انتقامی کاروائی انتہائی رذالت

اللہ رب العالمین بڑا احسان ہے کہ انسان کو اشرف المخلوقات بناکر پیداکیا ہے ۔ مرد و زن کی زندگی کو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ٹھہرا دیا ہے ۔ انہیں ایک دوسرے کی  زندگی کا ہمسفر بنایا ہے ۔ عورت جیسی صنف نازک کو ایک منفرد مقام عطا کیا ہے ۔ یوں تو معاشرے کے کمزور طبقات خصوصاً خواتین پرتشدد کے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن ان میں بھیانک اور خطرناک تشدد تیزاب کا استعمال ہے ۔ ایسے تشدد میں خواتین نہ صرف زندگی بھر کے لیے معذور و داغدار ہو جاتی ہیں بلکہ بعض اوقات ان کی  قیمتی جان بھی تلف ہوجاتی ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڑز بیورو (NCRB) کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں’ 'ایسڈ اٹیک‘ (تیزابی حملے) کے سب سے زیادہ 309 واقعات 2017ء میں پیش آئے جبکہ 2018ء میں 277 واقعات درج کئے گئے ہیں ۔ ان دو برسوں میں مجموعی طور پر 623 خواتین متاثر ہوئیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہر برس صرف 149 افراد کے خلاف چارج شیٹ دائر کی گئی، جوکہ ہر سال پیش آنے والے واقعات سے نصف سے بھی کم ہے ۔ 2018ء میں سب سے زیادہ 61 فیصد یعنی 523 کیس، عدالتوں تک پہنچے تھےتاہم صرف 19 واقعات میں ملوث مجرموں کو سزا مل سکی ہے ۔
اپنی اس 'وادئ کشمیر میں اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا کسی کےتصور میں بھی نہیں آتا،جس کے نتیجہ میں یہاں تیزاب پھینکنے کے واقعات صفر کے برابر تھے ، لیکن گذشتہ ایک دہائیکے دوران ایسے دل دہلانے والے واقعات رونما ہونے لگے ہیں ۔ ۲۰۱۳ء میں وادئ کشمیرمیں پہلا’’ ایسڈ اٹیک‘‘ کا واقعہ رونما ہوا ،جس میں ایک موٹر میکنک نے سرینگر  میں ایک لڑکی پرتیزابی حملے کےبھیانک جرم کا ارتکاب کیا ۔ جسے فاسٹ ٹریک کورٹ نے فروری ۲۰۱۴ء میں دس سال کی قید معہ جرمانہ کی سزا سنائی تھی ۔ یہ اس نوعیت کا پہلا کیس تھا ، اس کے بعد ۲۰۱۴ء میں اِسی طرح کا دوسرا کیس اُس وقت رونما ہوا، جب ۲۱ سالہ قانون کی طالبہ پہ نامعلوم کار سواروں نے ایسڈ سے حملہ کیا ۔ گزشتہ سال کے ماہِ اکتوبر میں ضلع شوپیان سے ایک اور تیزابی حملے کا واقعہ پیش آیا تھا ، جہاں ۱۸ سالہ لڑکی کو تیزاب پھینک کر بری طرح سے متاثر کیا گیا اور رواں سال کا پہلا واقعہ حال ہی میں سرینگرمیں پیش آیا، جس نے وادی کے طول و عرض میں لوگوں کو ایک بار پھر ہِلاکر رکھ دیا ہے۔ اس تازہ ترین واقعہ میں سرینگر کی ۲۴ سالہ جوان لڑکی پہ چند درندہ صفت حملہ آور نوجوانوں نے تیزاب پھینکا اور اُس کو بری طرح سے متاثر کرکے رکھ دیا ہے ۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا رپورٹوںکے مطابق یہ واردات یکم فروری ۲۰۲۲ء منگل کی شام ۶ بجے اُس وقت پیش آیا،جب متاثرہ لڑکی گھر کی طرف لوٹ رہی تھی ۔بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ لڑکی کی شادی حملہ آور جوان سے طے ہوئی تھی ،جواُ سے مختلف حیلےبہانوں سے تنگ و طلب کیا کرتاتھا۔حملے میںمتذکرہ لڑکی کا چہرہ اور آنکھیںبُری طرح سے متاثر ہو چکی ہے ۔ اس ضمن میں پولیس نے کیس درج کرکے فوراً بعد ہی ملوث افراد کو گرفتار کرلیا اور اِس وقت پولیس کی ایک خصوصی ٹیم کیس کی تفتیش جاری رکھی ہوئی ہے تاکہ ملوث افراد کو بہت جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اس افسوس ناک واردات میں جس تیزی سے پولیس نے کاروائی عمل میں لائی، وہ قابل تعریف ہے ۔