سری نگر بڈگام میں ضمنی انتخابات کا ڈرامہ سابق وزیرعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی آرزو پوری کر کے اپنے اختتام کو پہنچا ۔ اب وہ ڈھائی سال تک بھارتی پارلیمنٹ میں جاکر کیا کریں گے، کیا گل فشانیاں کر یں گے، وہ دنیا بڑی دلچسپی سے دیکھے گی ۔ اب بتایئے !کیاکشمیر میںصرف5فیصد لوگ استصواب کے مطالبے پرڈٹے ہوئے ہیں اور ریاست جموں وکشمیرکا سیاسی حل چاہتے ہیں یا 95فیصد؟اتوار 9؍اپریل 2017 کے الیکشن کے خلاف فقیدالمثال بائیکاٹ نے اس حقیقت سے پردہ سرکا دیاکہ کشمیرکے سوفیصدعوام کشمیرکاز پر یک سوئی کے ساتھ کمر بستہ ہیں۔فورسزکے ہاتھوںوادی کشمیرمیں1990سے آج تک سے بالخصوص ایک کے بعدایک خونین سانحہ پیش آتارہا۔2016ء کے پانچ ماہ کے دوران جوسانحات پیش آئے، ان میں 117سے زائدکشمیری نوجوان شہیدہوئے ،جب کہ عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعدادبھی فورسزکے ساتھ مختلف معرکہ آرائیوں کے دوران جان بحق ہوگئی۔2017 کے آغازسے ہی فورسزنوجوانوںکومختلف بہانوں سے ہراساں کرتی رہی لیکن اس کاجی نہیں بھررہاتھاکیونکہ کشمیرکی تاریخ کاورق ورق اس امرپرشاہدوعادل ہے کہجب تکفورسز کے ہاتھ کشمیریوں کے لہوسے پوری طرح تربترنہ ہوں اسے چین نہیں آتا،اس لئے وہ موقع اور موسم کی تلاش میں رہتی ہے کہ کب وہ اپنے ہاتھ خون معصوم سے رنگین کریں۔ 9،؍اپریل 2017ء الیکشن ڈرامہ کے دوران جس بڑے پیمانے پرریاستی دہشت گردی کاارتکاب کیاگیا ،ا س سے ایک بارپھریہ حقیقت سامنے آئی کہ جس پیمانے پرفورسزنے طاقت کا وحشیانہ انداز استعمال کرکے بڈگام سے گاندربل تک خون کی ہولی کھیلی ،وہ بدیہی طور اس امرپرایک بارپھرمہرتصدیق ثبت کرتاہے کہ فورسز کوریاست جموں وکشمیرکے مسلم اکثریتی علاقوں میں کچھ بھی کر گزرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے اور وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں ۔
9؍اپریل 2017اتوارکوسری نگر ،گاندربل اورضلع بڈگام میںبھارتی پارلیمان کی سیٹ کے لئے کہنے کو الیکشن ہورہا تھالیکن ا س سے قبل ہی کشمیری عوام ا س سے لاتعلقی کااعلان کرچکے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ اس روزسری نگر،گاندربل اوربڈگام سمیت وادی کشمیرمیں الیکشن بائیکاٹ سے ہوکاعالم تھالیکن بدقسمتی سے وردی پوش اپنے سینوں پرمیڈل سجانے ،اپنے کندھوںپر اسٹارزلگوانے اورپرموشن اور ترقی کے ہوس میں اس قدراندھے بہرے ہوکراپنے ہی کشمیری نوجوانوں کوپیوندخاک کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ،ان کے بعض کئی افسران 1990سے آج تک بڑے بڑے پوسٹوں سے ریٹائر ہو ئے ہیںتو ان کی وجہ شہرت اورعہدے داری کی بنیادصرف قتل و غارت گری رہی ۔9؍اپریل اتوارکو انہوں نے اپنی عادت سے مجبو ر ہوکر کئی مقامات پرالیکشن بائیکاٹ کے مناظر دیکھ کر نعرہ زن عوام پربندوق کے دھانے کھول کرسنگین جرم کابرملاارتکاب کرکے 8نوجوانوںکوابدی نیند سلادیا۔ ضلع بڈگام کے علاقہ بیروہ اورچرارشریف علاقوںمیں فورسز کے ہاتھوں جو نوجوان خون سے تربترہوئے ،ان میں 1۔فیضان احمد ڈارساکن راتھرپورہ ڈھلون 2۔عباس جہانگیر ولد فتح محمد،فتح محمدکاایک بیٹا2015میں جان بحق ہوچکاہے3۔ نثار احمد ولد غلام محمد4۔ْشبیر احمد بٹ ولد غلام محمد ساکن دولت پورہ5۔عادل فاروق شیخ ولد فاروق احمد6۔ عامر منظور ولد منظور احمد یہ دونوں بچے 12ویں جماعت کا طالب علم تھے 7۔محمد فاروق گنائی ساکن بارسو نامی ٹپر ڈرائیو8۔ارشاداحمدجان بحقجب کہ 250کوزخمی کردیاگیا، جن میں سے کئی اسپتالوں میں موت اورحیات کی کشمکش میں مبتلاہیں۔کشمیرمیں پیش آئے پہلے سانحات کی طرح جب یہ سانحہ پیش آیاتوہرطرف خون ہی خون تھا،چیخ وپکاراور آہ وفغاں تھااورہرطرف جلیانوالہ باغ جیسا خون آشام منظرتھا۔اس قتل عام سے ایک بارپریہ مبرہن حقیقت سامنے آئی کہ کشمیرکی تمام بھارت نواز جماعتیں جموں کشمیرمیں بہہ رہے خون کی براہ راست ذمہ دارہیں 1947 سے ہی جنہوں نے کشمیری عوام کو دھوکہ دیا جس کی وجہ سے آج ریاستی عوام ظلم و ستم کی شکار ہو ر ہے ہیں۔
بھارتی لوک سبھاکی ایک سیٹ کے لئے الیکشن کے پس منظر میں فورسزنے اپنے جبروقہرکا حربہ استعمال کیا مگر کشمیریوں نے اولوالعزمی کامظاہرہ کیا ۔ انہوں نے اپنے مثالی الیکشن بائیکاٹ سے جہاں بالغ نظری اور راست روی کاایک بارپھرثبوت فراہم کیا،وہیںانہوں نے ایک بارپھر بھارت اوربین الاقوامی رائے عامہ کوپیغام سنایا کہ ریاست جموںو کشمیرکے مستقبل کافیصلہ ہوناابھی باقی ہے اوریہ ریاست متنازعہ خطہ ارض ہے ۔بلاشبہ یہ بھارت کی سیاسی قیادت کے لئے ایک اہم نوشتۂ دیوارہے ۔یہ الگ بات ہے کہ بھارتی قیادت جان بوجھ کراس نوشتہ دیوار کوپڑھنے سے کنی کتراتی ہے کیوںکہ اسے معلوم ہے کہ کشمیرحل کے بغیر انہیں وہاں رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ۔سوال یہ ہے آخرکب تک بھارتی قیادت کشمیرکے حوالے سے نوشتہ دیوارپڑھنے سے آنکھیں چراتی رہے گی ؟ پارلیمانی الیکشن کے موقع پر سری نگرکے غیورعوام نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اب کی بار بھی پولنگ مراکز کے نزدیک جانے سے اجتناب کیا۔ چناںچہ پولنگ سٹیشنوں پر موجود عملہ ووٹروں کا انتظار کرتا رہا مگر کوئی بھی متنفس اپناووٹ ڈالنے کیلئے تیارنہ تھا ۔ تمام کے تمام پولنگ سٹیشن سنسان اور ویران پڑے رہے ۔سری نگرکے کسی بھی علاقے میں پولنگ کا ماحول نہیں تھا، لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے، کہیں کہیں سڑک پر لوگ بیٹھے ہوئے گپ شب لگا رہے تھے، بیشترمقامات پر نوجوان سڑکوں پر کرکٹ کھیل رہے تھے۔سنگ باری کی وجہ سے پولنگ عملہ اور فورسز اہلکار وں کودن بھر پولنگ سٹیشنوں کے اندر ہی محصور ہوناپڑا۔سری نگرمیں ایسا لگ رہا تھا کہ یہاں پولنگ کادن نہیں بلکہ سول کرفیو کادن ہے۔یہ صورتحال سری نگرکے ہر ایک علاقے میں دکھائی دے رہی تھی۔ ادھر یہ شکایتیں بھی گردش کر گئیں کہ بعض جگہوں پر پولنگ ایجنٹوں، فورسز اہلکاروں اوربھارت نواز سیاسی پارٹیوں کے چند مراعاتی ورکروں نے ووٹ ڈالے جسے کہاگیاکہ دو فیصدسے بھی کم تھے ۔
