!!! انجام اسکے ہاتھ ہے آغاز کرکے دیکھ

 اس وقت ہمارے ملک کی جوحالت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں،ہرآنے والادن انتہائی بھیانک ہوتاجارہاہے۔بھارت کے مسلمان اس وقت جتنی بے چینی،تشویش اورخوفناک مرحلے سے گذرر ہے ہیںشایداتنی سنگین اور مایوس کن حالت اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔آزاد بھارت کی اگربات کی جائے تو 70سال کے عرصے میں مسلمانوں پراتنا براوقت کبھی نہیں آیا۔اگرچہ کڑےحالات ہمیشہ اور وقفے وقفے سے آتے رہے ہیں لیکن اسطرح کی صورتحال کبھی پیدانہیں ہوئی تھی۔ایک توکرونا وائرس کاخوف ہے جس کاشکارہماراملک بھارت سمیت پوری دنیا ہے۔بڑے بڑے ملک اور ترقی یافتہ حکومتیں بھی اس وائرس"عذاب خداوندی"کے سامنے بے بس ہیں۔ہندوستان میں یہی صورتحال ہے18/19دن سے پورا ملک لاک ڈاؤن ہے اور ہرطرف افراتفری کا عالم ہے،لیکن اسکے علاوہ ایک دوسری پریشانی بھارتی مسلمانوں کے ساتھ یہ ہے کہ اب یہاں منظم انداز میں نیشنل میڈیا کھلے عام جھوٹ بول کر مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کی اندوہناک فضا پیداکررہاہے،یہ صورتحال بڑی سنگین اور تشویشناک ہے۔یہ سب جو کچھ ہورہا ہے یہ اچانک یاکوئی اتفاقی معاملہ نہیںدکھائی دیتا بلکہ ایک منظم سازش اور منصوبہ بند پلان کے تحت کیاجارہاہے،بھلا ان معاملوں میں میڈیا کواتنی دلچسپی کیوں ہے؟اسٹوڈیو میں یہ نفرت کے سوداگر اینکر آخر اتنی گھٹیا حرکتیں کیوں کر کررہے ہیں؟کیایہ لوگ نفرت کی کھیتی کرکے ایک بار پھر ملک کوتقسیم کرنا چاہتے ہیں؟یہ اور اس جیسے درجنوں سوالات ہیں، جس پر ہمیں غور وفکر کرنے اورلائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہےلیکن پھرسوال  پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے پاس ان  چیزوں پرغور وفکر کرنے کاوقت ہے؟ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک کیا ہم نے ان چیزوں پرغوروفکرکیا اور کوئی منظم لائحہ عمل ترتیب دیا؟آپ کہہ سکتے ہیں کہ صاحب اسکی ضرورت ہی پیش نہیں آئی لیکن یہ جواب آپکا بالکل غلط ہے۔،غلط اس لئے بھی ہے کہ 70سال کے طویل عرصےمیں ایسے بیشمار مواقع آئے لیکن ہم نے ان چیزوں کواہمیت نہیں دی حالانکہ ہزاروں فسادات کی شکل میں ہمیں زخموں کی ایک طویل لسٹ دی گئی بلکہ اتناکچھ دیا کہ شاعر کی زبانی یہ کہاجاسکتاہے کہ
ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی 
دردبے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
لیکن ہم نے ہرغم کو بھلادیا اوران غموں اور تکالیف سے کبھی کوئی سبق لینے کی کوشش نہیں کی،جسکانتیجہ آج ہمارے سامنے ہے ۔پہلےحکومت اور سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کوگمراہ کرتیں تھیں لیکن آج ملک کی تمام ایجنسیاں، ادارے،حکومت اورمیڈیا سب مل کر نفرت کے بیج بورہی ہے۔میڈیا اور ذرائع ابلاغ کوتو جمہوریت کاایک اہم ستون سمجھاجاتاہے۔ اس کا کام حق وصداقت پرمبنی خبریں اور حالات کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہوتاہے،حقیقت حال سے لوگوں کوباخبر کرنا ہوتاہے،حکومت کی ناکامیوں اور خامیوں کو لوگوں کوبتانا ہوتاہے لیکن یہ کیا؟اب تو یہ کبھی عدالت کاکام انجام دیتاہے تو کبھی پولس کاکردار ادا کرتاہے، کبھی جھوٹ اوردغا بازی اور مکاری کو فروغ دےکر ملک میں نفرت پھیلاتاہے۔ پھراس نفرت کانتیجہ کتنا سنگین نکلتاجارہا ہے کہ اب اسکی وجہ سے معصوموں کاقتل ہورہاہے، اُن پر ظلم وستم کےپہاڑ توڑے جارہے ہیں اور اب صورت حال یہاں تک پہنچائی گئی ہےکہ مسلمانوں کاوجود اس ملک کیلئے چیلنج بنا دیا گیا ہے۔اب اگرایسی صورت میں بھی ہم خاموشی اختیار کرتے ہیں، مستقبل کیلئے کوئی لائحہ عمل طے نہیں کرتےاور ماضی میں پیش آئے حوادث اورسانحہ سے سبق حاصل نہیں کرتے ،توآنے والے وقت میں حالات اور مزید بدسے بدتر ہو تے جائیں گے،پھر خدانخواستہ وہی ہوگا جواندلس میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔وہ اندلس(اسپین)جہاں مسلمانوں نے تقریبا ایک ہزار سال تک حکومت کی لیکن ایک وقت ایسا بھی آیاکہ وہاں مسلمانوں کے لئےاپنی شناخت محفوظ رکھنا تک مشکل ہوگیا،لاکھوں کروڑوں لوگوں کوقتل کردیاگیایاپھر انھیں ملک بدر کردیا گیا،مساجد کوچرچ اور گرجا گھروں میں تبدیل کردیاگیااورکیاکچھ وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ہوا ،اس وقت میںاسکی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔کیاہندوستان میں بھی ہمارے ساتھ یہی سب ہوگا؟اب سوال یہ بھی ہے کہ ہمیں ایسے  وقت میں کیا کرنا چاہئے؟ایک تویہ ہے کہ خاموشی سے اس ہولناک مناظر کودیکھا جائے اورپھر اپنی باری کاانتظار کیاجائے،اور دوسری صورت یہ ہے کہ ہم آنے والے چیلنجز سے مقابلے کیلئے تیار رہیں،اور فہم و فراست کے ساتھ کوئی ٹھوس لایحہ عمل بنائیں ۔جس سے ہم اپنا دفاع کرسکیں۔اس وقت کی صورتحال یہ بھی ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اور سیاسی لیڈر مسلمانوں  کی حمایت میں آنےکے لئے تیارنہیں،مسلمانوں کادفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں،پھرجمہوریت میں آخری سہاراعدالت ہوتی ہے لیکن عدالتیں بھی اپناوقار کھوچکی ہیںاوراب ہم عدالت پربہت زیادہ بھروسہ بھی نہیں کرسکتے،میڈیا اور ذرائع ابلاغ لٹی پٹی اور کمزور وناتواں لوگوں کاسہارا ہوتاہے جولوگوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتاہےلیکن اب تو اس ملک کےمیڈیا کا بھی باوا آدم نرالا ہوچکا ہے۔جو اپنا ضمیر خود گروی رکھ کر حکومت کی لونڈی بناہواہے اور پیسے کے نشے میں حکومت کے اشارے پرنفرت وعداوت کی فضا  وسیع کررہا ہے۔تھوڑی دیر کیلئے آپ سوچئے کہ جب ہوا میں زہر گھول دیاجائے،ماحول کو نازک بنادیاجائے،تو پھر ایسی مسموم فضا میں آپ امن وسکون سے کیسے رہ سکتے ہیں؟ آپ کے اور ہمارے روزی روزگار اور تعلیم کیلئے گھروں سے کیسے نکل سکتے ہیں،بعض جگہوں سے خبریں آرہی ہیں کہ مسلم دکاندار کالوگوں نے بائیکاٹ کردیا ہے،انکا سامان لینے سے انکار کردیا، نوبت جب یہاں تک پہونچ جائے توکیاہم اور آپ امن وسکون کی فضاء  میں سانس لے سکیں گے؟ذرا سنجیدگی سے سوچئے!کیاان حالات میں بھی ہم خود کو مامون ومحفوظ سمجھیں گے؟اب اسی طرح کاماحول ملک کے مختلف شہروں میں بنایا جارہاہے،کیاہم اب بھی خواب غفلت میں رہیں گے؟