رپورٹ کے مطابق اِس واقعہ میں ملوث افراد میں سے بنیادی مجرم بھی شامل ہے جو ایک طبی اسٹور پر کام کرتا ہے اور جس کے ساتھ لڑکی نے شادی کرنے سے انکار کیا تھا۔جس کا انتقام اس درند صفت حملہ آور نے اس معصومہ پر تیزاب پھینک کر اس کی زندگی کو ہمیشہ کے لئے خراب کر کے لیا ہے۔ جس کے خلاف سماج کے ہر طبقے نے آواز اٹھائی ہے ۔
باریک بینی سے دیکھا جائے تو تیزاب کا ذخیرہ اور اس کی فروخت اب یہاںتشویش کی بات بن گئی ہے ۔ حالانکہ اس حوالے سے قوانین موجود ہیں اور سپریم کورٹ نے رہنما خطوط بھی واضح کر دئے ہیں، اس کے باوجود بھی کیمیکل کے طور پر تیزاب جیسی جان لیوا خطرناک شئے ہر جگہ کُھلے عام فروخت ہوتی ہے ۔ جو انتظامیہ کے لئے کئی سوالات کھڑا کرتی ہے ۔یہاں تیزاب کی خریدو فروخت بہ آسانی چل رہی ہے جبکہ اِسے سب سے سستا ہتھیار مانا جاتا ہے ۔ جس سے درند صفت حملہ آور انتقام گیری یا بدلہ لینے کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں ۔جس سے متاثرہ شخص ذہنی، جسمانی، معاشی اور جذباتی ہر لحاظ سے ہمیشہ کے لئے معذور  ہوکر رہ جاتا ہے۔
قارئین کرام! آپ کے ذہن میں بھی اس طرح کے سوالات کھٹکتے ہوں گے کہ کیا ایسے درند صفت افراد انسانیت اور معاشرے کے لئے ناسور تو نہیں ہیں؟ کیا امن کا پیغام  دینے والے دین ِ اسلام اس طرح کی حرکات کرنے کی اجازت دے دیتا ہے ؟ کیا اس طرح کے حملہ آوروں کو سماج میں رہنے کا حق ہے ؟ ان سبھی سوالوں کا جواب آپ بے شک نفی میں ہی دیں دینگے ۔واقعی ایسے کرتوت غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر اسلامی ہیں۔ جن کی نہ صرف مذمت کافی ہے بلکہ ایسے افرادانتہائی قابلِ ملامت اور کڑے سزائوں کے مستحق ہیں۔اس سلسلے میں جموں وکشمیر کے قانون دانوں، فقہاء اور دانشورانِ قوم کوکوئی ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہےتاکہ انتظامیہ سے تیزاب جیسی جان لیوا اور تباہ کُن چیزوں کی خرید و فروخت پر خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دے سکیں،جو بھارتی سپریم کورٹ کے حکم نامہ بتاریخ ۱۸ جولائی ۲۰۱۳ء میں دئیے گئے ضابطوں کی پاسداری کو نافذ العمل بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر سکے اور اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لئے مضبوط اور موثرحکمت ِعملی تشکیل دیں۔
قارئین کرام! ہمارادین ِ اسلام عفو و درگزر کرنے کی تعلیم دیتا ہے، بھلائی اور نیکی کرنے کا حکم دیتا ہے، لوگوں سے اچھا معاملہ کرنے کی تلقین کرتا ہے، برائی کو بھلائی سے ختم کرنے کا معاملہ بیان کرتا ہے تاکہ ہمارے آپسی اختلافات دور ہو جائیں، دشمنی دوستی میں بدل جائے، دلوں کو سکون حاصل ہو سکیں۔ اسی لئے قرآن کریم میں عفو و درگزر کی متعدد آیات مبارکہ بیان کی گئی ہیں ۔اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت مزید بڑھا دیتا ہے ‘‘۔ (المسلم؛ 6592)