2016کے پانچ ما ہ کے دوران جس طرح کشمیری عوام بھارت کے خلاف سراپااحتجاج بنے اور9؍اپریل 2017اتوارکو ایک بارپھرجب وہ ’’انتخاب نہیں استصواب‘‘کااپنامطالبہ دہراتے رہے۔ یہ ساری صورتحال اس امرکوالم نشرح بناتی ہے کہ کشمیری قوم کی سیاسی جدوجہد ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور اس نے ایک نیاعزم ،نیاولولہ ، نئی جہت اور نئی رفتار پکڑ لی ہے۔ووٹ ڈالنے سے مکمل بائیکاٹ کاواحدمقصدیہ تھاکہ عالمی رائے عامہ کویہ پیغام جائے کہ بھارت کشمیرکاز کودبانے میں مکمل طورناکام ہوچکاہے اور متنازعہ ریاست جموں کشمیر پرصرف اورصرف فوجی طاقت کے بل پر کارو بار سلطنت چلایا جارہا ہے ۔ 9؍اپریل اتوار دن بھرماردھاڑ اورقتل وغارت گری کابازارگرم رہا مگر شام کو سری نگرمیں الیکشن کمیشن کے ایک آفیسرنے 6.7فیصدووٹ کاسٹ ہونے کاجودعویٰ کیاوہ لاجیک اورمنطقی طور پر پرہرگزدرست نہیںکیونکہکشمیریوں کوخون میں نہلانے 8نوجوانوں کوشہیداور250کوزخمی کئے جانے کے بعد اس شرح کی کوئی اعتباریت باقی نہیں رہتی ۔اس کے دوروز بعد ۳۸؍ پولنگ بوتھوں پرا ز سر نو پولنگ کی گئی جو صرف دو فی صد رہی۔ ضلع سرینگر،ضلع بڈگام اورگاندربل کے عوام نے الیکشن کابائیکاٹ کرکے اپنی اصل سیاسی خواہش کا بر ملا اظہار کیااور اس امرپرمہرتصدیق کی کہ کشمیرمیںبھی اسی طرح آزادی کی صبح ضرور طلوع ہوگی جس طرح برصغیر میں انگریزاپنے مظالم اور مصائب بھارتی عوام پر توڑنے کے باوجود1947ء میں برصغیرکے عوام کے لئے صبح آزادی طلوع کر نے پر مجبورہوا ۔ اس لئے کشمیر کاز کے خادموںکو مایوس ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، عوام الناس میں ذژہنی تھکاوٹ ، مزاجی اکتاہٹ ،اعصاب شکنی کا شائبہ تک نظرنہیں آرہا،اس لئے کشمیرکاز جس نہج پرآج دکھائی دے رہاہے اورمجموعی طورپر جس طرح بغیرکسی لجا جت معذرت خواہی،مصلحت اور منافقت کے انتہائی سنجیدگی، دل سوزی ، اوروجدآفریں، دل نشیںحق گوئی کااظہار اورناقابل فراموش کرداروعمل سامنے آرہاہے۔ا س سے امید بندھتی ہے کہ دیر سویر دلی کسی منصفانہ حل پر رضامند ہوگی ا ور یہ قوم کامیابی سے سرفرازہوجائے گی۔آج الیکشن بائیکاٹ مہم کوپہلے کی طرح کہیںسے نکتہ چینی ہوئی اورنہ ہی اسے یہ کہہ کر ہدفِ تنقید بنایاگیا کہ الیکشن بائیکاٹ کی ضرورت کیاہے۔پہلے یہ کہاجاتاتھاکہ انتخابات ایک انتظامی معاملہ ہے ،اور اس سے مسئلہ کشمیر کی ہیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ یہ نالی سڑک بجلی اور نوکری تک محدود ہے مگر اس بار الیکشن بائیکاٹ کے معاملے پرفکر و نظر کا تضاد اور ذہنی انتشار کا کوئی عمل دخل نظر نہ آیا ، حالانکہ ا سی چیز نے کبھی متحدہ حریت کانفرنس کو دو پھاڑ کیا تھا ۔ ا س وقت گیلانی صاحب بائیکاٹ کے حامی تھے لیکن بعض دوسرے قائدین ان کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ اب کی بار ایساہرگزنہ تھابلکہ سب کااس امر پراتفاق رہا کہ کشمیری عام کی الیکشن میں شمولیت باہرکی دنیامیںکشمیرکازکو کمزوربنارہاہے۔