سید سرفراز احمد
انسان کا تعلق سماج سے اور سماج کا تعلق انسان سے بہت گہرا ہے کیونکہ افراد کے گروہ سے ایک سماج کی تشکیل عمل میں آتی ہے، اب بھلا اس سماج میں ہر طرح کے انسان ملتے ہیں ،کوئی نیکی کے کاموں میں مصروف ہوتا ہے تو کوئی برائیوں میں ملوث ہوتا ہے۔ لیکن جب اس توازن میں بگاڑ پیدا ہوجاتاہے تو سماج اور سماجی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ،جس سے سماج میں برائی کو برائی نہیں سمجھاجاتا ہے۔ اگر کوئی برائی کو انجام دے رہا ہوتو اسکو اس برائی میں انجام تک پہنچنے دیا جاتا ہے، یہی انسانی بے حسی در اصل سماج کو پراگندہ بنادیتی ہے۔ موجودہ دور میں انسان مادہ پرست بن چکا ہے جسکے نزدیک ایک انسان کی قدر و قیمت صفر کے برابر ہے ،جو ایک سماج میں زندگی گذارتا ہوا بھی اپنے آپ کو سماج سے دور رکھتا ہے اور یہ خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہےکہ میں اپنی شخصیت میں صد فیصد مثبت ہوں ،جو فطرت کے تقاضہ کے عین متضاد ہے ۔چونکہ جو انسان ایک انسانی سماج کاحصہ ہے ،وہ اس سماج میں ہونے والے ہر فعل کا بھی ذمہ دار ہوتا ہے، وہ ا س لئے کہ اگر کوئی شخص سماج کیلئے ایک اچھا کام کرتا ہے تو اسکا صلہ پورے سماج کو دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح اگر کوئی ایک شخص بُرا فعل انجام دیتا ہے تو اسکاذمہ دار بھی اس سماج کا ہر ایک شہری ہوتا ہے۔ لہٰذا ایک صالح اور پاکیزہ سماج کی تشکیل جب تک عمل میں نہیں آسکتی تب تک ہر شخص سماج میں اپنا کردار ادا نہ کرسکے۔
28مئی کوملک کی راجدھانی دہلی کے شاہ آباد ڈیری سڑک کے کنارے ایک دل دہلادینے والا واقعہ پیش آیا، دن کے اُجالے میں ایک جنونی نوجوان نے اپنی ایک نابالغ دوست لڑکی کا انتہائی بے دردی سے چاقو سے حملہ کرتے ہوئے اور پتھروں سے کچل کر قتل کردیا۔ قتل کی سنگین واردات سی سی ٹی وی کیمروں میں قید ہوگئی، جسکو اگلے روز ہی یوپی کے بلند شہر سے گرفتار کرتے ہوئے ریمانڈ میں دے دیا گیا۔ پولیس کی پوچھ گچھ کے دوران ملزم نے بتایا کہ اسکی گرل فرینڈ اسے نظر انداز کررہی تھی، جس سے نوجوان ملزم مشتعل ہوکر انتہائی اقدام اٹھایا۔ اس واقعہ کا دوسرا پہلو یہ ہےکہ آلٹ نیوز فیکٹ چیکر کے شریک بانی محمد زبیر نے ٹوئٹ پر بتایا کہ ویڈیو دیکھنے کے بعد یہ صاف نظر آرہا تھا کہ راہ گیر اس قتل کی واردات کو بہت سکون سے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے گذررہے تھے اور کسی نے بھی قاتل کو روکنے اور اس مقتول لڑکی کو بچانے کی کوشش نہیں کی، سوائے پیچھے کھڑے ایک کتے کے، جو بھونک بھونک کر اس قتل کی واردات پر صدائے احتجاج لگا رہا تھا۔ یہ اور اسطرح کے درجنوں واقعات روزمرہ کی زندگی میں ہمارے سماج میں دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں لیکن جب کوئی واقعہ سماج کے درمیان رونما ہوتا ہے اور سماج ٹس سے مس نہیں ہوتا تو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ سماج جاندار ہوکر بھی بے جان زندگی گذار رہا ہے۔