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ؐ نے کبھی اپنے نفس کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا بلکہ ہر وقت عفو و درگزر اور احسان کا معاملہ اختیار فرمایا ہے۔ آپ ؐ خود سراپا عفو و درگزر والے رحمت للعالمین ہیں، جن کی یہ اونچی شان رہی ہے کہ بڑی سے بڑی ناقابل معافی حرکت کو بھی اپنی اعلیٰ ضرفی سے معاف فرمایا ہے۔ عفو یعنی معاف کرنے، بخش دینے، درگزر کرنے اور بدلہ نہ لینے کے ہیں۔ کسی کی زیادتی اور برائی پر انتقام کی قدرت و طاقت رکھنے کے باوجود بھی انتقام نہ لینا اور معاف کر دینا ہی حقیقی عفو کہلاتا ہے ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ انسان کو غصّہ کے وقت لئے گئے فیصلے پہ بالآخر شرمسار ہونا پڑتا ہے، اسی لئے عفو کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی معاف کر دے، بدلہ لینے کے بارے میں نہ سوچے، خواہ طبیعت اس پر آمادہ نہ بھی ہو اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دلی خوشی کے ساتھ معاف کرے اور ممکن ہو تو قصوروار کے ساتھ کچھ احسان کا معاملہ بھی کرے، ایسے ہی لوگوں سے اللہ پاک محبت فرماتے ہیں۔
الغرض اسلام عفو و درگزر کرنے والا دین ہے، جہاں عدل و انصاف کے ساتھ ساتھ احسان کو بھی انتہائی اعلیٰ مقام حاصل ہے اور یہ دین صرف امن و امان کا پاس و لحاظ برقرار رکھنے والا ہی نہیں ہے بلکہ اپنے ذاتی اغراض کے لئے انتقام گیری یا بدلہ لینے کا روادار بھی نہیں ہے۔ یہی اسلام کی سچی تعلیمات اور منفرد پیغام ہے ۔
تیزاب کے متعلق موجودہ قوانین :
قانون دراصل وہ رسمی اصول و ضوابط ہے جو اجتماعی اصولوں پر مشتمل ایک ایسا نظام بنا ڈالتےہیں کہ جس کو عموماً حکومت کی جانب سے کسی معاشرے کو منظم کرنے اور اس کو تضبیط کرنے کے لیے نافذ العمل بنایا جاتا ہے اور اِن ہی اصولوں پر ایک معاشرے کے اجتماعی رویوں کا دار و مدار ہوتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس زمین پہ رہنے والے لوگوں کے لئے شر انگیزی، فتنہ و فساد اور لڑائی و جھگڑے کرنے والوں کے لئے عدل و انصاف کا قانون موجود نہیں ہے ۔ قانون چونکہ مکمل معاشرے پر لاگو کیا جاتا ہے، اس لیے یہ اس معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے ۔
آئین ِ ہند کی دفعہ 326A کے مطابق جو کوئی بھی شخص، کسی شخص کے جسم کے کسی بھی حصّے کو مستقل یا جزوی نقصان پہنچائے یا خراب کرے یا جُھلس دے یا معذور کرے یا اس شخص پر تیزاب پھینک کر یا اس کے استعمال سے شدید چوٹ پہنچائے تو اُس فردکو دس سال سے کم قید کی سزا نہیں دی جائے گی، جو عمر قید تک بڑھائی جا سکتی ہے اور ساتھ میں جرمانہ بھی عائد کیا جائے جو کہ متاثرہ کے علاج کے طبی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے معقول ہو، اِس دفعہ کے تحت متاثرہ کو ادا کیا جائے ۔
اسی طرح دفعہ 326B کے مطابق جو کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر تیزاب پھینکے یا پھینکنے کی کوشش کرے اور اُس شخص کو مستقل یا جزوی نقصان پہنچائے، خرابی پیدا کرے ، جھلسادے یا بگاڑے یا معذوری یا شدید تکلیف پہنچانے کی نیت سے پھینکے تو اُس سے پانچ سال سے کم قید کی سزا نہیں دی جائے گی، جسے سات سال تک توسیع کی جا سکتی ہے اور ساتھ میں جُرمانہ ادا کرنے کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے ۔
انڈین شواہد ایکٹ کے تحت سیکشن 114B 'تیزاب کے حملے کے بارے میں قیاس بھی موجود ہے ۔ اس سیکشن کے مطابق عدالت مقدمے کے حالات اور متاثرہ کے بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قیاس کرے گی کہ آیا ایسے شخص نے شدید چوٹ پہنچانے کی نیت سے خاتون پر تیزاب پھینکا ہے ۔
