کا انتخاب کرتا ہے تو اسکی زندگی محال ہوجاتی ہے۔ انسان تو کہتا رہتاہے کہ خدا نے مجھے دولت دی ہے تو میں کیوں نہ اپنے سارے شوق پورے کروں ،پھر یہ انسان جائز اور ناجائز میں فرق کرنا بھول جاتا ہے۔اگر انسان کو رسموں و رواجوں کے ساتھ چلنا ہی ہے ،اُن کو اپنانا ہی ہے، توا ?ن کا انتخاب کریں، جن سے خود کی اور دوسروں کی زندگی محال بننےکے بجائے آسان ہوجائے۔
دعا: انسان آج خدا سے ایسے ایسے دعا مانگتا ہے ،جو دوسرے انسانوں کے لئے بد دعا ہوتے ہیں۔ انسان کو انتخاب کرنا ہےاُن دعاؤں کا، جو واقعی دعا ہو ں،نہ کہ بد دعا۔انسان کو چاہیئے کہ خود سے پہلے دوسرے انسانوں کے لئے دعا مانگیں۔کہتے ہیں، جو انسان دوسروں کو اپنی دعاؤں شامل رکھتا ہے،خوشیاں سب سے پہلے اسکے دروازے پر ہی دستک دیتی ہیں۔
اسی طرح بہت سے نام ہیں، کچھ کو دیکھ سکتے ہیں اور کچھ کو محسوس کیا جاتا ہے۔اب یہ انسان پر ہی منحصر ہے ،اگر صحیح طریقے سے انتخاب کیا تو یہ فانی دنیا بھی ،جس کےمتعلق آج ہر انسان کی یہی رائے ہے کہ کہیں بھی سکون نہیں ہے،ہر طرف بے چینی ہے،سمجھ ہی نہیں آ تا کیا کریں؟اگر انسان صحیح طریقے سے چیزوں کا انتخاب کرے گا تو یہی دنیا اُس کے لئے جنت سے کم نہیں ہو گی۔
(متعلم شعبہ اردو،یونیورسٹی آف کشمیر)