انسان کے اصول اورانسانیت کا مقصد فکر و ادراک

محمد عرفات وانی ۔ ترال

دنیا میں سب سے بڑا مذہب انسانیت کا ہے،جو آجکل کے کچھ ہی لوگوں میں موجود ہے۔اگر انسان کے اندر انسانیت نہیں تو وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں ۔اسلام میں پہلا درجہ انسانیت کا ہے جو آجکل معدوم دکھائی دے رہا ہے۔دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہیں، لیکن انسانیت کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے۔خون کا رشتہ بھی اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔بھائی بھائی کا خون بہاتا ہے،بیٹا باپ کا خون بہاتا ہے ۔ جوکہ انسانیت پر ایک دھبہ ہے۔انسانیت دن بہ دن دم توڑ دیتی ہے۔ایک انسان کو جب کسی جگہ جلدی پہچانا ہوتا ہے لیکن اس کے پاس کوئی لفٹ نہیں ہوتا ہے ،تب وہ کسی کی گاڑی کو روکنا چاہتا ہے لیکن وہ نہیں روکتی ہے، تو یہ ہمارے لئے ایک شرمناک بات ہے کیونکہ انسان کے پاس انسانیت ہی نہیں ہے، وہ انسانیت کی قدر ہی نہیں کرتا ہے۔انسان کے لئےصرف انسان ہونا کافی نہیں ہے، اس کے دل میں انسانی جذبات کا ہونا بھی ضروری ہے۔آجکل انسان کے ہاتھوں انسانیت دم توڑ دیتی ہے۔ہمیں انسان کو اس کے پہناوے سے نہیں دیکھنا چاہئےاور نہ اس کی صورت سے بلکہ ہمیں اس کی سیرت سے اس کو پہچانا چاہئے۔ جب کسی کی مصیبت دوسروں کا تماشہ بن جائے تب انسانیت دم توڑ دیتی ہے۔ انسان کو جب ہم مذہبی،قومی،سیاسی کی نظر سے دیکھتے ہیں تو اس کی وجہ سے انسان کے ہاتھوں انسان ذلت و رُسوا ہوتا ہے۔ایک انسان دوسرے انسان کا قتل اسطرح کرتا ہے جیسے اس کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔اگر کوئی انسان ترقی کرے تو ہم خوش ہونے کے بجائے اس کومختلف حربوں سے نقصان پہنچاتے ہیں، ہمیں کسی کی خوشی برداشت ہی نہیں ہوتی ہے، یہ انسانیت نہیں بلکہ ایک شرمناک بات ہے۔انسان کے گھر میں مزدور آتا ہے ،چاہے وہ کشمیری ہو یا پردیسی ،ہمیں اس کی عزت اتنی ہی کرنی چاہئے جتنی ہم ایک بھائی کی کرتے ہیں۔ہمیں ہر ایک ،چاہے وہ کالا ہو، پردیسی ہو،سکھ ہو، عیسائی ہو، ہر ایک کی عزت کرنی چاہئے ۔ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنے چاہئے ،ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے خاطر محبت ہونی چاہئے۔ہمیں ہر ایک دوست کو بھائی کو اہمیت دینی چاہئے۔آج کل انسان خودغرض بن بیٹھا ہے۔ وہ صرف اپنی عزت کے بارے میں سوچتا ہے ۔اپنے گھر کے عزت کے بارے میں سوچتا ہے نہ کہ کسی دوسرے کی عزت کا خیال کرتا ہے۔ انسان ہی انسان کا دشمن بنا بیٹھا ہے۔ آج کل ایسے بہت سے حادثات دیکھنے کو ملتے ہیں، جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انسان کس قدر گر چکا ہے۔کھبی کھبی لگتا ہے کہ انسان اب انسان نہیں رہا بلکہ اب وہ حیوان بن گیا ہے۔ اگر کوئی انسان مر رہا ہے تو بجائے اس کی مدد کے کھڑے ہو کے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔اکثر دیکھا جاتا ہے کہ سڑک پہ کسی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے یا کس کا جھگڑا ہو جائے تو لوگ فوراً اپنا موبائل

نکالتے ہیں اور تصویریں یا ویڈیو بنانا شروع کر دیتے ہیں اور اُسی وقت ہمارے نوجوان بھی ایک ایپلیکیشن کا استعمال کرتے ہیں، جس کا نام سنیپ چیٹ ہے اور اس اینسیٹینٹ کا سنیپ اُٹھا تے ہیں اور لوگوں میں شیر کرتے ہیں اور اپنی سیٹریک بڑھاتے ہیں۔