تیزاب کے حملوں سے نمٹنے کے ’’جرائم کی روک تھام (تیزاب کے ذریعے) ایکٹ – 2008‘‘کی ایک اور کارروائی بھی باضابطہ طور پر موجود ہے ۔ بھارت میں خواتین کے قومی کمیشن (NCW) نے بھی تیزاب گردی کے متاثرین کی بحالی اور امداد فراہم کرنے کے لئے ایک مہم شروع کی ہے ، اس تنظیم نے باضابطہ طور پر ایک مسودہ بل 'جرائم کی روک تھام (تیزاب کے ذریعے) ایکٹ – 2008' کی تجویز پیش کی ہے ،جس میں قومی امدادی بورڈ برائے ایسڈ متاثرین (National Assistance Board for Acid Victims) قائم کرنے کی تجویز دی ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ لکشمی بمقابلہ یونین آف انڈیا کے سرکردہ کیس میں سپریم کورٹ نے ہندوستان میں تیزاب کی فروخت کے حوالے سے ضابطے بنائے ۔عدالت نے اس معاملے میں ریاستوں کو ہدایت دی کہ وہ تیزاب کی فروخت کے ضابطے اور تیزاب حملے کے متاثرین کی بازآبادکاری کے لیے مناسب دفعات نافذ کریں ۔
تیزاب کے حملوں کو روکنے کے لئے سخت سے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں بین الاقوامی ضابطوں پر عمل کرنے کا وقت آپہنچا ہے ۔ ہمارے یہاں صرف سخت قوانین کا ہونا خوش آئند بات مانی جاتی ہے اور اگر کسی قانون میں کوئی کمی لگ جائے تو اس کو ترمیم سے درست کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جب تک معاشرے کے اندر یہ احساس اُجاگر نہ ہو کہ عورت پرظلم کرنا غلط بات ہے، تب تک اس طرح کے واقعات کو روکنا ناممکن ہے ۔
لہٰذا وقت کا تقاضا یہی ہے کہ بچوں کو تعلیمی اداروں میں اپنی زندگی کا دفاع کرنے کی مکمل ترغیب دی جانی چاہئے ۔ جس طرح سے بھارتی کریمنل لا میں ’’ایسڈ حملے ‘‘کے دوران متاثرہ خاتون یا مرد کو اپنا دفاع کرنے کی پوری اجازت حاصل ہے اور قریب میں موجود افراد کی جانب سے دفاعی اقدامات کی مکمل اجازت دی گئی ہے تاہم لاعلمی کے سبب اس حق کا استعمال شاذ و نادر ہی ہو پاتا ہے، جس کی وجہ سے حملہ آوروں کو فرار ہونے کا موقع مل جاتا ہے ۔ مزید غیر قانونی طور پر ایسڈ کے کاروبار کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائے ۔ رجسٹرڈ اور قانونی طور پر چلائے جانے والوں کی رجسٹر (Register) چیک کیا کرے ۔ضلع کے ڈرگ کنٹرولر کو چاہیے کہ رجسٹرڈ ایسڈ بیچنے والوں کا ایک واٹس اَپ گروپ تیار کرے، جس میں وہ ایسڈ بیچتے ہی سبھی ضروری اطلاعات شئیر کر سکیں ۔ ۱۸ سال کے کم افراد کو اس سے بیچے سے گریز کرے اور بالغ خریدنے والوں سے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی لینا معہ اس کے خریدنے کی معقول وجوہات و مقصد پوچھنا نہ بھولیں ۔قانون کی پاسداری کرنے والے اداروں (law abiding  agencies) کو مضبوط تفتیشی دلائل معہ شواہد و دیگر ثبوت کے ساتھ ایسے کیسوں میں ملوث افراد کو فاسٹ ٹریک کورٹ کے ذریعے سخت سے سخت سزا دلانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کا نہ صرف اعتماد برقرار رکھا جائے بلکہ ایسی گھناؤنی حرکتوں سے بھی لوگوں کو دور رکھا جا سکیں ۔ انتظامیہ کو اس طرح کا واقعہ رونما ہونے کے بعد جاگ جانے سے قبل ہی ایسے مؤثر اقدامات اٹھانے چاہیے ،جس سے مستقبل میں اس طرح کے واقعات پیدا ہونے سے قبل ہی بچایا جا سکے ۔
( ہاری پاری گام ترال ،رابطہ – 9858109109)