اس یکسوئی نے الیکشن مقاطعے یا الیکشن میں شمولیت کے حوالے سے فکرونظرمیں پائے جانے والے تضادات کا خاتمہ کردیا۔ کشمیر یوں کی تحریک حق خودارایت پہ نگاہ ڈالی جائے تووقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نصب العین کوپالینے کے طریقہ کارمیں بھی تضادات کا تناسب ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے اورقوم دشت و بیاباں کی بے سمت جہتوں سے نکل کرایک راہ مستقیم اختیارکرتی ہوئی نظرآرہی ہے ۔ اس طرز فکرسے قوم کا دل و دماغ اپنے مستقبل کے اہم مسئلے پریکسوجب کہ زبانوں پرایک ہی نعرہ ایک ہی منزل ہے۔ انتخابی عمل مسئلہ کشمیرکی ہیت کو 1947 ء سے لے کر آج تک متاثر کر تارہا ہے۔بھارت نواز جماعتیں ووٹ لیکر کشمیریوں کا استحصال کرتی چلی آئی ہیں جب کہ دلی کشمیرمیں ہونے والے الیکشن کو کشمیریوں کے ریفرنڈم کے طور پر پیش کرکے عالمی برادری کو اپنا مخالف سیاسی بیانیہ کھڑا کرتاکرآرہاہے ۔ پندرہ اگست 2012 اس وقت کے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے کشمیر سے متعلق ایک ہی بات کہی اور وہ یہ کہ کشمیریوں نے پنچایتی انتخابات میں حصہ لیا ،اس لئے وہ ہمارے ہیں۔ کشمیر میں ہورہے انتخابات میں ووٹ ڈالنا یانہ ڈالنا کوئی اہم تحریکی ایشو ہے یانہیں،اس سوال کا جواب کشمیرسے باہرنکل کرنہایت آسانی کے ساتھ مل جاتاہے۔امریکہ سے یورپ اورپھرساری دنیامیں اس سوال کاجواب اس وقت مل جاتاہے جب کشمیریوں کے مسئلہ حق خودارادیت کی وکالت کرنے والاکوئی سفیر اورکوئی وکیل کسی فورم میں کھڑاہوکرنہایت ہی فصیحانہ اوربلیغانہ انداز میں کشمیریوں کوحق خودارادیت دلانے کی بات کرتاہے تواپنی مغز ماری کے بعد اسے یہ کورا جواب ملتاہے کہ کشمیرمیں باضابطہ الیکشن ہورہے ہیں ،وہاں لوگ قطاراندرقطارووٹ ڈال کراپنے نمائندوں کاچنائو کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک حکومت کا قیام عمل میں آتا ہے جو لوگوں کے روز مرہ مسائل حل کرتی ہے،توپھراختلاف کس بات کا؟کیوںکہ دنیا بھر میں جمہوریت کاڈھول پیٹنے والے افلاطون صرف یہ بات سمجھتے ہیں کہ کہیں اگر نام نہاد سول حکومت قائم ہے اور لوگ بھی ووٹ دیتے ہیںتوپھر کوئی سیاسی مسئلہ نہیں رہتا۔ کشمیریوں کے حق خودارادیت کی وکالت کرنے والے سفراء اوروکلاء اس دلیل کومستردکرتے ہوئے اپنے موقف کو حق بجانب قراردیتے ہیں لیکن رکاوٹیں ضرورکھڑی ہوجاتی ہیں ۔