اگر ہم ہسپتال میں ہوتے ہیں، کسی کو خون کی ضرورت پڑتی ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا خون دے کر اس کی جان بچائیںیہی انسانیت ہے ۔
اور اگر ہم عزت کی بات کریں تو ہر کسی کو بس اپنی عزت کا خیال ہوتا ہے نہ کہ کسی دوسرے کی عزت کو عزت سمجھا جاتا ہے۔ انسانیت اس قدر مر چکی ہے کہ کسی کی بہن بیٹی کا بھی خیال نہیں کیا جاتا۔ لڑکیاں گھر کی چار دیواری سے باہر محفوظ نہیں رہ سکتیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں بگاڑپیدا ہوا ہے ۔ خواتین کو لوگوں کی بری نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی پھٹی رہ جاتی ہیںاور خون کےآنسو روتی ہیں۔جب انسان کے اندر انسانیت دم توڑ دیتی ہے تو وہ واقعی وہ درندہ بن جاتا ہے۔
انسان وہ نہیں جو کسی کا حق چھین کر عیش کرے ۔آجکل زمین و جائیداد کے خاطر بھائی بھائی سے لڑتا ہے۔بیٹا باپ سے اور ہمسایہ بھی دوسرے ہمسایہ کا حق چھینتا ہے۔بھائی بہن کا حق چھینتا ہے،کئی لوگ دوسروں کی زمینوں کو اور سڑکوں پر ناجائزہ قبضہ کر دیتے ہیں، جو گناہ عظیم ہے اور انسانیت بھی اس سے شرمسار ہوتی رہتی ہے۔
‌ انسان کے اندر انسانیت کا جذبہ ہونا چاہئے، جس سے وہ انسانیت کا نام روشن کرے۔حسد،بغض کومٹا سکے۔انسانیت رحم دلی،ہمدردی اور اخلاقیات کا نام ہے۔
قران مجید میں لکھا ہے کہ لوگو! اپنے رب سے ڈرو،جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دئیے۔اسلام میں انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے، اس کے احترام و اکرام کی تعلیم دی گئی۔احترام انسانیت وہ خوبی ہے جس سے انسانیت کا نام ہمشہ روشن ہوتا ہے۔
جب ایک انسان کے دل کے اندر دوسرے انسان کا ادب و احترام نکل جاتا ہے، تو وہ ایک چرندہ کی طرح ہو جاتا ہے لیکن اگر یہ انسان اللہ سے توبہ کرلے تو اس کے دل میں انسانیت پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ دوسرے انسان کی خیر خواہی ہی چاہتا ہے ۔وہ پھر اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتا ہے ،دوسرے انسان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھتا ہے اور ہر ایک مذہب کا احترام کرتاہے، یہی انسانیت ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ہر ایک انسان کے دل کے اندر انسانیت کا جذبہ زندہ کریں تاکہ وہ انسانیت کا نام روشن کرسکے۔جب ہم کسی کو دھوکا دیتے ہیں،چاہے وہ بھائی ہو،بہن ہو،والدین ہو یا کوئی دوست ۔ تو تب سمجھ لینا چاہئے کہ انسانیت دم توڑ رہی ہے اور انسان کا ضمیر مر چکا ہوتا ہے، اس کے دل میں منافقت پیدا ہوئی ہے اور اس کے پاس دل ہی نہیں رہا اور جس انسان کے پاس ضمیر نہیں، دل نہیں وہ انسان زندہ رہنے کے لائق ہی نہیں، اس کا مر جانا ہی بہتر ہے۔جب کوئی مستحق بھکاری ہمارے پاس آتا ہے تو ہمیں اس کی مدد ضرور کرنی چاہئے،ہمیں بوڑھوں کا احترام کرنا چاہئے اور ہمیں اپنے والدین کی خدمت کرنی چاہئے۔استادوں کا احترام کرنا چاہئے،اپنے پڑوسیوں سے محبت و شفقت اور حسنِ اخلاق سے پیش آنا چاہئے اور کسی پیاسے کو پانی پلانا چاہئے۔ جس کے اندر یہ خوبیاں پائی جاتی ہے ،وہی انسان کہلانے کے لائق ہے ۔کسی بھوکے کو کھانا کھلانا بھی انسانیت ہے ،کسی محتاج یا غریب کی محتاجگی دور کرنا بھی انسانیت ہے،کسی بیمار کی تیمارداری کرنا، یہ بھی انسانیت ہے۔ الغرض اللہ نے جو انسانیت پر حقوق رکھے ہیں وہ پورا کرنا ہی انسانیت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے موجودہ دور میںہم میں بیشتر لوگ انسانیت کے لیے مفید نہیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں۔انسانوں پر ظلم نہ کرنے والا،غصہ نہ کرنے والا،لوگوں کو معاف کر دینے والا،لوگوں پر احسان کرنے والا،لوگوں پر ترس کھانے والا،لوگوں کی مدد کرنے والاہی انسان کہلانے کے لائق ہے ۔انسان حقیقت میں وہی ہے جو انسانیت کو سمجھتا ہو ۔دوسروں کی تکلیفوں کو جود کی تکلیف سمجھ کر محسوس کرتا ہو ،انکا دکھ،درد،غم سمجھتا ہو۔اس کے غم کو اپنا غم سمجھتا ہو۔انسانیت کے خاطر جان بھی دینے کے لیے تیار ہو۔انسان کسی دوسرے انسان کو تکلیف میں دیکھ کر برداشت نہ کر سکے اور غم کی گھڑی میں شریک ہو۔اپنے ضمیر کو ہمیشہ زندہ رکھیں ۔اچھائی کو اچھائی سمجھے اور برائی کو برائی سمجھے۔ جوہر ایک مذہب کا احترام کرتا ہو،ہر عورت کو عزت کرتا ہو۔جو چیز اپنے لئےپسند کرے، وہی دوسرو‌ں کے لیے بھی پسند کرتا ہو، تبھی وہ انسان حقیقت میں انسان کہلانے کے لائق ہے ۔
[email protected]