آج سے گیارہ سال قبل اسی دہلی میں نربھیا کی اجتماعی عصمت ریزی کرتے ہوئے بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا، اس واقعہ کے بعد دہلی میں ایک انقلابی احتجاج برپا کیا گیا تھا ،اس واقعہ کی گونج پورے ملک میں برپا ہوئی تھی ،یہ ایک جاندار سماج کی مثال تھی۔ لیکن کیا نربھیا کی اجتماعی عصمت ریزی کے بعد اسطرح کے واقعات ختم ہوچکے تھے؟ نہیں !بلکہ درجنوں واقعات رونما ہوئے ۔آصفہ کا واقعہ ،یوپی کے ہاتھرس میں دلت لڑکی کا واقعہ ، دہلی میں رابعہ سیفی، تلنگانہ میں خاتون ڈاکٹر کا واقعہ پیش آیا،سنسنی واردات قتل عصمت ریزی ایسے واقعات میں کمی آئے یا نہ آئے اس کیلئے قانون کام کرے گا، مجرمین کو سزا دی جانے والی شکلوں میں تبدیلی کرتے ہوئے کچھ حد تک جرائم کو سماج سے روکا جاسکتا ہے۔ کہاجاتا ہے جو کرے گا وہی بھگتے گا، لیکن اصل سوال یہ ہےکہ جب کوئی اسطرح کا واقعہ سماج کی آنکھوں کے سامنے پیش آتا ہے تو کیا سماج کو تماشائی بنکر دیکھنا ہوگا؟سماج کی بھی اپنی معنویت ہے ،اسکے بھی اپنے فرائض ہیں، لیکن جب سے ٹیکنالوجی میں اضافہ ہوچکا ہے، سماجی تبدیلیاں بھی رونما ہورہی ہیں جو خود سماج کیلئے ضرر رساں ہیں۔ فرض کریں اگر کسی کاسڑک حادثہ پیش آتا ہے تو وہاں موجود بھیڑ اسکو دواخانہ پہنچانے کے اسکی ویڈیو گرافی میں مشغول ہوجاتے ہیں، کہیں جھگڑا ہورہا تو اس جھگڑے میں صلح کروانے کے بجائے جھگڑے کی ویڈیو گرافی کی جاتی ہے۔ اگر سماجی طاقت کا اندازہ لگانا چاہتے ہوتو کسی اس فرد سے پوچھیئے جسکو اس کے گاؤں والوں نے اسکا سماجی بائیکاٹ کیا ہے، کیونکہ یہ واقعات اکثر مواضعات میں پیش آتے ہیں، گاؤں میں اگر کوئی فرد کوئی جرم کرتا ہے تو قانونی سزا کے ساتھ ساتھ گاؤں والے بھی اسکا سماجی بائیکاٹ کرتے ہیں اور اس سے ہر طرح کاقطع تعلق کرلیتے ہیں یا پھر اسکی غلطی کا ازالہ کرتے ہوئے رجوع کرلیتے ہیں تاکہ دوبارہ وہ ایسی غلطی کا اعادہ نہ کرسکے۔لیکن جب دہلی میں ایک ظالم نوجوان ایک نابالغ لڑکی کا قتل کررہا تھا اور سماج تماشائی بن کر اس سنگین واردات کا نظارہ کررہا تھا، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ سماج پر کتنی بے حسی طاری ہوچکی ہے جبکہ ایک بے زبان جانور کتا بھونک بھونک کر صدائے احتجاج بلند کررہا تھا، لیکن انسانی سماج کی انسانیت جاگ نہیں سکی ۔حالانکہ کسی بھی جرم اور ظلم کے خلاف سماج کارد عمل سب سے طاقتور ہوتا ہے جو ایک دفاعی ہتھیار کی طرح کام کرتا ہے، لیکن انسانی خود غرضی نے اسکو کمزور بنادیا ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو سماجی رد عمل سے کوسوں دور رکھ رکھنا چاہتاہے جبکہ یہ خود ہر ایک انسان اور سماج کیلئے نقصاندہ ہے ۔اگر آج آپ کسی کا سہارا بنتے ہیں تو کل یہ سماج آپکا بھی سہارا بنے گا ۔لہٰذا سماج کا ہر فرد خواہ وہ کوئی بھی ہو ،سماج کو مضبوط اور طاقتور بنانے کا کام کرے، جو ہر فرد کی شراکت داری سے ہی بنتا ہے، ورنہ سماج بہت کمزور بن جائے گا اور نہ ایسے واقعات میں کوئی کمی آئے گی۔