بھارت کے تمام سفارتی مشن جوپوری دنیا میں سرگرم ہیں،وہ کشمیرمیںہونے والے ڈرامائی انتخابات میںپولنگ بوتھوں پر کشمیری عوام کی لگی لمبی قطاروں کی ویڈیوزعام کرکر کے بین الاقوامی رائے عامہ کویہ کہتے ہیں کہ کشمیریوں کوبھارت کے ساتھ رہنے میںکوئی امر مانع نہیںہے وہ بھارت نواز جماعتوں کوووٹ دیکر اس امرکی توثیق کرتے ہیں کہ وہ اپنے حال پر خوش ہیں،البتہ ’’ شدت پسندا ور بنیاد پرست گیلانی‘‘ جیسے مٹھی بھر لوگ انہیںبہکانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔اس لئے کشمیر میں ایک بھی ووٹ پڑنے سے ہی عالمی رائے عامہ کشمیراورکشمیریوں کے بارے میں مغالطہ کھاتی ہے کہ کشمیرمیں امن قائم ہوچکا ہے ،عوامی نمایندوں پرمشتمل باضابطہ ایک اسمبلی کام کررہی ہے ، وہاں چنا ہوا باضابطہ ایک وزیراعلیٰ ہے جس کی کیبنٹ کام کررہی ہے ۔ اس سارے منظر نامے کوسامنے رکھتے ہوئے کشمیرکے مسئلے سے جڑے ہوئے کئی اصحاب فکرودانش کاخیال ہے کہ کشمیر میں الیکشن کے بجائے گورنرراج کا نفاذ بہترہے، کیونکہ تحریک کے حق میں اسی وساطت سے کئی فوائدحاصل کئے جاسکتے ہیں۔بہرحال سری نگرمیںالیکشن آفیسر شانت منو نے نو اپریل کی شام کو اپنی پر یس بر یفنگ میں اعتراف کیا کہ فوج کی بڑی تعدادکی موجودگی کے باوجود ڈیڑھ ہزار پولنگ مراکز میں سے کم از کم دو سو مراکز پر دھاوا بولا گیا۔انہوں نے انتخابات کی شرح کوانتہائی مایوس کن قراردیا۔الیکشن آفیسر نے6.5فیصدووٹ کاسٹ ہونے کادعویٰ کیا حالانکہ منطقی اور ریاضی طور پر صحیح اوردرست نہیں۔ کیونکہ 8نوجوانوں کوشہیداور250کوزخمی کئے جانے کے بعد اس شرح کی کوئی اعتباریت باقی نہیں رہتی ہے۔ الیکشن ڈرامے کے نام پر یہ دراصل سری نگراوراس کے متصل ضلع بڈگام اورگاندربل ضمنی انتخابات کا ڈرامہ رچانے کے دوران اضافی فوجی دستے بلائے گئے تھے،حکومت ہند نے20 ہزار نیم فوجی اہلکاروں کو پولنگ مراکز کی نگرانی کے لیے تعینات کیا تھا اور انٹرنیٹ کی سہولت کو معطل رکھاگیاتھا ۔ ۱۲ ؍اپریل کو اسلام آباد میں مجوزہ الیکشن کو منسوخ کر کے یہ بات سر کاری طور پر تسلیم کی گئی کہ سری نگر میں ہوئی ماردھاڑ لا اثر اس حلقۂ انتخاب میں زیادہ پڑے گا کیونکہ جنوبی کشمیر میں حالات فورسز اور ان کے سیا سی سر پرستوں کے قابو سے باہر ہیں ۔واضح رہے کہ جنوری 2016میں جب سابق وزیراعلی مفتی سعید کا انتقال ہوا تو اس وقت محبوبہ مفتی بھارتی پارلیمینٹ کی ممبر تھیں۔والد کے انتقال کے بعدجب وہ وزیرعلیٰ نامزدہوئیںتو جنوبی کشمیر کے چار اضلاع اسلام آباد،پلوامہ، کو لگام اورشوپیان پر مشتمل پارلیمانی نشست خالی ہو گئی۔ چند ماہ بعد محبوبہ کے قریبی ساتھی طارق حمید قرہ پارٹی چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہوگئے توسری نگرکی پارلیمانی سیٹ خالی ہوئی۔سری نگرسیٹ کے لئے الیکشن ڈرامہ کا بڑاکردارسابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ ہے جب کہ جنوبی کشمیر کی نشست پر تصدق مفتی دوسراکردارہے ۔فورسز کے ہاتھوں9،اپریل کے خونی کھیل انجام پانے اور8نوجوانوں کی شہادت واقع ہونے سے پانسہ ا س قدرپلٹ گیاکہ بھارتی الیکشن کمیشن نے بدھ 12؍اپریل کوکشمیرمیں ہونے والے الیکشن ڈرامہ کادوسراسین یہ کہتے ہوئے منسوخ کردیا کہ کشمیرکے حالات ساز گارنہیں لیکن جب یہ منعقد ہوں گے اس وقت کون ضمانت دے سکتا ہے کہ کشمیر کو خاندانی راج کے رسیا پھرا یک بار خون میں نہ نہلائیں ۔