انحراف و بگاڑ کا دوراور ہمارا رویہ!

موجودہ اکیسویں صدی کو انسانی ترقی کا عروج اور انتہا سمجھا جاتا ہےمگر جہاں یہ صدی انسانی دماغ کی ترقی کی انتہا کو ظاہر کرتی ہے، وہیں یہ انسانی محبت کی تباہی کا آغاز بھی ثابت ہورہی ہے ۔ اس صدی نے مادی سہولتوں، آسانیوں اور مشینوں کے عوض انسان کے باہمی رشتوں اور محبتوں کا نہ صرف خاتمہ کر نا شروع کردیا ہے بلکہ خاندانی نظام کو بھی تباہ و برباد کرکے رکھا ہے۔ دنیا بھر میں مادیت اور شہوانیت نے اخلاقی قدریں تہہ وبالاکرڈالی ہیں، معاشرتی نظام کو بے حیائی، بدکاری اور عریانیت کا مرکب بنایا ہےاور اخلاقیات کے نظام کو بے کرداری اور نفع پرستی کے مزاج نے زیروزبر کردیا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امانت ودیانت، صداقت وراستی اور خیرخواہی کے اوصاف آخری سانس لے رہے ہیں اور بگاڑ کے اس سیلاب سے اب کوئی خطہ محفوظ نظر نہیں آرہا ہے۔ہمارے کشمیری معاشرہ میں بھی گھٹن اور تنگ نظری کا جوتاثر بڑھتا چلا جارہا ہے،اُس کا براہ راست اثرہمارے رویوں پر پڑ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میںہمارے معاشرہ میں معاشی اونچ نیچ، معاشرتی تفاوت، سیاسی افراتفری ، جھنجلاہٹ،بغض، حسد، کینہ اور غصہ ہمہ وقت فروغ پارہا ہے۔ ان معاشرتی بیماریوں نے ہمارے رہن سہن، ہماری روز مرہ زندگی اور ہمارے رویوں کوبُری طرح متاثر کیا ہے۔ایک طرف ذہنی بیماریوں نے گھیرائو ڈال دیا ہے تو دوسری طرف خود کشی کا بھی چلن ہورہا ہے جبکہ چڑچڑاپن ،بے شرمی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال عام ہورہا ہےاور ایسی کئی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں، جو انتہائی شرمندگی یا تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔گویا اکیسویں صدی کے اس انحرافی اور معاشرتی بگاڑ کے دور میں ہم نے بھی مثبت سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے اورہر کوئی اپنے حالات اور معاشرے کی صورتحال سے پریشان ہی نہیںبلکہ بد دلی کا اظہار کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ حالانکہ کوئی بھی ایسا عمل جو انسانی صحت یا زندگی اور معاشرےکے لئے مضررساں ہو اور انسانیت کو خطرہ میں ڈال سکتا ہو،ہرگز جائز نہیں،جبکہ ہمارے دین ِاسلام نے کسی بھی غلط عمل سے قطعی طور مسترد کردیا ہے۔اسلام نے نہ صرف انسانی زندگی کے روحانی پہلوؤں پر زور دیا ہے ،بلکہ انسان کی زندگی کے مادی دُنیاوی ضروریات اور معاملات کا بھی پورا پورا خیال رکھاہے اور اجتماعی انسانی زندگی کے لیے مکمل لائحہ عمل اور نظام حیات و ہدایات بھی عطاکردیئے ہیں تاکہ انسان کے لئے دینی، دنیاوی،خارجی اور داخلی سب ہی ضرورتوں کے درمیان ایک توازن بر قرار رہ سکے۔لیکن یہ حضرت انسان ہی ہے،جس نے اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے اپنی مثبت سوچ مسخ کر ڈالا ہے اوراپنی منفی سوچ نے اُسے ناروا مسابقت، غیر ضروری مقابلہ بازی، دوسروں کو نیچا گرانے کی دُھن نے اتنا پریشان کر رکھا ہے کہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی جو بے پایاں اور اَن گنت نعمتیں ہیں ،اُن کا شکر ادا کرنے کی بجائے وہ ہم وقت دوسروں سے تقابل کرنے اور ان سے آگے نکلنے کی دُھن میں مگن ہوچکا ہے۔ جس کے نتیجے میںہمارے معاشرے کی زندگی دُرست اور صحیح روش پر نہیں چل رہی ہےاور ہر سُو اُن غلط راستوں کا چنائو ہورہا ہے،جن سے معاشرے کی گھٹن اور تنگ نظری میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔اس گھٹن زدہ معاشرہ میں نفرت و کدورت اور بغض و عناد کو مٹانے کے لئےہمیں چاہئے کہ ہم مثبت سوچ اختیار کرلیں،منفی سوچ کو مسخ کرکے مثبت رویے تقسیم کریں۔ آج کل باہمی محبت اور احترام قایم رکھنے کا سب سے آسان اور افضل نسخہ یہی ہے کہ ہم دوسروں کی دیکھا دیکھی کرنا چھوڑ دیں اوراپنے معاشرے میںخدمتِ خلق اور ایثار و ہمدردی کے اُس جذبے کو عام کریںجو ہمارے دین ِ متین کا امتیاز اور ہماری ملت کے مزاج کی رُوح ہے۔اکیسویں صدی کے اس بگاڑ دور میں ہمارے معاشرے کے بیشتر افرادبے کاری اور مہنگائی کے باعث معاشی بحران کا شکار اور مختلف پریشانیوں سے دوچارہیں، ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، ہمدردی سے پیش آئیںاور ایک دوسرے کے دُکھ درد کا احساس کریں، خصوصاًاپنی سوچ، اپنی فکر اور اپنے رویوں کو مثبت بنائیں۔ انشاء اللہ اسی سے معاشرہ میں بہتری آئے گی اور بگاڑ دور ہوجائےگا۔
فیضانِ نظر اور مکتب کی کرامت