اس وقت ان سارے معاملات پرسوچنے اور غور وفکر کرنے کی اہم ضرورت ہے۔ملک کی فضاء بڑی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے،اس میں میڈیا اورٹی وی چینل اہم کردار اداکررہے ہیں،ہندی انگلش اخبارات سے لیکرالیکٹرانک میڈیا اور ٹی چینلس دل کھول کرمسلمانوں کے خلاف،جھوٹ، الزام تر اشی اورنفرت پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔کہنے کوتو بھارت میں ہماری 30کروڑ آبادی ہے لیکن ہماری پاس قومی سطح کاکسی بھی زبان میں کوئی اخبارتک نہیں ہے،آخرکیوں؟ کیامسلمانوں کے پاس مال دولت نہیں ہے؟مسلمان بھارت میں ہزاروں دینی اداروں کی کفالت کرتے ہیں، لاکھوں مساجد کاخرچ مسلمانوں کے تعاون سے پوراہوتاہے،سینکڑوں تنظمیں،ٹرسٹ اورویلفیر سوسائیٹیاں مسلمانوں کے دم سے پھل پھول رہی ہیں،پھر ہمارے پاس میڈیا ہاوس اور قومی سطح کےاخبارکیوں نہیں ہوسکتے؟ اسکاجواب یہ ہے کہ ہم نے ان چیزوں کوسنجیدگی سے لیاہی نہیںاوراسکی اہمیت کااندازہ کیاہی نہیں،اب بھی کچھ نہیں بگڑا،ہمیں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ۔صاحب استطاعت مسلمان آگے بڑھیں،قدم بڑھائیں اپنے سرمائے بطور تجارت یافی سبیل اللہ خرچ کرنے کاعزم کریں،ایک مضبوط میڈیاہاوس کے فوری قیام پرتوجہ دیں تاکہ میڈیا کے ذریعے پھیلائے جارہے جھوٹ کوبے نقاب کرکے سچ اورنفرت کی جگہ امن ومحبت کا پیغام عام کیاجاسکے،مسلم تنظمیں اور انکے ذمہ داران بھی اس پرغوروفکرکریں اور لائحہ عمل طے کرکےاس پرعمل آوری کویقینی بنائیں۔آج پوری دنیاپرجولوگ حکومت کررہے ہیں انکو دیکھئے،سمجھئے پڑھئے ،تومعلوم ہوگاکہ میڈیاسمیت تمام اہم اداروں اور ایجنسیوں پرانکا کنٹرول ہے۔ہمیں ایک نیوز کیلئے انکی ایجنسی اورانکے ادارے کی مددکی ضرورت پڑتی ہے۔اسلئے ہمیں اس پرتوجہ دینا ہوگا،ہرگھر میں ٹی وی ہے،ہرایک کے پاس موبائل ہے ،خبروں کی ضرورت ہرایک کوہے دنیامیں کیاہورہاہے ،ملک میں کیا ہورہاہے، ان حالات سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔سچی خبر،معیاری اورایماندارانہ صحافت اورقوم کی تعمیر کیلئے ہمیں میڈیاہاؤس کی شدید ضرورت ہے،جسکے لئے ہمیں پیش رفت کرنی ہوگی اوراسکو یقینی بنانا ہوگاورنہ ہم صرف شکوہ شکایت ہی کرتے رہیں گے اوراسکاکوئی فائدہ نہیں۔ بغور جائزہ لیا جائےتوصاف دکھائی دیتا ہےکہ حالات اتنے سنگین  ہوتے جارہے ہیں کہ کل شاید ہمارے پاس ان شکایتوں کیلئے بھی موقع  نہ ہو۔ہم  اپنی غیرضروری اورفضول خرچیوں پرکنٹرول کرتے    ہوئے بھی اسکو عملی جامہ پہناسکتے ہیں۔ بہت سارےلوگ اس کشمکشِ میں ہیں کہ یہ کام کس طرح ہوگا؟زندہ قومیں اپنے وجود کیلئے آخری حد تک لڑتی ہیں اوراپنی بقا کیلئے سامان فراہم کرتی ہیں لیکن مردہ قومیں تماشائی ہوتی ہیں اوروہ اپنی تباہی وبربادی کاتماشا خوداپنی آنکھوں سے دیکھتی رہتی ہیں۔مسلمانوں کو مایوس ہرگز نہیں ہوناچاہیے،مایوسی کفرہے،اسلئے ہمیں پوری قوت کے ساتھ یہ عزم مصمم کرناہوگاکہ ہمیں اپنی بقاء کیلئے اعلی اورمعیاری تعلیم گاہیں،کالج ویونیورسیٹیاں بھی ہوں،دینی ادارے اور دینی درسگاہیں بھی ہوں،مساجد بھی ہوں اورمدارس ومکاتب بھی، اسکے علاوہ قومی سطح کے معیاری اخبارات اورمیڈیاہاؤس بھی ہو،جس کے لئے آپسی اتحادو اتفاق کی جدوجہد بھی لازمی ہے۔ آئیے ہم  سب مل کراس کیلئے کوشش کریںاورشاعر کے اس پیغام کے ساتھ میدان میں اتریں کہ
 انجام اسکے ہاتھ ہے آغاز کرکے دیکھ    
بھیگے ہوئے پروں سے ہی  پروازکرکے دیکھ  
برائے رابطہ 8099695186 
ای میل [email protected]   
(مضمون نگار،کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک حیدرآباد کے جنرل سکریٹری ہیں)